وزیراعظم کا پسماندہ اضلاع کی ترقی کا عزم

ایڈیٹوریل  پير 26 اکتوبر 2020
یوں حالات کا جائزہ لیا جائے تو تحریک انصا ف کی حکومت کے لیے چیلنجز بہت زیادہ ہیں

یوں حالات کا جائزہ لیا جائے تو تحریک انصا ف کی حکومت کے لیے چیلنجز بہت زیادہ ہیں

وزیر اعظم نے گزشتہ روز پنجاب کے ضلع میانوالی کا دورہ کیا ۔یہ ان کا آبائی ضلع بھی ہے۔ یہاں انھوں نے کیڈٹ کالج عیسیٰ خیل کے ہاسٹل کا افتتاح کیا اور عیسیٰ خیل میں ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا۔ کیڈٹ کالج کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے بہت سی باتیں کیں‘ اپنی تقریر میں روایتی انداز میں سیاسی مخالفین پر بھی تنقید کی تاہم انھوں نے پنجاب کے پسماندہ علاقوں پر بطور خاص بات کی‘ انھوں نے کہا جب تک کسی کو احساس نہ ہو کہ پسماندہ علاقوں کے لوگ کیسے زندگی گزارتے ہیں۔

اس وقت تک وہ کیسے ان کی مدد کرے گا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا نام لیے بغیر انھوں نے طنز کیا کہ جو لوگ لاہور میں بڑے بڑے محلات میں رہ کر وزیراعلیٰ بن جائیں اور علاج بھی لندن میں جا کر کرائیں۔بچے ان کے لندن میں ہوں، ان کو کیسے احساس ہو گا کہ لوگ یہاں کیسے رہتے ہیں؟ انھوں نے وضاحت کی کہ پنجاب کا سب سے پسماندہ ضلع ڈیرہ غازی خان ہے۔

وہ ترقی میں ضلع میانوالی سے بھی پیچھے ہے۔ہم ضلع میں نمل یونیورسٹی بنا رہے ہیں جو زراعت پر ریسرچ کر کے پورے پاکستان کی مدد کرے گی۔یہ انتہائی اچھا اقدام ہے ‘ پنجاب حکومت کو چاہیے کہ وہ اس پر جلد از جلد کام کرے اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچائے تاکہ جنوبی پنجاب کے عوام کو فائدہ مل سکے اور وہاں کے نوجوان اچھی تعلیم حاصل کر سکیں۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ قومیں تعلیم کی وجہ سے آگے بڑھتی ہیں۔ کپاس، کپڑا بیچنے سے قوم امیر نہیں ہوتی۔ قوم اس وقت امیر ہوتی ہے جب آپ لوگوں پر سرمایہ کاری کرتے ہیں، انھیں اعلیٰ تعلیم دیتے ہیں اور ریسرچ کرتے ہیں۔

بلاشبہ وزیراعظم کی یہ بات درست ہے کہ قوم کو تعلیم کے ذریعے ہی ترقی کی منزل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہاں کے نوجوان تعلیم یافتہ اور ہنر مند نہیں ہوتے ۔یہ بالکل درست بات ہے اور موجودہ حکومت اس جانب بھرپور انداز میں کام بھی کر رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے مزید کہا کہ جب میرے ساتھ کوئی نہیں تھا تو میانوالی کے لوگ ساتھ تھے۔ میانوالی، ڈی جی خان، راجن پور اور ڈیرہ اسماعیل خان کوترقی دینا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔انھوں نے قوم کو یقین دلایا کہ انشاء اللہ پاکستان دنیا میں طاقتورقوم کے طورپرابھرے گا۔

عمران خان نے ہدایت کی کہ بچیوں اورخواتین کے لیے تعلیم کی سہولیات پر خاص توجہ دی جائے۔ انھوں نے پولیو کے قطرے پلا کر انسداد پولیو مہم کا آغاز کیا اور پودا بھی لگایا۔ صاف پانی سپلائی منصوبے کی کل لاگت 3.2 ارب روپے ہے جس میں 80 فیصد وفاقی حکومت اور 20 فیصد پنجاب حکومت مہیا کرے گی۔

ادھر اقوام متحدہ کے یوم تاسیس پر اپنے پیغام میں عمران خان نے کہا پاکستان غیر ملکی تسلط میں رہنے والے تمام لوگوں کے لیے حق خود ارادیت کی حمایت کرتا ہے، عالمی برادری بالخصوص سلامتی کونسل اپنی اخلاقی، قانونی، سیاسی اور سفارتی اتھارٹی کو بروئے کار لاتے ہوئے جموں و کشمیر سے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کرائے،پاکستان نے عالمی امن اور سلامتی برقرار رکھنے میں دنیا بھر میں یو این امن مشنز میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان عالمی تنازعات پر امن طور پر حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔

وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں جو باتیں کہیں ‘ان کی سچائی میں کوئی شک نہیں ہے۔پسماندہ اضلاع کو ترقی دینا ہی اصل کام ہے‘ بلاشبہ پاکستان میں اقتدار میں آنے والی کسی بھی حکومت نے پنجاب کے پسماندہ اضلاع کی تعمیر و ترقی کی طرف توجہ نہیں دی۔

اب تحریک انصاف کی حکومت نے میانوالی‘ ڈیرہ غازی خان اور دیگر پسماندہ اضلاع کی ترقی کا بیڑا اٹھایا ہے تو اسے سراہنے کی ضرورت ہے لیکن وزیراعظم کوان اضلاع کی پسماندگی کے پس پردہ حقائق کا بھی اچھی طرح علم ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے بعض اضلاع میں آج بھی قبائلی علاقے موجود ہیں اور انھیں آئینی و قانونی حیثیت حاصل ہے‘ جنوبی پنجاب کے پسماندہ اضلاع کی ترقی کے لیے سب سے پہلے قبائلی نظام کو حاصل قانونی تحفظ کا خاتمہ کیا جانا ضروری ہے۔

جب تک یہ قانونی ابہام یا قانونی سہولت کو ختم نہیں کیا جاتا‘ اس وقت تک ان شہروں میں مڈل کلاس پیدا نہیں ہو سکتی۔وزیراعظم عمران خان کی یہ بات تو سچ ہے کہ میانوالی میں یا ڈیرہ غازی خان ‘راجن پور وغیرہ میں کوئی اسپتال بنتا ہے تو وہاں ڈاکٹرز آنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ‘اسی طرح میانوالی کے گرلز اسکولوں میں ٹیچر نہیں آتے کیونکہ ان کی منظوری پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے ہونے ہوتے ہیں۔

بظاہر تو یہ بات سچ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان مسائل اور مشکلات کا جائزہ لیا جائے کہ ملتان‘ بہاولپور‘راولپنڈی‘ گوجرانوالہ یا خوشاب سے بھی ڈاکٹرز اور لیڈیز ٹیچرز ان اضلاع میں پوسٹنگ یا نوکری لینا کیوں پسند نہیں کرتے ۔ میانوالی کے ساتھ ہی جنوبی وزیرستان کا قبائلی علاقہ شروع ہو جاتا ہے‘ انھی علاقوں سے میانوالی میں لوگ آزادانہ انداز میں آتے جاتے ہیں۔

جب یہاں نوکری کرنے والوں کو تحفظ ہی حاصل نہیں ہوگا تو وہ کیوں وہاں نوکری کریں گے۔ اسی طرح کوئی سرمایہ کار وہاں صنعت کاری کیوں کرے گا ؟اصل معاملہ یہ ہے کہ جب تک میانوالی یا کوئی اور پسماندہ ضلع جیسے ڈیرہ غازی خان یا راجن پور وغیرہ ہیں ‘ ان علاقوں میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہو گی ‘ وہاں پورا عدالتی ‘انتظامی اور پولیس کا کنٹرول نہیں ہو گا ‘ وسطی اور سینٹرل پنجاب کی مڈل کلاس کو وہاں رہائش اختیار کرتے ہوئے کسی قسم کا خوف نہیں ہو گا تو ترقی کا عمل خود بخود شروع ہو جائے گا ۔

سچ یہ ہے کہ اگر لاہور ‘راولپنڈی ‘ملتان ‘فیصل آباد ‘ سیالکوٹ میں پاکستان کے کسی بھی علاقے کا سرمایہ کار پوری آزادی کے ساتھ اپنا کاروبار کر سکتا ہے اور اپنے بچوں کو بھی وہاں رکھ سکتا ہے ‘یہ اس لیے ہے کہ وسطی اور شمالی پنجاب کے شہروں میں انھیں اور ان کے کاروبار کو مکمل آئینی اور قانونی تحفظ حاصل ہے۔

انھیں کوئی لٹیرا یا ڈاکو لوٹ کر کسی قبائلی علاقے میں پناہ نہیں لے سکتا۔یہی وہ تحفظ ہے جو کسی علاقے میں درمیانے طبقے کو جنم دیتا ہے اور اس کی نشوونما کرتا ہے۔جب کسی علاقے میں مڈل کلاس پھلنا پھولنا شروع ہوتی ہے تو وہاں خود بخود ہی کاروباری سرگرمیاں بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں‘ اسکول کالجز اور یونیورسٹیاں بننا شروع ہو جاتی ہیں‘ مختلف برینڈز وہاں کاروبار کے لیے آ جاتے ہیں‘ ریسٹورنٹ اور کافی شاپس کھل جاتے ہیں لیکن جب کسی کا سرمایہ اور جان محفوظ نہیں ہو گی تو ان علاقوں میں کوئی سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں ہو گا۔ جنوبی پنجاب کی پسماندگی کی اصل وجہ وہ طبقہ ہے جس کے مفادات پرانے قبائلی یا جاگیرداری نظام کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

یہ طبقہ مڈل کلاس کو پیدا نہیں ہونے دیتا ۔جو لوگ دوسرے علاقوں سے آ کر وہاں کاروبار کرتے ہیں یا کوئی زرعی رقبہ خرید کر اسے آباد کرتے ہیں تو انھیں قتل کی دھمکیاں دے کر یا انھیں اغوا کر کے وہاں سے بھاگنے پر انھیں مجبور کر دیتے ہیں۔ ان علاقوں کا بالادست طبقہ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتا ہے ‘ خود اور اس کی اولادیں لاہور ‘راولپنڈی‘ اسلام آباد میں رہائش رکھتے ہیں۔

یہاں کی یونیورسٹیوں میں ان کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور پھر سیاست کے میدان میں اپنے علاقے میں جا کر پسماندگی کا رونا روتے ہوئے غریب عوام کو بتاتے ہیں کہ ان کی غربت کی وجہ تخت لاہور ہے‘ جب تک اس ذہنی طور پر پسماندہ اور مالی طور پر طاقتور طبقے کے اقتدار کے بے رحمانہ اختیارات کو کم کرنے کے لیے وہاں درمیانے طبقے کو پیدا نہیں کیا جاتا اس وقت تک ‘جنوبی پنجاب ہو ‘خیبرپختونخوا ہو ‘بلوچستان ہو یا سندھ کے پسماندہ اضلاع ‘ وہاں ترقی نہیں ہو سکتی۔ امید ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ان حقائق پر غور کرے گی۔

ادھر حکومت کو کورونا وباء اور بگڑتی ہوئی معاشی سرگرمیوں کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ تاکہ اطلاعات کے مطابق ملک میں کورونا کی دوسری لہر خاصی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ کورونا کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ادھر دنیا بھر میں کووڈ19سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 4 کروڑ 24 لاکھ 25 ہزار 115 ہو گئی ہے اور اموات 11 لاکھ 47 ہزار62 تک جا پہنچی ہے۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکا میں فروری تک پانچ لاکھ اموات کا خدشہ ہے،عالمی ادارہ صحت نے تمام ممالک پر زور دیا کہ کووڈ۔19کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات کریںآیندہ چند ماہ انتہائی مشکل ہو سکتے ہیں ۔

یوں حالات کا جائزہ لیا جائے تو تحریک انصا ف کی حکومت کے لیے چیلنجز بہت زیادہ ہیں اور ان کے پاس وقت بہت کم ہے۔ وہ اپنے اقتدار کا تقریباً آدھا عرصہ گزار چکی ہے اور اس کے پاس مزید ڈھائی تین سال کا عرصہ بچا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنا تمام فوکس ملک کے مسائل پر رکھے اور سیاسی بیان بازی کے بجائے ترقی کی جانب توجہ دے تاکہ نئے الیکشن میں جاتے ہوئے تحریک انصاف کے پاس عوام کو بتانے کے لیے کچھ منصوبوں کی تکمیل کرنے ثبوت ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔