بلدیاتی انتخابات: جمہوری اسپرٹ کی ضرورت

ایڈیٹوریل  ہفتہ 21 دسمبر 2013
حکومت کی طرف سے دہری شہریت رکھنے والوں کو الیکشن سے باہر رکھنے کا فیصلہ احسن اور آئین کی پاسداری ہے. فوٹو: فائل

حکومت کی طرف سے دہری شہریت رکھنے والوں کو الیکشن سے باہر رکھنے کا فیصلہ احسن اور آئین کی پاسداری ہے. فوٹو: فائل

سپریم کورٹ کی ہدایت اور الیکشن کمیشن کے انتظامات کے تحت ملک کے باقی تین صوبوں پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی طرف پیش رفت جاری ہے۔ گزشتہ روز پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی کے اجراء کا سلسلہ شروع ہو گیا، انتخابی معرکے کے لیے نامزدگی فارم لینے والے امیدواروں کا رش لگ گیا، 36 ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز اور 691 ریٹرننگ آفیسرز تعینات کر دیے گئے، سندھ میں البتہ ترمیمی آرڈیننس کے خلاف احتجاج میں شدت آ رہی ہے، خیبر پختونخوا حکومت نے بھی صوبہ میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 ء کے تحت قواعد و ضوابط کا اجراء کر دیا۔

الیکشن میں مقناطیسی سیاہی کی بجائے پی سی ایس آْئی آر اور نادرا کی مشاورت سے مخصوص سیاہی استعمال ہو گی۔ دہری شہریت رکھنے والوں پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی ہو گی۔ کوئی بھی سرکاری عہدیدار انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکے گا۔ امیدواروں کے لیے ضابطہ اخلاق جاری کر دیا گیا ہے۔ بلوچستان جو رقبہ کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہے بلاشبہ اس نے سماجی اور سیاسی حوالے سے مخدوش ترین صورتحال ہونے کے باوجود بلدیاتی انتخابات کرانے کا شاندار کریڈٹ اپنی انتظامی اہلیت سے لے لیا ہے جب کہ دیگر دو بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے شفاف اور پر امن انعقاد کے ضمن میں سوچ بچار اور سنجیدہ اقدامات کا قوم بے چینی سے انتظار کر رہی ہے۔ یہ خوش آئند امر ہے کہ پنجاب میں 30 جنوری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں کاغذات نامزدگی کے اجرا کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ لاہور سمیت پنجاب بھر میں بلدیاتی انتخابات کے لیے امیدوار اپنے متعلقہ ریٹرننگ آفیسرز کے دفاتر سے کاغذات نامزدگی حاصل کر رہے ہیں۔

الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ نامزدگی فارم اردو میں بھی چھاپے گئے ہیں، جن میں ختم نبوت کا کالم بھی شامل کیا گیا ہے۔ 45 لاکھ سے زائد کاغذات نامزدگی چھاپے گئے ہیں۔ الیکشن کمشنر پنجاب کے مطابق امیدواروں کے لیے سیکیورٹی فیس 2 سے 20 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے، جب کہ انتخابی اخراجات کی حد 20 ہزار سے 2 لاکھ روپے تک ہو گی۔ تشہیری مہم پر بھی کڑی پابندی رکھی گئی ہے۔ پوسٹر کا سائز دو بائی تین فٹ، ہورڈنگ تین بائی پانچ فٹ بینر تین بائے نوفٹ سے زیادہ نہیں رکھا جائے گا جب کہ دستی پمفلٹ نو بائی چھ انچ سے زیادہ نہیں ہوگا۔ امیدوار جلسے جلوس نہیں نکال سکیں گے صرف کارنر میٹنگ کی اجازت دی گئی ہے۔ کاغذات نامزدگی کی وصولی 22 سے 27 دسمبر تک جاری رہے گی۔ انتخابی مہم کے دوران اسلحہ لہرانے اور فائرنگ کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ صوبائی الیکشن کمشنر نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 30 جنوری کو پنجاب کے 9 ڈویژن، 36 اضلاع اور 143 تحصیلوں کی 48336 یونین کونسلوں میں جماعتی بنیادوں پر الیکشن ہونگے۔

بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں صوبے میں ایک میٹرو پولیٹن، کارپوریشن، 11 میونسپل کارپوریشنز، 35 ضلع کونسلز،172 میونسپل کمیٹیوں اور 4028 یونین کونسلوں کے عہدیداروں کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔ پنجاب کی بیوروکریسی پر مکمل یقین ہے کہ وہ غیر جانبدار اور منصفانہ الیکشن کروائے گی۔ صوبائی الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ امیدواروں کے لیے حلقہ سے ووٹرز ہونے کی شرط ختم کر دی ہے اور جو بھی امیدوار اپنا ووٹ حلقہ میں ٹرانسفر کروانا چاہے وہ کر سکے گا۔ سیاسی جماعتوں کے لیے کاغذات نامزدگی پارٹی ٹکٹ کے ساتھ جمع کروانا لازمی ہے۔ ادھر خوش آئند امر یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے لیے جوش و خروش بڑھ رہا ہے، جاری قواعد و ضوابط کے تحت بلدیاتی انتخابات میں 8 مختلف رنگوں کے بیلٹ پیپروں کا استعمال کیا جائے گا جب کہ مذکورہ انتخابات میں ویلیج اور نیبر ہُڈ کونسلوں کے امیدوار 50 ہزار جب کہ تحصیل، ٹاؤن اور ضلع کی سطح کے امیدوار 2 لاکھ روپے تک کے انتخابی اخراجات کر سکیں گے۔

ہر سطح کے امیدواروں کے لیے یہ بھی لازمی قراردیا گیا ہے کہ وہ چھ ماہ سے زائد عرصہ کے لیے واپڈا، سوئی گیس اور پانی بلوں کی مد میں 2000 روپے کے مقروض نہ رہے ہوں، مذکورہ قواعد و ضوابط کے مطابق صوبائی حکومت کے تمام محکموں، ادارے اور افسران و اہلکاران بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کے ساتھ تعاون کرنے کے پابند ہوں گے۔ صوبہ سندھ گویا ’’بلدیاتی بد امنی‘‘ کا بھی شکار ہے جہاں تاحال بلدیاتی الیکشن کی فضا مکدر نظر آتی ہے، جمعہ کو سندھ اسمبلی میں بیک وقت 2 اجلاس ہوئے۔ سرکاری ارکان کا اجلاس سندھ اسمبلی کے ایوان میں جب کہ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے سندھ اسمبلی کی سیڑھیوں پر ’’اسمبلی‘‘ کا ہنگامی اجلاس منعقد کیا۔ لیکن اپوزیشن کے زبردست احتجاج کے باوجود 2 آرڈیننسز کی منظوری دیدی گئی۔ جس کے بعد یہ آرڈیننس سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کا حصہ بن گئے ہیں۔

آرڈیننس کی منظوری سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر عرفان اللہ مروت، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (فنکشنل) کے ارکان آرڈیننسز کو مسترد کرنے کے لیے قرار داد پیش کرنا چاہتے تھے لیکن اسپیکر کی رولنگ کے بعد مذکورہ تینوں اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے زبردست احتجاج کیا اور ’’کالا قانون نامنظور، ہم نہیں مانتے ظلم کے ضابطے، سندھ حکومت ہائے ہائے‘‘ کے نعرے لگائے۔ کافی دیر نعرے لگانے کے بعد اپوزیشن ارکان اسمبلی اجلاس کا بائیکاٹ کر کے چلے گئے، ساتھ ہی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی رابطہ کمیٹی نے اعلان کر دیا کہ نئی حلقہ بندیوں اور بلدیاتی ترمیمی آرڈیننس کے خلاف ایم کیو ایم آج (اتوار کو) کراچی سمیت صوبے بھر میں احتجاجی مظاہرے کرے گی۔ واضح رہے سندھ ہائیکورٹ نے کراچی، بے نظیر آباد، قمبر، شہداد کوٹ، نوشہرو فیروز اور دیگر اضلاع کی حد بندیوں اور سندھ لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) ایکٹ 2013ء کے خلاف دائر کردہ متحدہ قومی موومنٹ اور شہریوں کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت 23 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے گورنر اور وزیراعلیٰ سندھ سے ملاقات کی اور کہا کہ ایم کیو ایم کے لیے پی پی کے دروازے کھلے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ جمہوریت میں اختلافات کو دشمنی کا رنگ نہیں دینا چاہیے، اور اب جب کہ بلدیاتی شیڈول اور دیگر تمام اقدامات اور انتظامات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے سیاسی جماعتوں کو اپنے مسائل اور مطالبات کے حل کے لیے ایجی ٹیشن، میڈیا میں محاذ آرائی اور کشیدگی پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ملکی مفاد اسی میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ بلدیاتی الیکشن تو ہوتے ہی اس مقصد کے لیے ہیں کہ گراس روٹ لیول پر حق نمائندگی ان نوجوان، تجربہ کار اور تعلیم یافتہ افراد کو دیا جائے جن سے علاقے کے عوام کو گہری امیدیں وابستہ ہوں اور وہ ان کے روز مرہ کے مسائل کے حل میں ان کے قریب تر رہیں۔ دوسری طرف بلدیاتی الیکشن اس داغ کو دھونے کا بھی ایک سنہری موقع ہے کہ کسی جمہوری حکومت نے بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے۔ مہذب معاشرے میں اس بات پر ماسوائے تعجب کے اور کیا کہا جائے گا کہ پاکستان میں منتخب صوبائی حکومتیں بلدیاتی الیکشن تک شفاف اور منصفانہ طریقے سے کرانے کی اہلیت سے محروم ہیں۔

ادھر تحریک انصاف پنجاب کے صدر نے کہا ہے کہ حکومت بلدیاتی الیکشن پر دھاندلی کی منصوبہ بندی کر چکی ہمیں کوئی توقع نہیں کہ بلدیاتی الیکشن شفاف ہونگے، پھر بھی کارکن مکمل تیاری کر لیں، جب کہ حقائق پر نظر ڈالیں تو ابھی کچھ روز قبل بلوچستان میں بلدیاتی الیکشن ہوئے،132 اضلاع کی ڈسٹرکٹ کونسلز اور 635 یونین کونسلز کے لیے5718 پولنگ سٹیشنز قائم ہوئے، پورے کا پورا عملہ سرکاری اور ضلعی افسران پر مشتمل تھا، کسی نے دھاندلی کا الزام نہیں لگایا۔ بات صرف جمہوری اسپورٹس مین اسپرٹ‘ عوام کی بے لوث خدمت کے جذبہ سے وابستگی کے عملی اظہار کی ہے۔ حکومت کی طرف سے دہری شہریت رکھنے والوں کو الیکشن سے باہر رکھنے کا فیصلہ احسن اور آئین کی پاسداری ہے جب کہ سیاہی کا تنازعہ بھی اب نہیں اٹھنا چاہیے، آمرانہ دور میں بھی تو اسی سیاہی سے انگوٹھے سیاہ ہوتے رہے، لیکن بلدیاتی الیکشن کے کلی نتائج پر سیاہی نہیں پھیری گئی۔ اس لیے امید کی جانی چاہیے کہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات بلوچستان کی طرح بخیرو خوبی اور انتہائی شفاف طریقے سے منعقد ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔