شدت پسندی سے کیسے محفوظ رہاجائے!

راؤ منظر حیات  پير 26 اکتوبر 2020
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

ملک میں ہر قسم کاسیاسی تجربہ ہوچکاہے۔اس سوئی ہوئی قوم پرہرطرح کی سرجری ہوئی ہے۔ کیا جمہوریت اورکیامارشل لاء ، سب نظام آزمانے کے بعدترک کردیے گئے۔نیم جمہوری تجربہ ابھی تک برقرار ہے۔ کیونکہ ابھی کسی اعلیٰ ترین دماغ میں کوئی متبادل خیال نہیں آیاورنہ یہاں تو نہ صدر،نہ وزیراعظم بلکہ چیف ایگزیکٹیونام کاعہدہ بھی حکومت کا مرکز رہاہے۔اس کرہِ اَرض پرایک بھی ایساملک نہیں،جہاں حکمران کوچیف ایگزیکٹیوکہاجاتاہو۔

ان ناکامیوں کے بعد صورتحال کا جائزہ لیاجائے تو1947 سے لے کرابتدائی چنددہائی تک کا دور قدرے بہترلگتا ہے۔ اگر آج سے مقابلہ کریں توہرطرح سے بہترین دور تھا۔ معاشرے  میں مناسب اورمتوازن عناصرتھے،وہاں ایک عنصر   مذہب اورریاست کے اُمورمیں توازن ۔جن لوگوں نے قیام پاکستان سے لے کر1977تک کاپاکستان دیکھا ہے، وہ بتاسکتے ہیں کہ تمام ترخامیوں کے باوجود ہمارا ملک بہت بہترچل رہاتھا۔شخصی آزادی کافی حدتک موجود تھی۔ملک ٹوٹنے یعنی1970سے پہلے تک گورے سیاح،بلوچستان کے دورِافتادہ شہروں اورگاؤں میں آزادی سے آتے تھے۔

سبی کاذکرکروںگا۔وہاں انگریز لڑکے اورلڑکیاں،مغربی لباس زیبِ تن کیے عین چوک میں تصویریں کھینچواتے تھے۔بڑے شہروں میں بچیاں سائیکل چلاتی تھیںاوراپنے آپ کومحفوظ سمجھتی تھیں۔ ہماری تعلیمی درسگاہیں غیرملکی طلباء اورطالبات سے اَٹی ہوئی تھیں۔پشاور،لاہور،کوئٹہ اورکراچی  بین الاقوامی معیارکے شہرتھے۔دنیاکاہرملک ہمارادوست بننا چاہتا تھا۔

غیرملکی وفوداس تعدادمیں آتے تھے کہ ہوٹل کم پڑ جاتے تھے۔دنیاکی تمام قابل ذکرایئرلائنزکراچی اور پشاور ائرپورٹ تک لینڈ کرتی تھیں۔ نائٹ لائف کی سج تھیج یورپ سے کم نہ تھی۔ کسی  کے مذہب یا ایمان پر شک وشبہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مسجدیں بھی آبادتھیں اورمہ خانے بھی بھرے رہتے تھے۔ عوام میں باہمی رواداری،صلہ رحمی،ایک دوسرے کی مددکرنے کارجحان بہت زیادہ تھا۔لوگ داڑھی بھی رکھتے تھے اورکلین شیوہونے پربھی کسی کوکوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا۔غرض یہ کہ ہمارایہی ملک مہذب اندازمیں ترقی کی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔

یہ ایسی باتیں ہیں جن کاذکرکرنے والے اب اَزحدکم رہ گئے ہیںکیونکہ اس شدت پسندمعاشرے میں ہرایک کواپنی جان پیاری ہے۔لہذاکھلے لفظوں میں تونہیں،خیردبے الفاظ میں اس جوہری نکتے پر لکھاری بات کرتے رہتے ہیں۔مگر کھل کرعرض کرنا چاہتاہوں۔اس لیے کہ ڈراوردنیاوی خوف ختم ہوچکا ہے۔بے گناہ ہونے کے باوجود سرکار کے عقوبت خانے میں بھی رہ چکاہوں۔لہذااب کوئی خوف آڑے نہیں آتا۔پوری دنیامیں صرف چندممالک ہیں جہاں مذہب اورریاست کویکجاکیاگیاہے۔سعودی عرب، ایران، اسرائیل اورپاکستان۔ ہوسکتاہے چنداورملک بھی ہوں۔ سب سے پہلے اسرائیل کاذکر کرنا چاہوں گا۔

یہودیت وہاں کاغالب مذہب ہے، اس کے باوجود وہاں انتہائی طاقتورجمہوریت موجودہے۔احتساب کاایساکڑا اور ابہام سے پاک نظام موجودہے کہ موجودہ وزیراعظم ،اپنے ماتحت تحقیقاتی اداروں کے سامنے چوہے کی طرح پھنسا ہوا ہے۔مذہب کی اہمیت اپنی جگہ، مگرپوراملک جدید ترین  اُصولوں کے تحت زندگی گزار رہاہے۔اسرائیل کے سیاسی کردارپربحث نہیں کررہا۔ مگر وہاں کے مقامی شہریوں کی زندگی مکمل طور پر آزاد ہے۔ سیکولرکالفظ زیادہ مناسب ہے۔ اردو لغت میں سیکولر کا ترجمہ، انگریزی زبان سے مختلف کردیا گیا ہے۔

اردو میں اسے ’’لادین‘‘ قرار دیا گیاہے۔مگرجس انگریزی زبان کاوہ لفظ ہے، وہاں اس کامطلب ایسا نہیں ہے۔اوکسفورڈ ڈکشنری دیکھ لیجیے۔یہ بھی نہ ہو،توگوگل فرمالیجیے، لفظ کے مختلف مطلب سامنے آجائیں گے۔ ہمارے ملک میں اس پربحث کرنی لاحاصل ہے یہاں چندلوگوں نے سچ نہ بولنے کی قسم کھا رکھی ہے ۔

پاکستان سے ماشاء اللہ حج عمرہ پر جانے والوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔عمرہ کرناتوخیراب امیراورمتوسط طبقے کی زندگی کالازمی جزوہے۔کیاوجہ ہے کہ تمام ترعبادات کے باوجود ملک کے کونے کونے میں چوربازاری،ناجائزمنافع خوری،دھوکا دہی، جھوٹ، دروغ گوئی اورمنافقت کادوردورہ ہے۔ بلند کرداری تو دورکی بات،اوسط درجے کاکرداربھی ملناناممکن ہے۔ تاجر طبقے میں بظاہرمذہبی رجحان زیادہ نظرآتاہے۔ تقریباً ہردکان پرحاجی صاحب لکھنے کا رواج ہے۔ مگرجب آپ لین دین کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ حاجی صاحب گاہک سے منافع لینے نہیں بلکہ اسے لوٹنے  کے لیے بیٹھے ہیں۔

محترم تاجر صاحب اپنے اس فرض کو بھول چکے ہوتے ہیںکہ گاہک کو صحیح اوردرست مال فروخت کیاجائے۔بلکہ ان کے پیش نظر ایک ہی سوچ ہوتی ہے کہ گاہک کی جیب کیسے کاٹی جائے۔پاکستان کے   کسی بھی شہر کی مارکیٹ میں چلے جائیے، یہ رویہ ہرجگہ نظرآئے گا۔آپ دینی مدارس کواصلاحی اوراخلاقی کسوٹی پرپرکھیے۔میری نظرمیںیہ دنیاکااعلیٰ ترین سوشل سیکیورٹی نظام ہے۔مگرکیا ایسی کئی خبریں نہیں چھپیں، جن میں چند مدرسوں میں طلباء پر بے رحمانہ تشدد کیا گیا۔ صرف چندبیہمانہ واقعات اتفاقاً سامنے آتے ہیں۔ اکثر اوقات توکسی کوہوابھی نہیں لگتی ۔ میں خود ایک طالبعلم کی حیثیت سے کئی مدارس میں گیا ہوں۔ وہاں کے حالات کا خود جائزہ لیاہے۔

ایسا نہیں ہے طلباء پر تشدد صرف مدارس میں ہی ہوتا بلکہ جدید اسکولوں میں ایسے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں۔ دیکھا جائے تو پورا معاشرہ ہی درندوں کے جنگل میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ جنگلی پن اور درندگی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ دودوبرس کی معصوم بچیاں بھی ہوس کا نشانہ بن رہی ہیں۔کچھ واقعات کاپتہ چل جاتا ہے۔ مگر اکثریت بدنامی کے ڈرسے خاموشی اختیار کر لیتی ہے۔

دراصل ضیاء الحق سے لے کرآج تک ہمیں ایک اخلاقی، سماجی،مذہبی،لسانی پریشرککرمیں بند کردیا گیا ہے۔اسلام کو حکمران سیاسی نعرے کے طور پراستعمال کرتے رہے۔مگرضیاء الحق دور میں ایسی سوشل انجینئرنگ کی گئی کہ اس کاخمیازہ پورا ملک ابھی تک بھگت رہا ہے ۔ موجودہ یاماضی کے کسی حکمران میں اتنی جرات نہیںکہ یہ اعتراف کر سکے کہ ہمارا ملک دنیا سے متضاد سمت میںجارہاہے۔اسے درست ٹریک پر لانے کی ضرورت ہے۔ جوبھی یہ بات کرنے کی کوشش کرے گا۔اسے کافر،غدار،غیرمحب وطن،یہودیوں کا ایجنٹ،بھارت کا گماشتہ،مغربی طاقتوں کا پٹھو قرار دیدیا جائیگا۔یوں سمجھدار انسان اپنی عزت بچانے میں عافیت  جانتا ہے۔ مگر جو مرضی کرلیجیے،جتنامرضی ڈر کر زندگی گزارلیں،کسی نہ کسی کویہ بھاری پتھر اُٹھانا پڑیگا۔

اسے کہناپڑیگاکہ ریاست کے آئینی ڈھانچے میں انقلابی تبدیلیاں لانی پڑیں گی ۔ برطانیہ، امریکا، جاپان،چین،روس، جنوبی کوریا، جنوبی افریقہ افریقہ، اٹلی،تمام ترقی یافتہ ہیں ۔ ان ملکوں کی سیاست نے متفقہ فیصلہ کرکے ریاست اورمذہب کو الگ الگ رکھا ہے۔کیاامریکا یہ اعلان نہیں کرسکتاہے کہ ان کی حکومت کی ہرچیز، ہر فیصلہ عیسائیت کے مطابق ہوگا۔مگروہاں عیسائی زیادہ ہونے کے باوجود،مذہب کو ذاتی حیثیت تک محدود کردیا گیا ہے۔ یہی حالات برطانیہ کے ہیں۔دین اورریاستی اُمور کو علیحدہ کرنے کی عظیم مثال ملیشیاء ہے۔ وہاں ملایا مسلمان اکثریت میں  ہیں۔ مگر وہاںکی ہندو، چینی، سکھ آبادی پُرسکون طریقے سے رہ رہی ہے۔مسلمان ممالک میں کہیں مذہبی توازن نظر نہیں آتاہے، سوائے ملیشیاء  کے ۔

مذہب کی انسانی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔مگرریاستی ودنیاوی اُمورکوکسی بھی عقائد کے تحت چلاناایک دوسری بات ہے۔ ہاں، اگرآپ عملی طور پر کسی بھی مذہب کے آفاقی اُصولوں کو رائج کرکے،اتنی اخلاقی بلندی حاصل کرلیں، کہ دنیاکے لیے مثال قرار دیے جائیں،توبالکل درست بات ہے۔مگرجس دنیا میں آج ہم رہ رہے ہیں، وہاں ہرملک اپنے اپنے قومی مفادات کے تحت کام کررہاہے۔ریاستی اُمور،ملکی اورانسانی مفاد کے تحت طے کیے جاتے ہیں۔

کوشش کی جاتی ہے کہ انھیں دینی اُمورسے دور رکھا جائے۔ پاکستان کے ابتدائی دورمیں ہم بھی اس فہرست میں شامل تھے۔اس کے بعدچراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اب ہم کیاہیں اور دنیا میں ہمارا مقام کیا؟ اس کاجواب سب جانتے ہیں مگر بتانے کی ہمت نہیں کر سکتے۔ ذہن میںسوال تو اُبھرتا ہے کہ موجودہ شدت پسندی، تنگ نظری،فرقہ پرستی سے ملک کوکیسے بچایا جائے؟ کیونکہ ملک اب تنزلی کی آخری حد پر پہنچ  چکاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔