یخ بستہ گاؤں سے الیکشن تک

عبدالقادر حسن  اتوار 22 دسمبر 2013
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

چلو گھر چلتے ہیں۔ میرے گاؤں والے گھر جو ان دنوں شدید سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے گھر کا نام ہے۔ پہاڑوں کی گود میں چاروں طرف پہاڑ جنھیں دیکھ کر ہی جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ سردی لاہور میں بہت ہے مگر یہاں سردی کا مقابلہ کرنے کا سامان بھی بہت ہے۔ مثلاً ابھی تک گیس ہے جس سے ہیٹر چلتے ہیں اور بجلی بھی فی الحال زندہ ہے۔ بازار میں کوئلہ اور لکڑی موجود ہے جس کے ٹکڑے لوہے کی چھوٹی سی انگیٹھی میں سمٹ جاتے ہیں لیکن پورا ماحول گرما دیتے ہیں کسی جلسہ باز لیڈر کی طرح ابھی تک بارش نہیں ہوئی اور سردی خشک ہے جیسے سردی نے ابھی تک ہاتھ نہیں دھویا۔ اس کے ہونٹ خشک ہیں اور جسم پر بھی خشک سردی جم گئی ہے۔ قحط کی اس حالت کو اللہ تعالیٰ بدل دے گا اور پھر سردی خطرناک نہیں رہے گی۔

ہم لوگ لاہور میں رہتے ہوں یا کسی پہاڑی گاؤں میں بھیگی ہوئی سردی کے عادی ہیں اور اس کی آمد سے پہلے اس کی تیاری کر لیتے ہیں۔ گاؤں میں سردی کا مقابلہ آگ سے کیا جاتا ہے کپڑے بس عام سے ہوتے ہیں لیکن آگ کپڑوں کی کمی دور کر دیتی ہے اور جس کمرے میں آگ جلتی ہے گھر والے اسی میں سوتے بھی ہیں۔ سردیوں میں لکڑی کی آگ سے یہ دھواں دھار ماحول اچھا لگتا ہے۔ جنگل کم پڑتے جا رہے ہیں اور لکڑی کی کمی ہمارے پہاڑی گاؤں میں بھی شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔

سردیوں کے موسم میں ایک میراثی چوہدری صاحب سے ملنے گیا تو انھوں نے خیر و عافیت دریافت کی اور بچوں کا پوچھا تو اس نے کہا کہ حضور ویسے تو خیریت سے ہی ہیں لیکن آگ مکی اور باجرے کی لکڑیوں کی ہے جب جلتی ہے تو اس کی سخت گرمی اور شعلوں میں پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور جب یہ جلد ہی بجھنے لگتی ہے تو فوراً آگے ہو جاتے ہیں بس یہی آگے پیچھے ہوتے رہنے کی مشقت (کھیچل) انھیں کھا جاتی ہے یہ تو میر صاحب کی مشہور نکتہ آفرینی ہے لیکن سردی میں اصلی لکڑی کی آگ بھی اب پوری طرح میسّر نہیں کہ ہر گھر میں سورج غروب ہوتے ہی جلنے لگے اور رات سونے تک جلتا رہے۔ سردیوں کی رات میں یہ آگ ایک مجلسی رونق تھی۔ جن گھروں میں گپ شپ اچھی چلتی ہو لوگ اس میں جمع ہو جاتے رات کھانا کھانے کے بعد حقہ ہاتھ میں لیے وہ کسی پسندیدہ گھر کا رُخ کرتے۔

یہ گھریلو ماحول کی بات ہے نوجوانوں کے لیے یہ گھریلو مجلسیں کچھ زیادہ پسندیدہ نہیں ہوتیں۔ اپنے محلے کے دارے (بیٹھک) میں وہ بزرگوں سے دور جمع ہوتے اور گانا بجانا ہوتا۔ کوئی داستان گو اگر آ جاتا تو وہ کوئی قصہ چھیڑ دیتا ،کوئی فوجی چھٹی پر آیا ہوتا تو وہ اپنی فوجی گپ سناتا اور کسی دور کی آبادی کی باتیں سناتا جنھیں محفل حیرت کے ساتھ سنتی۔ انگریزوں کے زمانے میں فوجی دور دراز کی چھاؤنیوں میں بھی ڈیوٹی دیا کرتے تھے۔ وہ خود جن چیزوں کو حیرت کے ساتھ دیکھتے چھٹی پر آ کر وہ دوسروں کو بھی اپنی اس حیرت میں شریک کرتے۔ پھر میں نے تو ایک بار ایک بزرگ سے کالے پانی (جزائر انڈیمان) کی عمر قید کے قصے بھی سنے۔ ٹانگوں میں ایک مدت تک بیٹریاں لگنے کی وجہ سے ان کی چال بدل گئی تھی۔

انھیں قتل کے مقدمے میں عمر قید کی سزا ہوئی جسے عبور بہ دریائے شور کے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ قید کے دوران ان سے زیادہ تر کاشت کا کام لیا جاتا چونکہ یہ جیل ایک جزیرے میں تھی اب امریکامیں بھی اکثر جیلیں پانی میں گھری ہوئی ہوتی ہیں اس لیے اس جیل سے بھاگنے کا امکان بہت کم ہوتا تھا لیکن پھر بھی شاید قیدیوں کو جیل کا احساس دلانے کے لیے ان کو ہتھکڑیاں اور بیٹریوں میں جکڑ دیا جاتا اس جیل میں آنے جانے کے راستے بھی ہوتے تھے جہاں سے قیدی اور جیل کا عملہ آتا جاتا تھا۔ بہر کیف یہ جیل بھی کسی زمینی جیل کی طرح ہوتی تھی۔ جس کے قیدی گھر والوں سے دور اداسی میں مارے جاتے تھے۔ سردیوں کے موسم میں گاؤں کے دارے، یہ لفظ دائرے یعنی حلقے سے نکلا ہوا ہے، کے اندر کمرے میں آگ اور باہر سخت سردی یوں یہ بہت پسندیدہ ہوا کرتے ہیں۔

کسی پہاڑی گاؤں کی سردی الفاظ میں بیان نہیں کی جاتی۔ تالابوں کا پانی کتنا ٹھنڈا ہوتا ہے گاؤں کے مویشی بھی۔ ایک ذہین دیہاتی کے الفاظ میں اس یخ پانی کو پیتے نہیں اسے کاٹتے ہیں چک ڈالتے ہیں۔ سرد موسم میں کھلے تالاب ٹھنڈے ہی رہتے ہیں۔ نہانے کے لیے عموماً مسجد کے غسل خانے ہی استعمال ہوتے ہیں اور سردیوں میں ان کے لیے ذرا بڑے سائز کے لوٹے ہوتے ہیں۔ مسجد میں گرم پانی ختم ہو تو پھر لکڑی لا کر پانی گرم کیا جاتا ہے اور دو لوٹوں کا پانی کافی رہتا ہے۔

سردی کا مزید ذکر کرنا تھا لیکن مجھے ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ میرا بیٹا اطہر حسن اپنے ادارے کا الیکشن جیت گیا ہے جب کہ اس کے تمام ساتھی ہار گئے۔ میں نے اسے الیکشن سے دور رہنے کا کہا تھا لیکن وہ بضد تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ میرے گھر والے سیاسی لوگ نہیں ہیں اور الیکشن میں شکست کا تصور بھی نہیں کر سکتے میرے بھائی مرحوم میاں سلطان نے اسمبلی کے الیکشن لڑا مگر اپنے مخالف امید وار کا وادی سون میں داخلہ بند کر دیا اور اسے کہلا بھیجا کہ تم ادھر مت آنا ورنہ واپسی کا ذمے دار میں نہیں ہوں گا۔ ان کا مد مقابل ایک مشہور شخص تھا جس نے یہ کہہ کر خاموشی اختیار کر لی کہ میں میاں صاحب کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ الیکشن میں فتح و شکست دونوں ہوتے ہیں اور ہم شکست والے لوگ نہیں ہیں۔ اللہ کا شکر کہ اطہر جیت گیا جب کہ اس کا پورا پینل ہار گیا۔ اب اسے اس اکیلی جیت کا بھرم رکھنا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔