گلگت بلتستان کا انتخابی میدان

مزمل سہروردی  پير 26 اکتوبر 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

گلگت بلتستان میں انتخابی مہم آہستہ آہستہ اپنے عروج پر پہنچ رہی ہے۔ ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلزپارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف وہاں سخت مقابلہ میں ہیں۔ جے یو آئی (ف) اور مجلس وحدت المسلمین اپنی روایتی سیٹیں نکالنے کی کوشش میں ہیں۔

گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے انتخابات کے حوالے سے ایک عمومی رائے یہی ہے کہ جس کی مرکز میں حکومت ہو وہ یہ انتخاب آسانی سے جیت جاتا ہے۔ جب مسلم لیگ (ن) کی مرکز میں حکومت تھی تو مسلم لیگ (ن) گلگت بلتستان کے انتخابات جیت گئی تھی اور جب پیپلزپارٹی کی مرکز میں حکومت تھی تو پیپلزپارٹی نے گلگت کے انتخابات جیت لیے تھے۔ اس لیے عمومی رائے اور ماضی کا ٹریک ریکارڈ بھی یہی ہے کہ اب جب کہ مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت ہے تو یہ انتخابات تحریک انصاف کو جیتنا چاہیے۔

پاکستان کے باقی علاقوں کی طرح گلگت بلتستان کے انتخابی حلقوں میں بھی جیتنے والے گھوڑے موجود ہیں۔ ہر انتخابات کے موقع پر یہ جیتنے والے گھوڑے جس جماعت کی حکومت بننے کے امکانات ہوتے ہیں اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ آسان ہو گا کہ جس جماعت کی مرکز میں حکومت ہوتی ہے یہ جیتنے والے گھوڑے اس جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں۔

اس طرح مرکز میں بیٹھی جماعت کے لیے گلگت  بلتستان کے انتخابات جیتنا آسان ہو جاتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ماضی میں وہاں حکومت بنانی والی سیاسی جماعتیں بھی ایسے ہی انتخابات جیتتی رہی ہیں۔

گزشتہ انتخابات میں جو جیتنے والے گھوڑے پاکستان مسلم لیگ (ن )میں شامل ہوئے تھے۔ وہ اب تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں۔ اس لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو دھچکا لگا ہے۔ گلگت  بلتستان اسمبلی کے اسپیکر جو گزشتہ انتخاب میں ن لیگ میں شامل ہوئے تھے اب تحریک انصاف میں جا چکے ہیں اسی طرح ن لیگ کی کابینہ کے تین وزرا بھی اب تحریک انصاف کے ٹکٹ پر انتخابات لڑرہے ہیں۔

گلگت بلتستان اسمبلی کی کل 24نشستوں پر انتخابات ہوتے ہیں۔باقی ٹیکنوکریٹ سیٹیں ہیں۔ اس لیے 24نشستوں میں سے جیتنے والے چار پانچ گھوڑے بھی بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اوروہ حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو اب جب کہ گلگت  بلتستان کے جیتنے والے گھوڑے تحریک انصاف میں پہنچ گئے ہیں تو تحریک انصاف کے لیے گلگت بلتستان کی حکومت بنانا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن وہاں سے ایسی اطلاعات نہیں آرہی ہیں۔ جیتنے والے گھوڑ وں کی شمولیت کے باوجود تحریک انصاف کے جیتنے کے امکانات اتنے واضح نہیں نظر آرہے ہیں جتنے ہونے چاہیے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ نئے لوگوں کی شمولیت کے بعد تحریک انصاف کے اپنے لوگ ناراض ہیں اور وہاں پارٹی ڈسپلن ٹوٹ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ایک ایک حلقہ میں تحریک انصاف کے ایک سے زائد امیدوار کھڑے ہو گئے ہیں۔

یہ درست ہے کہ ٹکٹ تو ایک کے پاس ہی ہوگا ۔ لیکن تحریک انصاف کے بانی ارکان اور وہ لوگ جو اب تک گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کی پہچان رہے ہیں وہ آزاد بھی انتخابات لڑ رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے تحریک انصاف کے ووٹ تقسیم ہونے کی فضا بن رہی ہے۔ ابھی تحریک انصاف کی قیادت ان ارکان کو پارٹی ڈسپلن کا پابند بنانے اور انتخابات سے دستبردار کروانے میں ناکام رہی ہے۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ جب تک عمران خان خود مداخلت نہیں کریں گے یہ مسائل حل نہیں ہونگے۔ اور اگر یہ مسائل قائم رہتے ہیں تو تحریک انصاف کو کافی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ انتخابات ہار بھی سکتے ہیں۔

کیا گلگت بلتستان میں کوئی ایک جماعت اتنی اکثریت حا صل کر لے گی کہ اکیلی حکومت بنا سکے۔ ابھی تک ایسا ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔ کل 30سے زائد نشستوں میں سے اکیلی کوئی جماعت 17یا اس سے زائد نشستیں جیتتی نظر نہیں آرہی ہے۔ تحریک انصاف کو اس پوزیشن میں ہونا چاہیے تھا لیکن وہ نظر نہیں آرہی ہے۔

تحریک انصاف ابھی تک گلگت میں وہ ماحول نہیں بنا سکی ہے کہ کہا جائے کہ اس کی جیت یقینی ہے۔ ابھی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان سخت مقابلہ کی بات ہو رہی ہے۔ کیا تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے گی۔ اس پر شکوک ہیں۔ اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت نہیں ہوگی۔

گلگت بلتستان کے انتخابات میں ایمپائر اب تک کافی حد تک نیوٹرل نظر آرہا ہے۔ انتخابی عمل میں فوج کو نہ بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جیتنے والے گھوڑوں کی پارٹی بدلنے کا الزام بھی آرہا ہے۔ ایک تو اس بار جیتنے والے گھوڑوں نے کوئی بڑی تعداد میں پارٹیاں نہیں بدلی ہیں۔ دوسرا ابھی تک کسی نے یہ الزام بھی نہیں لگایا کہ دباؤ میں پارٹی بدلی ہے۔

سیاسی جماعتیں بھی ایک آزاد ماحول  میں ہی انتخاب لڑ رہی ہیں۔ اس لیے ابھی تک معاملات نیوٹرل ہونے کی ہی اطلاعات ہیں۔ اگر پولنگ کے نتائج میں گڑ بڑ نہ ہوئی تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ گلگت بلتستان کا انتخاب ایسا انتخاب ہوگا جس کے نتائج تمام بڑی پارٹیاں قبول کر لیں گی۔ چھوٹی موٹی شکایات تو ہونگی لیکن کسی بھی ادارے کی جانب سے مداخلت کے مسائل نہیں ہوں گے۔ ابھی تک فضا سے ایسے ہی اشارے مل رہے ہیں۔

ابھی ویسے انتخابات میں کافی روز باقی ہیں۔ بلاول ابھی انتخابی مہم کے لیے گلگت پہنچ گئے ہیں۔ ان کے جلسے اچھے ہوئے ہیں۔ انھیں عوام کی طرف سے پذیرائی مل رہی ہے۔ بلاول نے کوئٹہ کے جلسہ میں شرکت کے بجائے گلگت کی انتخابی مہم کو اہمیت دی ہے اس سے دو اشارے ملتے ہیں۔ ایک تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بلاول اب پی ڈی ایم سے کچھ فاصلہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

اسی لیے کراچی میں نواز شریف کی تقریر نہیں کروائی گئی ۔ تا ہم پیپلزپارٹی کی دیگر قیادت کی بھر پور شرکت کی روشنی میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پیپلزپارٹی پی ڈ ی ایم کو چھوڑ رہی ہے۔ ان کی شمولیت ان کی موجودگی کے لیے کافی ہے۔

جہاں تک بلاول کی بات ہے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس وقت گلگت میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن کافی بہتر ہے۔ انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی یہ رائے تھی کہ ان انتخابات میں پیپلزپارٹی گلگت بلتستان کی بڑی پارٹی بن کر ابھر سکتی ہے۔لیکن پیپلزپارٹی اکیلی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہر گز نہیں ہوگی۔ اگر وہ بڑی پارٹی بن بھی جائے گی تو حکومت بنانے کے لیے دوسری جماعتوں کی محتاج ہوگی۔

ن لیگ کی سیٹیں پہلے سے بہت کم ہونگی۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ن لیگ کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ وہ دوسرے یا تیسرے نمبر پر آئیں گے۔ جب کسی بھی جماعت کے پاس اکیلے حکومت بنانے کی سیٹیں نہیں ہونگی تو ن لیگ کی اہمیت ہوگی۔ وہ جس کے ساتھ ملیں گے اس کی حکومت بن سکے گی۔ تحریک انصاف کے بھی دوسرے یا تیسرے نمبر پر سیٹیں جیتنے کے امکانات ہیں۔ لیکن تحرک انصاف کے حوالے سے لوگ شکوک شبہات کا شکار ہیں کہ تحریک انصاف کے پاس اتحادی حکومت بنانے کے لیے کوئی اتحادی نہیں ہے۔

سب جانتے ہیں کہ مرکزی سیاست کی وجہ سے تحریک انصاف پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے ساتھ اتحاد کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ تحریک انصاف کی سیاسی تنہائی لوگوں کے دلوں میں اس کی حکومت بنانے کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہیں۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی مل سکتے ہیں یہ سب کی رائے ہے مولانا بھی اپنی ایک دو سیٹوں کے ساتھ ادھر ہی آئیں گے۔ اس لیے کوئی بعید نہیں کہ گلگت بلتستان میں پی ڈی ایم کی حکومت بن جائے۔ لیکن ابھی انتخابات میں کافی روز باقی ہیں اور ماحول بدلنے کے لیے یہ دن بہت ہیں، لیکن جو ماحول بن گیا ہے اس کو مکمل بدلنا بھی اتنا آسان نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔