حکومت اپوزیشن کا راستہ روکنے کیلئے کیا حکمت عملی اپنائے گی؟

شاہد حمید  بدھ 21 اکتوبر 2020
 کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری سے بہرکیف اپوزیشن کو دھچکا تو لگا ہے

کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری سے بہرکیف اپوزیشن کو دھچکا تو لگا ہے

 پشاور: اپوزیشن جماعتوں نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے زیر اہتمام گوجرانوالہ اور کراچی میں جلسوں کا انعقاد کر لیا ہے جبکہ اب ان کا اگلا پڑائوکوئٹہ میں ہوگا، تاہم اپوزیشن کی راہ میں رکاوٹیں آنا شروع ہوگئی ہیں کیونکہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری سے بہرکیف اپوزیشن کو دھچکا تو لگا ہے۔

تاہم دوسری جانب کی صورت حال یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے اکٹھ اور دو جلسوں کی وجہ سے حکومت بھی دبائوکا شکار نظر آرہی ہے یہی وجہ ہے کہ تمام تر حکومتی ترجمانوں نے اپوزیشن پر لفظی گولہ باری شروع کر رکھی ہے جس کا مقصد عوام کا رخ اپوزیشن سے موڑ کر حکومت کی طرف کرنا ہے۔

تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے پریشان حال عوام ، حکومت سے نالاں ہونے کے باعث اپوزیشن کے جلسوں کا رخ کر رہی ہے جس کا فوری طور پر تو ردعمل یہی ہونا چاہیے تھا کہ پوری کی پوری حکومتی مشینری مہنگائی کو کم کرنے اور عوام کو ریلیف دینے میں جت جاتی تاہم اب بھی حکومت تین سے چار ہفتوں کی بات کر رہی ہے کہ اس میں عوام کو ریلیف ملے گا۔

اپوزیشن جماعتیں گوجرانوالہ اور کراچی کے بعدکوئٹہ جلسے کی تیاریوں میں مصروف ہیں تاہم جس انداز اور طریقے سے حکومت ردعمل ظاہرکر رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے لگتا نہیں کہ اپوزیشن جماعتیں اتنی ہی سہولت کے ساتھ مزید جلسے منعقد کر پائیں، چونکہ رواں ماہ اکتوبر میں اپوزیشن کا آخری جلسہ کوئٹہ میں ہونا ہے جس کے بعد اگلے ماہ کی 22  تاریخ کو پشاورمیں میدان گرم ہوگا۔

اس لیے اپوزیشن جماعتوں کو بھی اپنی اگلی صف بندی کے لیے اچھا خاصا وقت ملے گا جبکہ دوسری جانب حکومت بھی حالات کے مطابق ہی اپوزیشن کے ساتھ نمٹنے کی تیاری کرے گی ، اگرچہ بلوچستان میں بھی پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت اقتدار میں ہے اور اس اعتبار سے اپوزیشن جماعتوں کو وہاں بھی مشکلات پیش آسکتی ہیں تاہم اصل اگلا مرحلہ پشاور کا ہوگا جہاں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بھی ہے اور وزیراعلیٰ محمودخان نے جس انداز میں سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کی تقریر کے حوالے سے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

اسے دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ پشاورمیں اپوزیشن کو مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اپوزیشن کو جلسے کرنے دیئے جائیں گے تاہم دو جلسوں کے بعد ملک میں جو صورت حال بنی ہے اور جس طریقے سے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے اسے دیکھتے ہوئے لگتا نہیں کہ حکومت اسی انداز میں اپوزیشن کو مزید جلسے کرنے دے گی جس انداز میں گوجرانوالہ اور کراچی میں ان کے لیے میدان کھلا چھوڑا گیا۔

اس سلسلے میں پہلا امتحان تو بہرکیف کوئٹہ کے حوالے سے ہی درپیش ہے کہ وہاں کی حکومت، اپوزیشن کے جلسے کے حوالے سے کیا حکمت عملی اپناتی ہے جبکہ اس کے بعد اگلے تین جلسے پشاور، ملتان اور لاہور میں منعقد ہونے ہیں اور یہ تینوں جلسے ان شہروں میں منعقد ہونگے کہ جہاں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اس لیے قرائن بتا رہے ہیں کہ اپوزیشن کو ٹف ٹائم ضرور ملے گا، لاہور جلسے کے بعد کی حکمت عملی کا اعلان اب تک نہیں کیا گیا جو ممکنہ طور پر اسلام آباد میں جلسہ اور احتجاجی مظاہروں کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔

دوسری جانب جماعت اسلامی نے بھی یکم نومبر سے حکومت مخالف تحریک شروع کرنے کا اعلان کیاہے ۔ چونکہ اپوزیشن کے جلسوں کی وجہ سے میدان گرم ہو چکا ہے اس لیے ان حالات میں جماعت اسلامی کا باہر نکلنا اور حکومت مخالفت میں احتجاج کرنے سے حکومت کے لیے مزید مشکلات بڑھیں گی۔

ایک جانب حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں ہیں جبکہ دوسری جانب اپوزیشن کی تمام جماعتیں حکومت مخالفت میں میدان میں موجود ہیں، ان حالات میں یقینی طور پر صوبائی حکومتوں کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں کیونکہ وہ ان حالات میں عوام کو مہنگائی اور دیگر امور میں ریلیف دینے سے متعلق اقدامات کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی حکومت پر دبائوکو کم کر سکتی ہیں اسی لیے صوبائی حکومتوں کی جانب سے اضلاع کی سطح پر انتظامیہ کو متحرک کر دیا گیا ہے جس کے ساتھ ممکنہ طور پر ٹائیگرفورس کا تعاون بھی حکومت کو حاصل رہے گا۔

تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت کو مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے غیر معمولی انداز میں اقدامات کرنا ہونگے تب ہی صورت حال کنٹرول میں ہوگی اور اس کے لیے حکومت کے پاس بھی اپوزیشن کی طرح وقت کم ہے۔

اپوزیشن کی ساری جدوجہد مارچ کے مہینہ تک دکھائی دے رہی ہے یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی کوشش ہے کہ دسمبر کے مہینہ کوفیصلہ کن بنایا جا سکے جبکہ اسی طرح اس مشکل صورت حال سے نکلنے کے لیے حکومت کو بھی اس وقت کا بھرپور طریقے سے استعمال کرنا ہے اورعوام کو ریلیف دینے سے متعلق اقدامات کرنے ہونگے تاکہ عوامی رائے کو وہ اپنی جانب ہموار کر سکیں اس لیے کہ اگر اس وقت ملک میں کوئی ایڈونچر ہوتا ہے اور نظام کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس کے یقینی طور پر منفی اثرات ہی مرتب ہونگے۔

جس سے بچنے کے لیے ضروری ہوگا کہ حکومتی مشنیری کا عوامی مفاد میں زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جا سکے، مشکل کی اس گھڑی میں خیبرپختونخوا حکومت اپنا حصہ ضرور ڈالنا چاہے گی کیونکہ خیبرپختونخوا پی ٹی آئی کا قلعہ ثابت ہوا ہے جہاں سے پی ٹی آئی دو مرتبہ اکثریت حاصل کرتے ہوئے حکومت بنانے میں کامیاب ٹھہری اس لیے پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کو خیبرپختونخوا سے امیدیں بھی کچھ زیادہ ہی ہونگی جس کی وجہ سے خیبر پختو نخوا حکومت کو بھی بھرپور انداز میں متحرک ہونا ہوگا۔

وزیراعلیٰ محمودخان خود بھرپور انداز میں متحرک ہیںاور وہ صوبہ کے بندوبستی کے علاوہ قبائلی اضلاع پر بھی فوکس کیے ہوئے ہیں کیونکہ ان قبائلی اضلاع اور وہاں بسنے والوں میں ستر سالوں کی محرومیاں پائی جاتی ہیں جنھیں ختم کرنے کے لیے دوڑ لگانے کی ضرورت ہے اورآئندہ عام انتخابات میں ان قبائلی اضلاع کی سولہ نشستیں حکومت سازی اور سیاسی پارٹیوں کے اتار چڑھائو میں اہم کردارادا کریں گی، گوکہ قبائلی ارکان اس وقت بھی صوبائی اسمبلی کا حصہ ہیں لیکن عام انتخابات کے گیارہ ماہ بعد وہاں انتخابی عمل ہونے کی وجہ سے نہ تو ان نشستوں کی اہمیت کا اندازہ حکومت سازی کے وقت ہو سکا اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کو اکثریت ملنے کے وقت، تاہم اگلے انتخابات میں ایسی صورت حال نہیں ہوگی۔

یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ کا پورا فوکس قبائلی اضلاع پر ہے تاہم ان کی کابینہ اس انداز میں قبائلی اضلاع پر توجہ نہیں دے پا رہی ہے جس انداز میں وہاں توجہ دینے کی ضرورت ہے حالانکہ وزیراعلیٰ بار، بار اپنی ٹیم کے ارکان کو اس بارے میں ہدایات جاری کر چکے ہیں جنھیں اس انداز میں سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔