سندھ پولیس کی غیرت یا سیاست کا ہاتھ

محمد عرفان چانڈیو  جمعرات 22 اکتوبر 2020
کیا ہمیشہ کی طرح سندھ پولیس کی پشت پر سیاست کا ہاتھ پھیرا گیا ہے؟ (فوٹو: فائل)

کیا ہمیشہ کی طرح سندھ پولیس کی پشت پر سیاست کا ہاتھ پھیرا گیا ہے؟ (فوٹو: فائل)

پنجاب کے ایک دیہات میں چچا خدا بخش ہوا کرتے تھے جن کو نیند بہت پسند تھی، اکثر سوئے رہتے۔ اول تو گھر کے کسی فرد میں ان کو نیند سے اٹھانے کی ہمت نہ ہوتی اور اگر کوئی ہمت کر بھی لیتا تو چچا خدا بخش بہت مایوسی اور اکتائے ہوئے لہجے میں کہتے کہ کبھی نیند نہ پوری ہونے دینا۔ چچا خدا بخش اپنے پوتے سے بہت پیار کرتے تھے، جب کبھی اُن کو نیند سے فرصت ملتی تو بس اس کے ساتھ وقت گزارتے۔ ایک دن چچا خدا بخش کو ان کے پوتے نے نیند سے جگا دیا۔ خدا بخش کا غصے سے منہ لال پیلا تھا مگر لاڈلا ہونے کی وجہ سے انہوں نے اپنے منہ پر مسکرائٹ لاتے ہوئے خاموشی اختیار کی۔

’’بابا آپ سارا دن سوئے رہتے ہیں۔ ایسا کیوں؟‘‘ ان نازک لبوں سے یہ آواز چچا خدا بخش کے کانوں میں رس گھولتی گئی۔
’’بیٹا یہ بات ٹھیک ہے کہ میں سوتا بہت ہوں مگر یہ بھی تو شکر ادا کیا کرو کہ میں اٹھ جاتا ہوں۔‘‘

یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد تھا کہ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ سندھ پولیس کی نیند کھل گئی، ورنہ یہ تو عرصہ دراز سے لمبی تان کر سوئے ہوئے تھے۔ مگر اس ناچیز اور صحافت سے دور انسان کے دماغ میں ایک سوال ہے جو نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ بات نکلے گی تو پھر دور تک جائے گی۔

رات کے 2 بجے آئی جی سندھ کے گھر کا گھیراؤ کرکے ان کو اپنے ساتھ لے جانا اور 4 بجے تک ان کو مہمان بنانے کے بعد واپس خیر خیریت سے چھوڑ بھی دینا۔ اس اثناء میں ڈیموکریٹک موومنٹ کا کچھ اداروں پر الزام لگانا۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی جی سندھ کو 2 بجے لے کر جانے اور پھر واپس چھوڑ کر جانے والوں کو کیا سندھ پولیس یا دیگر میڈیا نے نہیں دیکھا؟ اور اگر دیکھا تو وہ بہادری کا اعلیٰ مظاہرہ پیش کرتے ہوئے ان کا نام ہی بتا سکتے تھے۔ ممکن ہے آئی جی صاحب کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی ہو۔ مگر یہ راز کی باتیں ہیں اور راز تو صرف خدا ہی جانتا ہے۔ ہم سب تو صرف ڈگڈگی آواز پر رقص کرنے والے بندر کا تماشا دیکھنے والے ہیں۔ مگر علی الصبح سندھ پولیس کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل عمران یعقوب منہاس کی غیرت چچا خدا بخش کی لمبی نیند کی طرح اچانک سے کھلی اور سندھ حکومت سے دو ماہ کی رخصت اس بنا پر طلب کرلی کہ تناؤ والی صورتحال میں ان کےلیے ممکن نہیں کہ وہ اپنے فرائض سر انجام دے سکیں۔

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب کراچی میں بے نظیر بھٹو کے بھائی مرتضٰی بھٹو پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے تو سندھ پولیس کے کسی افسر نے ایسا عمل سر انجام نہ دیا۔ چلیں دور کی بات چھوڑیئے، ماضی میں گئے تو یادیں تازہ ہوجائیں گی۔ وہ شاعر نے خوب کہا ہے ’’یاد ماضی عذاب ہے یا رب، چھین لے مجھ سے حافظہ میرا‘‘۔

2012 میں جب ایک ماہ کے دوران 400 افراد کا قتل ہوا اور کراچی خون میں ڈوبا دکھائی دے رہا تھا، اس وقت بھی سندھ پولیس کے کسی افسر کی نیند نہیں کھلی۔ مگر وہی چچا خدا بخش والی بات کہ چلو شکر ہے نیند کھل تو گئی۔ مگر واقعی نیند کھلی ہے یا پھر ہمیشہ کی طرح سندھ پولیس کی پشت پر سیاست کا ہاتھ پھیرا گیا ہے؟ اب یہ تو رپورٹ آنے پر ہی واضح ہوگا کہ سندھ پولیس کی غیرت تھی یا سیاست کا ہاتھ۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔