روک سکو تو رک لو! (1)

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین  پير 26 اکتوبر 2020

آج میں اِن سطور کو ایک کہانی سے بھر دینا چاہتا ہوںحالانکہ کوئٹہ دھماکے سے دل بہت بھرا ہوا ہے…یہ کہانی پہلے بھی میں بہت جگہ سنا چکا ہوں لیکن لکھی کبھی نہیں ، آج سوچا لکھ ہی دیتا ہوں تا کہ قرطاس و اذہان دونوں ہی میں ہمیشہ محفوظ رہیں … اگست ۱۹۹۰ میں ایف سی پری میڈیکل یعنی، ایف سی ’’پاس‘‘ ایک لڑکی، کنگ ایڈورڈ کالج کے پرنسپل کے کمرے میں داخل ہوتی ہے اور داخل ہونے کے بعد اْن سے اپنے داخلے کی بات کرتی ہے ، پرنسپل نے جب اْس کے ایف ایس سی کے نمبرز دیکھے تو وہ 650 کے قریب تھے یعنی مطلوبہ میرٹ سے کم تھے تو پرنسپل نے داخلہ دینے سے معذرت کرلی۔

اْ س لڑکی نے جواب سن کر اپنا ڈیزائنر پرس اٹھایا، دروازے تک پہنچی، لمحہ بھر رکی اور پھر مڑ کرپرنسپل سے کہا ’’ایڈمیشن تو میں لے کر رہوں گی ‘‘…  پھر اْس لڑکی کو اْس کے امیر باپ نے پنڈی کے ایک میڈیکل کالج میں سیلف فنانسنگ اسکیم کے تحت داخلہ دلوایا اور پھر اپنے اثرورسوخ اور پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے داخلے کے اگلے ہی روز ’’مائیگریشن ‘‘ کا کیس بنا کر پنڈی سے ڈائریکٹ کنگ ایڈورڈ میڈ یکل کالج لاہور منتقل کردیاگیا۔

جہاں داخلے کے لیے اْس وقت میرٹ 900 نمبرز ہوا کرتے تھے اور پھر ویسے بھی آج تلک ’’پنڈی ‘‘ سے اْس لڑکی کو سخت نفرت ہے…سیلف فنانس اسکیم کے تحت کسی بھی طالبعلم کی کنگ ایڈورڈ کالج میں مائیگریشن کی واحد مثال تھی جس پر پرنسپل ششدر تھے …

آگے بڑھتے ہیں، جنوری1991 کی ایک سردشام تھی فضا میں خنکی اور دھنکی دونوں ہی موجود تھے، ہائے لاہور کی سرد شام، لاہور ایک خوب صورت رومانوی شہر ہے، لاہور میں نور جہاں کا مقبرہ بھی ہے ،ممتاز بیگم کا شیش محل اور انارکلی کی اٹکھیلیاں، یہ تمام حسین یادیں لاہور کی آتشِ عشق کو بھڑکا کر رکھ دیتی ہیں، لاہور پاکستان کا دل ہے اور محبت تو ودل ہی میں ہوتی ہے دوستو ! لاہور کی سرد شامیں کیسی ہوتی ہیں یہ مجھ سے کہیں زیادہ بہتر لاہور ی ہی جانتے ہیں۔

بہرکیف ماڈل ٹاؤن کی ایک انیکسی میںاْ س لڑکی کا باپ کسی ضروری کام میں مصروف تھا… وہاں موجود ’’وردی میں ملبوس‘‘ ایک نوجوان اْسے پسند آگیا، پسند کا کیاہے؟ پسند تو پسند ہے آگیا سو آ گیا!!… لڑکی نے اپنی والدہ سے کہا کہ ’’میں اِ س سے شادی کرنا چاہتی ہوں‘‘؟ والدہ نے غصے سے خاموش کرادیا جیسے کہ اچھی مائیں کرتی ہیں اور شریف گھرانوں میں بچیوں کو اس طرح چپ کرانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں!!! اْس لڑکی نے اپنی ماں کو دیکھا اور کہا ’’شادی تو میں اِسی لڑکے سے کروں گی… اْس کے بعد نہ جانے چند ماہ میں کیا ہوا کہ امیر ترین خاندان لڑکی کی خواہش کے مطابق رشتہ کرنے پر تیار ہوگیا۔ ‘‘

2013میں کسی کوالی فیکیشن کے بنا اْس لڑکی کے باپ نے سوا ارب روپے کے فنڈز کا انچارج بنا دیا…معاملہ عدالت میں گیا، قابلیت اور اہلیت ثابت نہ ہوئی تو عدالت نے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ سنایا …جب عدالت یہ فیصلہ سنا چکی تواْس لڑکی نے ایک ٹوئٹ کیا ’’فنڈز تو میں ہی تقسیم کروں گی، روک سکو تو روک لو …پھر اس کے وزیر اعظم باپ نے پرائم منسٹر سیکریٹریٹ میںاْس کو مستقل  دفتر دلوایا جہاں وہ تمام وزرا کی درخواستیں وصول کر کے اْنہیں فنڈز جاری کرتی تھی اور ایسا کرتے ہوئے اْس کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ جاری رہتی تھی کہ جیسے وہ سپریم کورٹ کے ججز سے کہہ رہو ہو ’’روک سکو تو روک لو ‘‘پھر یوں ہوا کہ اپریل 2016میں پاناما لیکس ہوگئے۔

موجودہ وزیراعظم عمران خان نے اْس وقت کے وزیر اعظم اور اْس لڑکی کے والد سے استعفے کا مطالبہ کردیا، اْس لڑکی نے پھر ٹوئٹ کیا ’’ہم ہر قسم کی لیکس سے بری ہوجائیں گے روک سکو تو روک لو‘‘لیکن اس بار لڑکی کی قسمت خراب تھی اورجو مقابل تھا وہ اپنی دھن کا پکا، ضدی، دھنی، عجیب انسان، فائٹر یعنی ٹائیگر تھا…یعنی کپتان تھا

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔