پاکستان گرے لسٹ سے نہ نکل سکا، کمزور خارجہ پالیسی

سرور منیر راؤ  اتوار 25 اکتوبر 2020

ایف اے ٹی ایف کا اجلاس جمعہ کو بیجنگ میں ختم ہوا،اس اجلاس میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی میں مالی معاونت کرنے والے گرے لسٹ میں شامل تمام ممالک کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس کے اختتام پر فیٹف کے صدر نے اعلامیہ میں کہا کہ آئس لینڈ اور منگولیا کو گرے لسٹ سے نکال دیا گیا ہے لیکن شمالی کوریا، ایران اور پاکستان بدستور گرے لسٹ میں رہیں گے۔ پاکستان نے 27 میں سے 21 نکات پر عمل درآمد کیا تاہم جب تک وہ باقی چھ نکات پر عمل درآمد نہیں کر لیتا اس وقت تک پاکستان گرے لسٹ میں ہی رہے گا۔اس اجلاس کی سفارشات کو فیٹف کے سالانہ اجلاس میں جو فروری 2020 میں پیرس میں ہوگا پیش کیا جائے گا۔

اطلاعات کے مطابق ترکی نے پاکستانی موقف کی بھرپور حمایت کی اور کہا کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کی سفارش کر دی جائے،لیکن بھارتی مندوب کا موقف تھا کہ جب تک پاکستان تمام نکات پر عملدرآمد نہ کرے اسے گرے لسٹ سے نہ نکالا جائے۔ یوں بھارت حاوی رہا۔ یہ صورتحال پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔ گرے لسٹ میں رہنے کی سفارش کو ہم اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ اس عمل کو کامیابی قرار دینا عجیب بات ہے۔

بدقسمتی سے ہماری حکومت گزشتہ دو ڈھائی سال سے جس طرح پاکستان کی اپوزیشن سے الجھی ہوئی ہے، اس وجہ سے حکومت یکسوئی سے کسی اور قومی معاملے کی طرف توجہ نہیں دے پا رہی۔ ایف اے ٹی ایف اور ملک سے مہنگائی کا خاتمہ غالبا حکومت کی پہلی ترجیح نہ ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

ایف اے ٹی ایف نے گزشتہ تین سال سے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال رکھا ہے۔ حتمی طور پر پاکستان کے بارے میں فیصلہ اگلے ماہ فروری 2020 میں پیرس کے سالانہ اجلاس میں کیا جائے گا۔حکومت پاکستان نے 100 صفحات سے زائد تفصیلی رپورٹ فیٹف کو بھیج دی ہے۔ اس رپورٹ میں تمام نکات پر ا ب تک کیے جانے والے اقدامات کی تفصیل درج ہے۔ اس رپورٹ کے ہمراہ اس حوالے سے کی جانے والی قانون سازی اور پالیسی اقدامات کا ذکر بھی ہے۔ اس کے علاوہ ترمیمی بل اور سخت قوانین بنانے کی تفصیلات بھی دی گئی ہی۔

حکومت پاکستان کی کوشش تھی کہ بیجینگ اجلاس کے بعد فروری 2020  میں پیرس میں ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلوانے کے لیے مزید دو اور ملکوں کی حمایت حاصل کی جائے۔ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان اپنی رپورٹ پر براہ راست بحث میں حصہ نہیں لے سکتا تاہم پورٹ پر دوست ممالک کھل کر بات کر سکتے ہیں۔اس لیے ضروریتھا کہ اجلاس کے دوران دوست ممالک پاکستانی موقف کی حمایت کریں۔ ذرایع کے مطابق اگر امریکا فرانس اور برطانیہ میں سے کسی ایک ملک نے بھی حمایت کی تو پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکلنے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔

ایف اے ٹی ایف کے قواعد کے مطابق بلیک لسٹ میں جانے سے بچنے کے لیے کم از کم تین ممبر ممالک کی حمایت حاصل کرنا ضروری ہے۔جون 2018  میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا تھا۔ توقع تو یہ کی جا رہی تھی کہ پاکستان خود کو اس مشکل سے بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے گا اور بیرونی دنیا میں ایک متحرک خارجہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے خود کو واچ لسٹ سے نکالنے میں کامیاب ہو جائے گا۔لیکن بدقسمتی سے ملک کے سیاسی نظام میں تلاطم کی وجہ سے ارباب بست و کشاد ایک دوسرے کے بخیے ادھیڑنے میں لگے رہے۔ ملک کے سبھی سیاستدان ایک دوسرے کو “کرپٹ” اور “غدار وطن” ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔

گرے لسٹ میں آنے سے پاکستان دنیا کی نظر میں ایک سوالیہ نشان بن گیا۔اس کے اثرات ہماری معیشت اور خارجہ پالیسی پر نمایاں ہونے لگے۔گرے لسٹ میں آنے کی وجہ سے بھارت کو یہ موقع بھی مل گیا او ر وہ پاکستان کے حوالے سے اپنے منفی خیالات کھل کر بیان کرنے لگا۔گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کے معاملے پر پاکستانی میڈیا اور خصوصا سوشل میڈیا کو بھی اپنا علمی اور اصلاحی کردار ادا کرنا چاہیے۔ ابھی وقت ہے کہ ہم اپنی “آنکھیں بلی کو دیکھ کر بند نہ کریں۔

بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے ہمیں معاشی اعتبار سےstable کی لسٹ سے نکال کر negative لسٹ میں ڈال رکھا ہے۔ڈالر کہاں تک پہنچ گیا۔پیٹرول کی قیمت کیا گل کھلا رہی ہے۔مہنگائی اور پانی کی کمی ہمیں کہاں لے جا رہی ہے ۔صحت اور تعلیم کی سہولتوں کا فقدان ہے۔کوئی ہے جو اس بارے میں سوچے۔ خدارا ترجیحات درست کریں ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہ کرے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔