اسوۂ حسنہ ﷺ

علامہ محمد تبسّم بشیر اویسی  جمعـء 23 اکتوبر 2020
خاتم النبیین رسول کریمؐ کا ہر عمل، دین، ایمان اور اسلام کی حسین ترین تشریح ہے
 فوٹو : فائل

خاتم النبیین رسول کریمؐ کا ہر عمل، دین، ایمان اور اسلام کی حسین ترین تشریح ہے فوٹو : فائل

اﷲ تعالیٰ نے تخلیقِ انسانیت کے رازوں میں ایک اہم راز اپنی معرفت رکھا ہے، اب اس معرفت کے حصول کے لیے پوری کائنات کھلا آئینہ ہے۔

چاند تاروں اور سورج کا طلوع و غروب بھی اس معرفت الہٰیہ کا ذریعہ ہے، آسمانوں کا بغیر ستونوں کے کھڑا ہونا اور زمین کا ہم وار فرش بھی اس معرفت کی نشانی ہے۔ دن رات کی تبدیلی، انسان، درند، چرند اور پرند کی تخلیق اور پھر ان کی حیران کن نشوونما، ان پر صحت و بیماری کا تسلّط اور موت، اسی معرفت کے نشانات ہیں۔

ہر شے میں اس کی معرفت کے نشانات پائے جاتے ہیں اور وہ نشانات اس کی واحدنیت کے گواہ ہیں۔ مگر ان تمام ذرایع معرفت سے عظیم ترین ذریعہ انبیائے کرامؑ کا وجود ہے۔ اس مقدس وجود کو جاننے، سمجھنے اور حصول کے لیے انبیائے کرامؑ کی حیات مقدسہ، ان کے اعمال و افعال سے واقفیت، ان کے ارشادات کی تکمیل بہت ضروری ہے۔

انسانی اصلاح کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ انہیں پڑھایا اور سکھایا جائے، وعظ و نصیحت کے ذریعے اعلیٰ اخلاق پیدا کیے جائیں۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اسے جبر سے ایک راستے پر لگادیا جائے۔ مگر ان ذرایع میں سے ایک اہم ترین ذریعہ اور کامل ترین طریقہ یہ ہے کہ کسی ایسی شخصیت کو پیش کر دیا جائے، جس کے علم و عمل، قول و فعل اور خد و خال کو دیکھتے ہی حصول اصلاح کے تمام طریقے عجز و انکساری سے سر جھکا دیں۔

یہ جاذبیت صرف انبیائے کرامؑ کے وجود مقدسہ میں ہی پائی جاتی ہے اور پھر سیّد الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا وجود مسعود تو وہ گوہر نایاب ہے، جس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ مسلمانوں کا سر فخر سے بلند ہے کہ انہوں نے اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے حالات زندگی کو اس طرح جامعیت سے بیان کیا ہے، جس کی مثال دنیا بھر کے راہ نماؤں میں کہیں اور نہیں مل سکتی۔ ملت اسلامیہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہ قوم قیامت تک اپنے رسول محتشم ﷺ سے دُور نہیں ہوگی۔

سیرت النبیؐ کو اپنانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ انسان فطری طور پر سکون کا متلاشی ہے اور سکون کی دولت سوائے آپؐ کے کہیں اور ملنا ممکن نہیں ہے۔ اسلام ایک مکمل ترین ضابطۂ حیات ہے۔ تکمیل اسلام کا تعلق قرآن حکیم اور حدیث نبویؐ سے ہے۔ قرآن حکیم کا ظہور حضورؐ کی زبان فیضِ ترجمان سے ہے اور سنّت رسولؐ کا تعلق حضورؐ کے عمل سے ہے۔ قرآن فہمی کے لیے حضور اکرمؐ کے ارشادات اور فرامین کی راہ نمائی بے حد ضروری ہے جو سیرت کا حصہ ہے۔

حضور اکرم ﷺ نے سب سے پہلا خطبے میں فرمایا: لوگو! میں تمہارے اندر زندگی کا ایک حصہ گزار چکا ہوں، تم بتاؤ اس میں تم نے مجھے سچّا پایا یا جھوٹا۔۔۔ ؟

یہ سیرت طیبہؐ کا اتنا صاف، کھرا، اجلا اور نکھرا ہوا پہلو ہے کہ اہل مکہ کو یک زبان کہنا پڑا۔ اے محمدؐ! ہم نے آپؐ کو ہمیشہ سچا پایا۔ حضور ﷺ کے اس سوالیہ فقرے میں واضح اشارہ تھا کہ میں نے جب عام گفت گو اور عام معاملات میں جھوٹ نہیں بولا، تو اتنی بڑی سچائی کہ میں اﷲ کا رسول ہوں، کیسے غلط ہو سکتی ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے اپنے وجود اور اپنی معرفت کے لیے حضور اکرمؐ کو بہ طور قطعی دلیل اور برہان ذکر فرمایا۔ ’’اے لوگو! تمہارے رب کی طرف سے برھان آگیا۔‘‘ لہٰذا آپؐ کی ذات، آپؐ کا ہر عمل اور آپؐ کے تمام معاملات معرفت الہٰیہ کی زبردست دلیل ہیں۔ حضوراکرمؐ کی سیرت ہی نجات اور ہدایت کی ضامن ہے۔ ہم نماز کی ہر رکعت میں ہدایت کی دعا کرتے ہیں، جس سے پتا چلتا ہے ہدایت اﷲ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے، اب وہ ہدایت حاصل کیسے ہو۔۔۔؟

’’اگر تم اس رسول معظم کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا لو گے۔‘‘ (سورہ توبہ)

اس ارشاد سے پتا چلتا ہے کہ حضور اکرمؐ کی اطاعت کے بغیر ہدایت پانے کا کوئی راستہ نہیں۔ قرآن مقدس نے حضور اکرمؐ کی سیرت طیّبہ کو پوری انسانیت کے لیے ایک حسین نمونہ قرار دیا ہے۔

’’بے شک! تمہارے لیے رسول اﷲ (ﷺ) کی مقدس ذات میں زندگی کا حسین نمونہ موجود ہے۔‘‘ (سورہ الاحزاب)

ہم دین، ایمان اور اسلام کو پہچاننے کے لیے حضور اکرم ﷺ کی ذات گرامی کے محتاج ہیں۔ آپؐ کا ہر عمل، دین، ایمان اور اسلام کی حسین ترین تشریح ہے۔ گویا سیرت طیبہ دین کے اجمال کی تفصیل ہے۔ پوری انسانیت کے لیے آپؐ کا وجود مسعود ناگزیر ہے۔ قرآن مقدس نے اس عنوان پر اس طرح ارشاد فرمایا: ’’اے محبوب! (ﷺ) ہم نے آپ کو پوری انسانیت کے لیے خوش خبری اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا۔‘‘

ان ارشادات کا مقصد یہ ہے کہ لوگ آپؐ کے علم و عمل سے ہدایت حاصل کریں اور نجات پائیں۔ قرآن مقدس نے ایک کام یاب اور سرخ رُو گروہ کا ذکر اس طرح فرمایا ہے، مفہوم: ’’جو لوگ ان پر ایمان لے آئے اور ان کی تعظیم کی اور ان کی مدد کی اور آپ پر اتاری گئی کتاب مقدس کو مانا، یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔‘‘ (سورہ الاعراف)

اس آیۂ مقدس میں اﷲ تعالیٰ نے حضور اکرمؐ پر ایمان لانے ان کی تعظیم و توقیر اور ان کی مدد کرنے کو ہی کام یابی کا راز بنایا ہے۔ رب قدوس نے حضور اکرمؐ کی سیرت طیبہ کی اہمیت کو ایک مقام پر اس طرح ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’رک جاؤ! اس حکم کا فلسفہ تمہیں سمجھ آئے یا نہ آئے بہ ہر حال ان کے احکام کی تعمیل تم پر لازم ہے۔‘‘

ایک مقام پر رب قدوس نے حضور ﷺ کی سیرت طیبہ اپنانے کو اپنی اطاعت قرار دیا، جس سے سیرت طیبہ کے عنوان کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے: ’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی، اس نے یقینا اﷲ کی اطاعت کی۔‘‘ قرآن مقدس نے حضور اکرم ؐ کی سیرت طیبہ کو اس طرح بھی اہمیت دی ہے کہ آپؐ کے فیصلے کو مدار ایمان قرار دیا۔ ’’تیرے رب کی قسم! ایمان دار نہیں ہوسکتے، جب تک تیرے فیصلے کو دل و جان سے تسلیم نہ کرلیں۔‘‘

احکام خداوندی پر عمل حضور ﷺ کی سیرت طیبہ کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ فریضۂ نماز کو قرآن مقدس نے مجمل بیان فرمایا، اس کی تفصیل حضور اکرم ﷺ کے عمل سے معلوم ہوئی۔ ایسے ہی روزہ، زکوٰہ، حج کے اجمالی خاکے کو حضور اکرمؐ نے اپنے عمل سے قابل عمل بنایا۔

ایک صحابی رسولؐ نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے ہماری طرف رسول اکرم ﷺ کو روانہ فرمایا اور ہمیں کسی بات کا کچھ پتا نہیں تھا، ہم صرف اسی طرح کرتے ہیں، جس طرح حضور اکرم ﷺ کو کرتا دیکھتے ہیں۔‘‘ (ابن ماجہ شریف)

سیدنا عمر فاروقؓ نے حجرِاسود سے فرمایا: مجھے پتا ہے تو پتھر ہے، نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان، اگر میں نے حضور اکرم ﷺ کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے کبھی نہ چومتا پھر بوسہ لے لیا۔‘‘ (بخاری شریف)

اﷲ تعالیٰ سے محبت کرنا انسانیت کا فطری تقاضا ہے۔ جس رب قدوس نے ہمارے پیدا ہونے سے پہلے ہمارے لیے ہزاروں نعمتیں پیدا فرما دیں۔ ہمارے لیے ضروری تھا کہ اس ذات والا صفات سے پیار کریں۔ حضور اکرمؐ کے علمی اور عملی مقامات سے آشنائی، حضور اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ جاننے سے ہی ہو سکتی ہے۔ ایمان و عقائد میں پختگی اور انسانیت کی اعلیٰ اقدار کے لیے سیرت طیبہؐ پر عمل بہت ہی ضروری ہے۔ حضور اکرم ﷺ سے عشق و محبت میں جولانی پیدا کرنے اور اسے معراج تک پہچانے کے لیے آپؐ کی سیرت طیبہ پر عمل ضروری ہے۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں سیرت طیبہؐ پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔