عمران خان کیوں ضروری ہے؟

محمد عمران چوہدری  پير 26 اکتوبر 2020
ملک کے وسیع تر مفاد میں عمران خان کا مسند اقتدار پر موجود رہنا ضروری ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ملک کے وسیع تر مفاد میں عمران خان کا مسند اقتدار پر موجود رہنا ضروری ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

شائد آپ کو یقین نہ آئے لیکن عمران خان پاکستان کےلیے ضروری ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ترقی کرے، وطن عزیز میں خوشحالی کا راج ہو، غریبوں کے دن بدلیں، میری ارض پاک پر اترے وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو، قرضوں کا حجم کم ہو، روپے کی قدر میں اضافہ ہو، سبز پاسپورٹ کی عزت ہو، غیرملکی ہمارے کپڑے اتروا کر ہماری تلاشی نہ لیں، دنیا میں کہیں پر بھی کوئی پٹاخہ بجے تو ہم پر شک نہ کیا جائے، ہماری ہاں میں اقوام عالم کی ہاں ہو، وطن عزیز سے کرپشن پوری نہ سہی ادھوری ہی ختم ہوجائے، برسات کے موسم میں ہر گھر سے پانی نہ نکلے اور وہ سب کچھ جو ہم سب چاہتے ہیں تو ہم سب کو عمران خان کا ساتھ دینا ہوگا۔ مگر کیوں؟

اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھے، آپ کو بتاتا چلوں کہ 2018 میں جب عمران خان اقتدار میں آئے تو وطن عزیز کی صورت حال اس قدر خراب تھی کہ ایک بڑی سیاسی پارٹی کے ذمے داران اس بات پر پریشان تھے کہ اگر انہیں حکومت مل گئی تو وہ کیسے چلائیں گے، اور دوسری بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ نے یہ کہہ کر خان مخالف اتحاد کا حصہ بننے سے انکار کردیا کہ اگر عمران خان کو مزہ چکھانا ہے تو اسے حکومت کرنے دیں۔ آج دو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد صورتحال یہ ہے کہ ریکارڈ 26 ارب 20 کروڑ ڈالر قرض لیا گیا۔ لیکن آپ بدقسمتی دیکھیے کہ حاصل کی گئی رقم میں سے 19 ارب 20 کروڑ ڈالر کی رقم گزشتہ حکومتوں کے لیے گئے قرضوں کی واپسی کی مد میں ادا کی گئی یعنی صرف سات ارب ڈالر موجودہ حکومت کو ملے اور ان سات ارب ڈالر سے پی ٹی آئی نے وطن عزیز میں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھا دیا۔ یاد دہانی کےلیے عرض کرتا چلوں گزشتہ دو سال میں دیامر بھاشا ڈیم، مہمند ڈیم ہائیڈرو پاور کی تعمیر، راوی اربن ڈیولپمنٹ پروجیکٹ، بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) کی تکمیل، بجلی کی لاگت کم کرنے کے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے، اسلام آباد میں ایئر یونیورسٹی کے نئے کیمپس کا قیام، فیصل آباد میں علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی کا قیام، ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے ہنرمند جوان پروگرام کا آغاز، احساس نشوونما پروگرام، وفاقی حکومت کے پروگرام صحت انصاف کارڈ کا اجرا، نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام، احساس سیلانی لنگر اسکیم، کامیاب جوان پروگرام، ڈیجیٹل پاکستان پروگرام، پناہ گاہ (شیلٹر ہوم) کا قیام جیسے بڑے منصوبے شروع کیے گئے۔

اگرچہ پی ٹی آئی سرکار اپنے شروع کردہ منصوبوں کی بدولت فوری طور پر عوام کے دکھوں کا مدوا کرنے میں ناکام رہی ہے، لیکن اگر موجودہ حکومت کو اپنے منصوبوں کی تکمیل کا موقع دیا جائے تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے گا۔

ضرورت اس امر کی ہے اپوزیشن پارٹیاں اور عوام حکومت گرانے کی کوششوں کے بجائے پی ٹی آئی سرکار کو اس بات پر مجبور کریں کہ وہ اپنے منصوبوں کی بروقت تکمیل کو ممکن بنائیں۔ ہر روز ہونے والی دس کروڑ کی کرپشن کو پوری نہ سہی ادھورا ہی ختم کردیا جائے۔ ہماری عدلیہ کا معیار اس قدر بلند کردیا جائے کہ وہ 118 ویں نمبر پر آنے کے بجائے آٹھویں نمبر پر آجائے۔ ڈالر کے پر کٹ جائیں، مہنگائی اور بدامنی کا خاتمہ ہوجائے۔ بصورت دیگر سیاسی پارٹیوں کی جانب سے حصول اقتدار کی کوششیں وطن عزیز کو مزید ابتری کی جانب دھکیل دیں گی۔ کیونکہ وطن عزیز کی موجودہ حالت نئے الیکشن کا خرچ اٹھانے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ مزید برآں آنے والی حکومت حسب روایت خان صاحب کے شروع کردہ منصوبوں کو ختم، منجمد یا پھر سست روی کا شکار ضرور کردے گی۔ یا پھر ایسے اقدامات کیے جائیں گے کہ آنے والے حکمران بھی ان سے ہر لحاظ سے مستفید ہوسکیں۔

اس لیے ملک کے وسیع تر مفاد میں عمران خان کا مسند اقتدار پر موجود رہنا ضروری ہے۔ آئیے خدائے بزرگ و برتر کے حضور دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت خان صاحب کو اپنے وعدے پورے کرنے کے ساتھ اپوزیشن کے علاوہ اپنے اردگرد موجود لوگوں کی کرپشن پکڑنے کی توفیق عطا فرمائے، تاکہ ہم پاکستانی بھی سر اٹھا کر بغیر مانگے تانگے اقوام عالم کی برابری کرسکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد عمران چوہدری

محمد عمران چوہدری

بلاگر پنجاب کالج سے کامرس گریجویٹ ہونے کے علاوہ کمپیوٹر سائنس اور ای ایچ ایس سرٹیفکیٹ ہولڈر جبکہ سیفٹی آفیسر میں ڈپلوما ہولڈر ہیں اور ایک ملٹی اسکلڈ پروفیشنل ہیں؛ آپ کوچہ صحافت کے پرانے مکین بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔