بیسویں صدی کا سرسیّد

امجد اسلام امجد  جمعرات 22 اکتوبر 2020
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

17 اکتوبر کی شام بزمِ ہمدرد کے زیرِ اہتمام حکیم محمد سعید مرحوم کی سوویں سالگرہ اور برسی کے حوالے سے ایک پُروقار پروگرام تھا اور اُسی رات زوم پر ہیوسٹن (امریکا)میں علی گڑھ یونیورسٹی کی سوویں سالگرہ کی رعایت سے ایک عالمی مشاعرے کا اہتمام کیا گیا یوں چند ہی گھنٹوں کے درمیان دو صدیاں ، دو ماہرِ تعلیم اور دو عظیم انسان ایک جگہ پر جمع ہوگئے۔

سرسید احمد خان اور حکیم محمد سعید شہید کی مشترکہ خصوصیات کی فہرست جتنی طویل ہے اس سے زیادہ شاندار ہے لیکن میرے نزدیک ان کی سب سے نمایاں ،دُوررَس اور قیمتی بات اپنی قوم کی پسماندگی کا دکھ اور ترقی کی وہ خواہش تھی جس میں ان دونوں محترم ہستیوں کو ساری زندگی بے چین اور آمادہ عمل رکھا۔

سرسید تو علی گڑھ کالج کو اپنی آنکھوں کے سامنے یونیورسٹی بنتے نہ دیکھ سکے کہ اس کو یہ مرتبہ 1920 میں حاصل ہوا لیکن حکیم صاحب کی ہمدرد یونیورسٹی ، مدینتہ الحکمت، ہمدرد فاؤنڈیشن ، بزمِ نونہال اور مجلسِ شوریٰ سب کے سب اُن کی زندگی ہی میں پودوں سے تناور درختوں کی شکل اختیار کر گئے اس موازنے سے مراد محض خواب اور تعبیرِ خواب کی ان منزلوں کو واضح کرنا ہے جو ایک صدی کے فرق کے باوصف اپنی جگہ پر آج بھی روشنی پھیلا رہے ہیں دونوں بزرگ ذاتی زندگی میں جس قدر سادہ اور دھیمے مزاج کے تھے قومی اور ملّی معاملات میں  ان کا جوش و خروش اس کے بالکل اُلٹ اور قابلِ دید و تقلید تھا۔

حکیم صاحب کے حوالے سے ایک بات جس کا میں نے متذکرہ تقریب میں سرسری سا ذکر بھی کیا تھا ایسی ہے کہ اسے دُہرانا اور آج کی نسل کے علم میں لانا اس لیے بہت ضروری ہے کہ اس میں اُس اجتماعی درد کی بازگشت سنائی دیتی ہے جسے حکیم صاحب کی طرح شاید ہی کسی نے محسوس کیا ہو۔ بوسنیا کے مظلوم مسلمانوں اور یتیم بچوں کی مدد اور تعلیم وتربیت کے لیے اُن کے کاموں سے تو ایک دنیا آشنا ہے لیکن اس ضمن میں ایک بات ایسی ہے جس کے چشم دید گواہ شائد صرف ایس ایم ظفر اور یہ خاکسار ہی ہیں۔

ہوا یُوں کہ کہیں سے ایک بوسنین صحافی کی لکھی ڈائری نما کتاب اُن کے ہاتھ لگ گئی، صحافی کا نام رزاق ہکانووک اور کتاب کے انگریزی ترجمے کا عنوان Tenth Circile of Hell تھا جس میں رزاق ہکانووک نے اپنی گرفتاری اور قید کے زمانے کی سرگزشت اس طرح سے قلمبند کی تھی کہ اُس دور کی پوری تصویر سامنے آجاتی ہے۔

حکیم صاحب نے اس  کتاب کا ذکر ایس ایم ظفر صاحب سے کیا اور یہ فیصلہ کرنے کے بعد کہ اس کتاب کا اُردو میں بھی ترجمہ ہونا چاہیے۔ ان بزرگوں کی نظر انتخاب و عنایت پتہ نہیں کیسے مجھ پر پڑی ، میں نے بہت عرض اور وضاحت کی کہ شاعری کی حد تک انگریزی سے ترجمے کی گنجائش تو کسی نہ کسی طرح سے نکل آتی ہے مگر نثر کے ترجمے میں آسانیاں کم اور پابندیاں زیادہ ہوتی ہیں اور انگریزی زبان پر میری محدود دسترس کا تقاضا ہے کہ میں اس کام میں ہاتھ نہ ڈالوں لیکن میرے اس اعترافِ حقیقت کو دونوں بزرگوں نے رد کردیا اور ’’جہنم کی دسویں گہرائی‘‘ کے  نام سے مجھے یہ ترجمہ کرنا ہی پڑا اس ساری حکایت کے بیان کا اصل مطلب یہ ہے کہ اس ترجمے کے دوران مختلف ملاقاتوں میں حکیم صاحب کی جس غیرمعمولی اور جوشیلی مِلی سوچ اور بصیرت سے میرا تعارف ہوا وہ اُن کی شخصیت کا ایک ایسا رُوپ تھا جس سے ملتی جُلتی بھی کوئی چیز اب شائد ہی کہیں ملے۔

آخری عمر میں اُن کا سارا زور نئی نسل اور بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف تھا کہ وہ اپنے دور کی سیاست اور سیاستدانوں سے مایوس اور نااُمید ہوچکے تھے اور ان دونوں کے بارے میں اُن کے اندر ایک ایسی تلخی پیدا ہوگئی تھی جو اُن کے عمومی مزاج سے بالکل لگّا نہیں کھاتی تھی، بالخصوص کراچی میں اُس زمانے کی ایم کیو ایم نے جو صورتِ حال پیدا کر رکھی تھی اُس سے وہ بے حد نالاں تھے کہ وہ جس پاکستان کے خواب کی تعبیر کے لیے ایک بنے بنائے کاروبار کو چھوڑ کر ہجرت پر آمادہ ہوگئے تھے وہ کوئی اور پاکستان تھا۔

اپنی ذات اور ادارے کی سطح پر وہ ساری زندگی تعلیم اور صحت کے میدانوں میں اپنا سب کچھ قربان کرتے رہے اور شائد انفرادی سطح پر آج بھی کسی مثال سے بالاتر ہیں مگر اخلاقی اقدار کی پامالی اور سیاسی ماحول کی گراوٹ اُن سے برداشت نہیں ہوتی تھی اور پھر ہم نے دیکھا کہ کس طرح اس آدرشی اور عظیم انسان کو اُس کے اپنے ہی شہر اور قائداعظم کے مزار کے نواح میں خاک و خون میں نہلادیاگیا۔میرے نزدیک لیاقت علی خان کے بعد وہ دوسرے نامور پاکستانی تھے جن کی شہادت کی بنیادی وجہ اپنے وطن سے محبت اور اس کی اعلیٰ اقدار کی پاسداری تھی۔ اس نظم میں انھیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اُن عناصر کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جن کے کان حق کی آواز کو سننے اور جن کے دل اُسے سمجھنے سے محروم تھے۔

کوئی خواب تھا

کسی اور خواب کے درمیاں کوئی خواب تھا

جو بکھر گیا

وہ بکھر گیا تو ٹھہر گئیں کئی سسکیاں سی ہواؤں میں

وہ جو شہر ،  شہرِ نگار تھا کسی آنکھ میں

اُسی شہرِ جاں کی فضاؤں میں

وہی آنکھ دشنہ تیرگی کا ہدف بنی

وہی شہر پَل میں اُجڑ گیا

وہ جو اِک شجر تھا وقار کا

وہ جو نامہ بر تھا بہار کا

کسی موڑ پر جو رُکا نہیں

وہ جو کٹ گیا پہ جُھکا نہیں

وہ پڑا رہا کسی صبح اپنی ہی چھاؤں میں

اُسی شہرِ جاں کی فضاؤں میں

وہ جو اک تبسم جانفزا کسی رُخ پہ تھا

وہ جو دھیمے دھیمے سے حرف تھے کسی ہونٹ پر

وہ نہیں رہے

وہ نہیں رہے تو پتہ چلا

یہ جوگَِرد اُڑتی ہے کوبکو

یہ جو چار سُو کسی بے دلی کا حصار ہے

کوئی نیم سوز سی راکھ ہے کوئی بے جہت سا غبار ہے

اسی راکھ میں اسی گرد میں

مری آنکھ سے تری آنکھ تک

وہی خواب اب کسی اور خواب کے درمیان ہے مشکبو

وہ جو خون خاک میں مل گیا

مری فصل گل کی ہے آبرو ، مرے شہرِ جاں کی بہار ہے

اسی تیرگی میں یہیں کہیں ، کسی روشنی کا مزار ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔