ضد کا نتیجہ کیا نکلے گا؟

محمد سعید آرائیں  جمعرات 22 اکتوبر 2020
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

روزنامہ ایکسپریس کی خبرکے مطابق پی ڈی ایم تحریک سے پی ٹی آئی حکومت کی رخصتی کے امکانات کم ہیں جب کہ پی ڈی ایم نے اپنے دو بڑے جلسوں کے ذریعے اپنی حکمت عملی واضح کردی ہے کہ موجودہ حکومت کو رخصت ہونا پڑے گا۔

پی ڈی ایم خود یہ بتانے سے قاصر ہے کہ ان کے مطالبات کس طرح منظور ہوں گے اور مطالبات کون منظورکرائے گا؟ اس وقت وفاقی حکومت اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہیں اور قومی اسمبلی میں ان ہاؤس تبدیلی کے امکانات بھی کم ہیں۔ پی ڈی ایم کے پاس جلسوں کے بعد دھرنے اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے آپشنز ضرور موجود ہیں جو اپوزیشن کے آخری پتے ہوں گے۔

گیارہ جماعتی اپوزیشن کے کامیاب جلسوں سے حکومت لاکھ کہے کہ وہ پریشان نہیں مگر حکومتی رویہ صاف ظاہر کر رہا ہے کہ وہ دباؤ میں ہے۔ وزیر اعظم بتا چکے ہیں کہ وہ اب اس اپوزیشن سے کیسے نمٹنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور وہ اپوزیشن کو اپنا دوسرا روپ دکھانے کا بھی کہہ چکے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ اپوزیشن کی مشکلات میں اضافہ ضرور ہوگا، جس سے ڈرکر اپوزیشن خاموش نہیں ہو جائے گی بلکہ اپنی تحریک میں ضرور تبدیلی لا کر اپنی بقا کی جنگ کرے گی۔

مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ اب جنگ شروع ہوچکی ہے جس کو انجام تک پہنچا کر رہیں گے۔ وزیر اطلاعات شبلی فراز کا کہنا ہے کہ حکومت کسی دباؤ میں نہیں آئے گی۔ فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی نہیں بلکہ ملک کی ضرورت ہے کہ اپوزیشن کی تحریک کو ناکام بنایا جائے۔

وفاقی وزراء اور اپوزیشن رہنماؤں کے بیانات سے واضح ہو رہا ہے کہ اپوزیشن نے حکومت کے خلاف مختلف مراحل میں اپنی جن تحاریک کا اعلان کیا ہے وہ اسے ہر حالت میں منطقی انجام تک پہنچانے کی بھرپور کوشش جاری رکھے گی۔

وفاقی وزیر شفقت محمود کو جواب دیتے ہوئے پی پی رہنما مصطفیٰ نواز نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کے تمام فیصلوں پر عمل کی پابند ہے کیونکہ موجودہ حالات میں جو بھی اپوزیشن پارٹی متفقہ فیصلوں پر عمل نہیں کرے گی وہ عوام سے کٹ جائے گی اور پیپلز پارٹی متفقہ فیصلوں کے مطابق اسمبلیوں سے مستعفی ہو جانے کے فیصلے پر عمل کی پابند ہے۔

حکومت اور اپوزیشن رہنماؤں کے بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ معاملات اب پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ چکے ہیں اور ماضی میں بالاتر حلقے ایسے حالات میں جوکردار ادا کرچکے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ اب ان کی پالیسی کیا ہے۔ حکومت خود مکمل طور پر بالاتروں کی حمایت میں کھڑی ہے اور حکومت کہہ چکی ہے کہ بالاتر اور حکومت ایک پیج پر ہیں اور دونوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

بالاتروں کی طرف سے واضح کیا جاچکا ہے کہ وہ قانون اور آئین کے تحت منتخب حکومت کی حمایت کرتے ہیں مگر ظاہر ہے کہ بالاتر حلقے آئین پر عمل کے پابند ہیں اور ملک میں ہونے والے کسی غیر آئینی کام میں فریق نہیں بننا چاہیں گے اور اگر حکومت نے اپنی ریاستی طاقت کے باعث خود بھی کوئی غیر آئینی کام کیا تو نہ صرف اپوزیشن کی طرف سے اس کی سخت مذمت ہوگی اور ملک میں مسلسل بڑھنے والی سیاسی کشیدگی اس مقام تک پہنچ جائے گی جہاں سے فریقین کی واپسی ناممکن ہوجائے گی۔

جس سے ملک و قوم کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا تو بالاتر حلقے کیسے چاہیں گے بہت برے معاشی حالات میں مبتلا ملک کی سلامتی کو خطرات لاحق اور قومی سلامتی خطرے میں پڑ جائے۔ حکومت کہہ چکی ہے کہ وہ دباؤ میں نہیں آئے گی اور اپوزیشن کی تحریکوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ ماضی میں بھی ہر حکومت اپنے خلاف تحریکوں میں ایسا کہتی رہی ہے اور عوام بھی دیکھ چکی ہے کہ ماضی میں ایسا عارضی طور پر تو ممکن ہوا مگر فوجی یا سویلین کوئی حکومت کامیاب نہیں ہوئی اور اسے اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔

موجودہ صورتحال میں اگر اپوزیشن اور حکومت اپنی اپنی ضد پر اڑے رہے اور حکومت نے عوام کا موڈ نہ سمجھا اور اپوزیشن سے لڑائی جاری رکھی تو اپوزیشن اسمبلیوں سے مستعفی ہونے پر مجبور ہو ہی گئی تو ممکن نہیں ہوگا کہ اتنی زیادہ نشستوں پر حکومت ضمنی انتخابات کراسکے۔ حکومت اپنی ضد پر اڑ کر ایسا کرنا چاہے گی تو ملک بھر میں خونریزی کا خدشہ بالاتر بھی برداشت نہیں کریں گے اور اپوزیشن کی تحریک اور حکومتی ضد ملک کو موجودہ جمہوریت سے بھی محروم کردے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔