بابر اعظم کے ساتھ ایسا نہ کرنا

سلیم خالق  پير 26 اکتوبر 2020
سنا ہے چیئرمین احسان مانی نے ملاقات میں انھیں بااختیار کپتان بنانے کا یقین دلایا ہے

سنا ہے چیئرمین احسان مانی نے ملاقات میں انھیں بااختیار کپتان بنانے کا یقین دلایا ہے

کلینک کے باہر ایک بزرگ زاروقطار رو رہے تھے،کسی نے ان سے پوچھا بابا جی کیا ہوا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’’یہ جو ڈاکٹر فلاں کا بورڈ دیکھ رہے ہو یہ میرا بیٹا ہے،میں اسے فون کرتا ہوں تو نظرانداز کر دیتا تھا، آج سوچا آکر ہی بات کر لوں، کافی دیر انتظار کے بعد اندر بلایا تو کہنے لگا کہ ابھی مصروف ہوں جلدی بتائیں کیا بات ہے، میں نے کہا بیٹا بس تمہاری شکل دیکھنے آیا تھا کام کیا ہوگا، تو وہ کہنے لگا میرا وقت ضائع نہ کیا کریں۔

آپ نے میرے لیے کیا ہی کیا ہے، میں نے یہ سب کچھ اپنے بل بوتے پر حاصل کیا، یہ سن کر میرے اعصاب شل ہو گئے، ماضی فلم کی طرح میرے ذہن میں چلنے لگا،گود میں کھلانے سے لے کر قرض لے کر پڑھانے تک سب واقعات یاد آ گئے لیکن خیر اب اگر وہ کہتا ہے کہ میں نے اس کیلیے کچھ نہیں کیا تو ٹھیک ہی کہتا ہوگا‘‘۔

مشتاق صاحب نے اپنے سامنے پیش آنے والا یہ واقعہ مجھے سناتے ہوئے کہا کہ ’’یہ حال ہے ہمارے ملک کا اور تم کرکٹرز کی بات کرتے ہو،میاں یہاں لوگ اپنے ماں باپ کو بھول جاتے ہیں تو یہ کرکٹرز کیا چیز ہیں، جب تک پرفارم کریں گے ہیرو جہاں ناکام ہوئے یہی لوگ انھیں بْرا بھلا کہہ رہے ہوں گے، ہماری عوام کی یادداشت بہت کمزور ہے وہ جلدی بھول جاتے ہیں‘‘

ان کی یہ باتیں میرے ذہن سے نہیں نکل پا رہیں، میں یہی سوچ رہا ہوں کہ کہیں خدانخواستہ بابر اعظم کے ساتھ بھی لوگ ایسا نہ کریں، ابھی انھیں ٹیسٹ کپتان بنانے کی بھی باتیں ہو رہی ہیں،26 سال کی عمر میں تمام تر بوجھ ان پر ڈال دیا جائے گا، بیٹنگ لائن کے وہ اہم ستون ہیں، دنیا بھر میں ان کی تعریفیں ہوتی ہیں مگر میں جانتا ہوں حاسدین کی بھی کمی نہیں، بعض سابق ٹیسٹ کرکٹرز کے بیانات ان کے دل کا میل سامنے لے آتے ہیں۔

کوئی بیٹنگ میں تکنیکی خامیاں نکال دیتا ہے تو کوئی کہتا ہے کہ نچلے نمبرز پر بیٹنگ کرو، کوئی ان کے مقابلے میں حیدرعلی کو لانے کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے،کوئی محمد رضوان کوکپتانی کیلیے پروموٹ کرتا ہے، میرا ان سب سے یہی کہنا ہے کہ برسوں بعد پاکستان کو کوئی ایسا سپراسٹار ملا اس کی قدر کریں اورکھیل پرتوجہ دینے دیں، کوہلی سے موازنہ کر کے دباؤ کا شکار کریں نہ بیٹنگ میں خامیاں نکالیں، ابھی وہ مسلسل اسکور کر رہے ہیں تو یہ حال ہے جب خدانخواستہ 1،2میچ میں زیادہ رنز نہ بنائے تو مخالفین کیا کریں گے؟ پی سی بی کا بھی یہی انداز ہے۔

وہ کھلاڑیوں کو کٹھ پتلی کے طرح استعمال کرتا ہے پھر جب کام نکل جائے تو دودھ میں مکھی کی طرح نکال دیا جاتا ہے،سرفرازاحمد کو ٹیسٹ قیادت سے بھی ہٹانا تھا توآپ اظہر علی کو گھر سے بلا کر لے آئے، پھر جب انھوں نے وزیر اعظم کے سامنے بے روزگار کرکٹرز کا مقدمہ پیش کیا تو اب کپتانی سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا، سرفراز نے جنوبی افریقہ میں اپنے آخری دونوں ٹیسٹ میں نصف سنچریاں بنائی تھیں مگر باہر ہو گئے،اب اظہر نے انگلینڈ میں سنچری بنائی مگر وہ کسی کو یاد نہیں رہے گی،انھیں قیادت سونپنے کا فیصلہ ہی غلط تھا،آپ بابر کو اسی وقت تینوں طرز کا کپتان بنا دیتے مگر پہلے ایسا نہ کیا۔

جیسے مصباح کے حوالے سے یوٹرن لیا گیا، ساری دنیا کہہ رہی تھی کہ انھیں چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ بنانا غلط ہے مگر پی سی بی نے ایسا ہی کیا اور اب ایک ذمہ داری واپس لے لی، وزیر اعظم سے ملاقات کر کے بورڈ حکام کی انا کو ٹھیس پہنچانے والے ایک اور کھلاڑی محمد حفیظ بھی اب جہاں 1،2 اننگز میں ناکام ہوئے ٹیم سے ہمیشہ کیلیے باہر ہو جائیں گے، یونس خان کو آپ بیٹنگ کوچ بناکر انگلینڈ لے گئے خوب تعریفیں کیں مگر ہوم سیریز کیلیے انھیں کوچنگ پینل سے باہر کر دیا، فیصلوں میں تسلسل کیوں نہیں ہے؟ خدارا اب بابر اعظم کے ساتھ ایسا نہ کرے گا، آپ نے انھیں ٹی20 اور ون ڈے میں کپتان بنایا، اب ٹیسٹ میں بھی بنا رہے ہیں بالکل ٹھیک ہے، مگر اب بھرپور اعتماد بھی دیں۔

سنا ہے چیئرمین احسان مانی نے ملاقات میں انھیں بااختیار کپتان بنانے کا یقین دلایا ہے، بہت اچھی بات ہے، بابر کو اپنی ٹیم بنانے دیں، انھیں کم از کم 2 سال کیلیے تینوں طرز میں قیادت سونپیں، پھر کارکردگی کا جائزہ لے کر آگے کا سوچیں، اس دوران نتائج جو بھی رہیں حوصلہ رکھیں، جب کپتان کو خود پتا ہو گا کہ اس کی کرسی پکی ہے تو وہ خوف کا شکار نہیں ہوگا اور اپنے فیصلوں میں مدد ملے گی، کھلاڑی بھی اس کی بات مانیں گے۔

بابر کے بارے میں جتنا میں جانتا ہوں وہ اپنے کام سے کام رکھنے والے سادہ انسان ہیں، محاذ آرائی نہیں کرتے اس لیے بورڈ کو ان سے ایسا بھی کوئی خطرہ نہیں ہوگا کہ وزیر اعظم سے شکایت لگا دیں گے، شائقین سے بھی درخواست ہے کہ انھیں پورا وقت دیں اور اگر خدانخواستہ کبھی کارکردگی میں اتار چڑھاؤ آئے تو اسے بھی برداشت کریں، کھلاڑی بھی انسان ہیں اورہم ان سے ہر وقت یہ توقع نہیں کر سکتے کہ کامیابیاں ہی سمیٹتے رہیں گے۔

مجھے وہ منظر نہیں بھولتا جب بفرزون کی گلی میں ہزاروں افراد جمع تھے اور ایک گھر کی بالکونی سے سرفراز احمد چیمپئنز ٹرافی لے کر نمودار ہوئے تو نعروں کی گونج سے پورا علاقہ گونج اٹھا، اب وہ گلی سنسان ہے، نعرے لگانے والے وہی لوگ ’’سرفراز کو باہر نکالو‘‘ کہتے دکھائی دیتے ہیں، ماضی میں اور بھی کئی کھلاڑیوں کے ساتھ ایسا ہو چکا، اچھا کھیلنے پر سراہیں ضرور لیکن بْرے وقت میں بھی اپنے اسٹارز کا ساتھ دیں، چاہے وہ سرفراز، اظہر علی یا کوئی بھی ہو، ماضی میں جو ہوا چلیں اسے بھول جاتے ہیں مگر کبھی بابر کے ساتھ ایسا نہ کرنا، وہ ہماری کرکٹ کیلیے ایک انعام ہے اسے سنبھال کر رکھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔