مولانا عادل کی شہادت کو 15 روز گزر گئے، قاتلوں کا سراغ نہیں لگایا جاسکا

اسٹاف رپورٹر  اتوار 25 اکتوبر 2020
کیمروں کی فوٹیجز حاصل کی گئیں، 50 لاکھ انعام رکھا گیا، ہائی پروفائل تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی لیکن نتیجہ صفر نکلا (فوٹو : فائل)

کیمروں کی فوٹیجز حاصل کی گئیں، 50 لاکھ انعام رکھا گیا، ہائی پروفائل تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی لیکن نتیجہ صفر نکلا (فوٹو : فائل)

 کراچی: شہر قائد میں مولانا ڈاکٹر عادل خان کو ڈرائیور سمیت شہید کیے جانے کے واقعے کو 15 روز گزر گئے لیکن تاحال قاتلوں کا سراغ نہیں لگایا جاسکا۔

مولانا ڈاکٹر عادل خان کو موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے رواں ماہ 10 اکتوبر ہفتے کی شب ساڑھے 7 بجے کے قریب اس وقت دہشت گردی کا نشانہ بنایا تھا جب وہ سڑک کنارے کھڑی ہوئی اپنی ڈبل کیبن گاڑی میں ڈرائیور کے ہمراہ گاڑی کی عقبی نسشت پر سوار تھے، واقعے کا مقدمہ ایس ایچ او شاہ فیصل کالونی کی مدعیت میں قتل اور انسداد دہشت گردی کی دفعہ کے تحت موٹر سائیکل سوار نامعلوم دہشت گردوں کے خلاف درج ہوا اور اس کی تحقیقات کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ کو منتقل کر دی گئی۔

آئی جی سندھ مشتاق مہر کی ہدایت پر کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن کی سربراہی میں ڈی آئی جی ایسٹ نعمان صدیقی، ڈی آئی جی کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ عمر شاہد حامد اور ایس ایس پی ڈسٹرکٹ کورنگی پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جبکہ عینی شاہدین اور دہشت گردی کی واردات سے متعلق فوٹیج کی مدد سے ایک حملہ آور کا خاکہ بھی تیار کر کے جاری کیا گیا تھا۔

اس بات کو 15 روز گزر جانے کے باوجود تحقیقاتی ٹیم اور انویسٹی گیشن پولیس دہشت گردی کی واردات میں ملوث دہشت گردوں کا سراغ لگانے میں کانام دکھائی دیتے ہیں جبکہ تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے دہشت گردوں کی گرفتاری میں مدد دینے والے کے لیے 50 لاکھ روپے انعام دینے سے متعلق آئی جی سندھ کو بھی سفارش کی گئی تھی۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ جامعہ فاروقیہ کے مہتمم اور معروف عالم دین مولانا ڈاکٹر عادل خان کو ڈرائیور سمیت شہید کرنے والے دہشت گردوں کا سراغ لگانے کے لیے مختلف مقامات سے کلوز سرکٹ کیمروں کی فوٹیجز حاصل کی گئی ہیں جس میں دارالعلوم کراچی میں مولانا عادل خان کی آمد اور وہاں سے جانے کی متعدد فوٹیجز شامل ہیں تاہم ان کی مدد سے بھی کوئی اہم کامیابی حاصل نہیں ہوسکی جبکہ اس حوالے سے پولیس مخبروں کی بھی مدد حاصل کر رہی ہے۔

مولانا عادل خان کو شہید کیے 15 روز گزر چکے ہیں اور پولیس کی جانب سے نہ صرف اس بات کا تعین نہیں کیا جاسکا کہ دہشت گردی کی واردات میں کونسا گروپ ملوث ہے بلکہ واردات کے بعد فرار ہونے والے دہشت گردوں کا بھی سراغ لگانے میں بری طرح سے ناکام دکھائی دیتی ہے۔

واضح رہے کہ دارالعلوم کراچی کے نائب مہتمم اور جید عالم دین مفتی تقی عثمانی پر ڈیڑھ سال قبل نیپا چورنگی پر کیے جانے والے قاتلانہ حملے جس میں وہ معجزانہ طور پر اہلیہ، پوتا اور پوتی سمیت محفوظ رہے تھے ان پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کا بھی پولیس تاحال سراغ لگانے میں ناکام رہی جس کی تحقیقات کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کو سونپی گئی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔