خوش خبریوں کا گچھا

شاہد نذیر  پير 26 اکتوبر 2020
میڈیا ہمارے بھولے عوام کے دماغ پر ہتھوڑے کیوں برساتا ہے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میڈیا ہمارے بھولے عوام کے دماغ پر ہتھوڑے کیوں برساتا ہے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

وہ دن گئے جب ہر کوئی میڈیا سے نالاں رہتا تھا کہ قومی میڈیا پر اچھی خبریں نہیں بتائی جاتیں۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ عرصے سے منفی خبریں چلانا ہمارے میڈیا کا ایک خاص مزاج بن چکا تھا۔ ایڈیٹروں اور اینکروں نے اندر خانے طے کر رکھا تھا کہ خبر صرف وہی کہلائے گی جس سے پڑھنے یا سننے والے کو اگر ہارٹ اٹیک نہ ہو تو کم از کم ڈپریشن میں ضرور چلا جائے۔

اب دیکھئے ناں، اسٹاک مارکیٹ میں تیزی یا مندی سے کم از کم اٹھانوے فیصد آبادی کا تو کچھ لینا دینا نہیں۔ لیکن یہ خبر ہر بلیٹن میں شامل کی جاتی ہے۔ اب یہ بھولے عوام کے خلاف سازش نہیں تو اور کیا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں تیزی سے نہ تو دو سو روپے کلو بکنے والے انڈے سستے ہوتے ہیں اور نہ ہی مندی سے سو روپے درجن آلو کی قیمت میں کوئی ردوبدل ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہے، جو کہ ہے بھی، تو میڈیا ہمارے بھولے عوام کے ڈبہ پیک دماغ پر ہتھوڑے کیوں برساتا ہے؟

اتنے برسوں کی محنت شاقہ کے بعد عوام اب سمجھ چکے ہیں کہ بری خبریں محض میڈیا کا پروپیگنڈا ہے۔ پاکستان میں بہت کچھ اچھا بھی ہوتا ہے، حکومتی ترجمان ایسے ہی دن بھر سر نہیں کھاتے رہتے۔ خیر بات اگر حکومتی ترجمانوں تک محدود رہتی تو شک کیا جاسکتا ہے کہ ہر حکومت ہی ’’سب اچھا‘‘ کا راگ الاپتی ہے، مزہ تو تب ہے اگر کوئی کہنہ مشق، درویش صفت اور ’’انتہائی غیر جانبدار‘‘ صحافی اپنی برادری کو آئینہ دکھائے کہ جناب ’’یہ ہیں وہ اچھی خبریں، جو تم ہر وقت میرے ہم وطنوں سے چھپاتے رہتے تھے‘‘۔

اعصاب شکن انتظار کے بعد پاکستانی میڈیا میں ایسے ستارے کا ظہور ہوگیا ہے جس کا شدت سے زیادہ عقیدت سے انتظار تھا۔ امانت، دیانت، صداقت اور ’’شراکت‘‘ کا یہ استعارہ عامہ کی رائے کو ہموار کرنے میں ید طولیٰ رکھتا ہے۔ یہ اب سے نہیں ہیں بلکہ تب سے ہیں جب جنگیں چپیڑوں سے لڑی جاتی تھیں اور تجارت باہمی ضروریات کے تبادلے تک محدود تھیں۔ دنیا بدل گئی لیکن ان کے چال چلن نہیں بدلے، یعنی انہوں نے قومی مفاد پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کیا۔ ان کے ہم عصر ریت اور سیمنٹ کے گھروندوں میں جا بسے، لیکن یہ آج بھی شیشے کے نرم و نازک محل میں رہتے ہیں۔ اسی قبیل کے ایک اور صحافی کا ماننا ہے کہ درویشی میں ان سے بڑھ کر صرف ایک شخص کو دیکھا ہے جو آرمی چیف ہوتے ہوئے بھی روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرتے تھے۔ جی ہاں جنرل کیانی صاحب کے گھر میں ایک وقت کا کھانا بنتا تھا دوسرے وقت میں وہ روٹی پانی میں بھگو کر کھا لیتے تھے، تاہم سگار کے معاملے میں ذرا نہیں چوکتے تھے، ہمیشہ امپورٹڈ کو ترجیح دی۔

اس سے پہلے کہ بات کہیں اور جا نکلے، اپنے موضوع پر واپس آتے ہیں۔ صحافت کو نئی جہت بخشنے والے یہ درویش، سونامی کی زد میں آئے عوام کو نئی نئی خوشخبریاں سناتے ہیں۔ وہ کبھی بھی ایک وقت میں صرف ایک خوشخبری نہیں سناتے بلکہ ’’خوش خبریوں کا گچھا‘‘ لے کر حاضر ہوتے ہیں۔ ایسی ایسی دور کی کوڑی لے کر آتے ہیں کہ ہر کوئی اَش اَش کر اٹھتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ پاکستان کو کوئی پندرہ بیس مرتبہ فیٹف کی گرے لسٹ سے نکال کر وائٹ لسٹ میں لا چکے ہیں، پاکستان کو ابھرتی ہوئی معیشت قرار دے چکے ہیں۔ وہ اتنے دور اندیش ہیں کہ انہیں گورنمنٹ کی بغیر کسی پالیسی کے مہنگائی، بے روزگاری کا خاتمہ ہوتا ہوا نظر آجاتا ہے۔

آئے دن خوشخبریوں کی لوری سنتے سنتے عوام تھک ہار کر سوجاتے ہیں۔ نہ حالات بدلتے ہیں اور نہ ہی محترم کی روش بدلتی ہے۔ عوام بیچارے بھی کیا کریں، لارے لپے کی عادت جو پڑچکی ہے۔

مسئلہ یہ نہیں کہ ان کی اکثر خوشخبریاں غلط ثابت ہوتی ہیں، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ موصوف اکثر وہ خوشخبریاں بھی سنا دیتے ہیں جو حکومتی پائپ لائن میں بھی نہیں ہوتیں۔ ابھی پچھلے دنوں موصوف نے دعویٰ کیا تھا کہ بھرپور حکومتی اقدامات کی وجہ سے مہنگائی دم توڑتی ہوئی نظر آرہی ہے، وہ دن دور نہیں مہنگائی کو اچھائی سمجھ کر جڑ سے کاٹ دیا جائے گا۔ دعوے کی حقیقت جاننے کےلیے عین اسی وقت جب وزیراعظم صاحب فرما رہے تھے نواز شریف کو واپس لانے کےلیے برطانیہ بھی جانا پڑا تو ضرور جاؤں گا، کسی نے پوچھ لیا سرکار نواز شریف کو چھوڑیں پرانی قیمتیں ہی واپس لے آئیں تو کہنے لگے ’’گزرا ہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ، حافظ خدا تمہارا‘‘۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شاہد نذیر

شاہد نذیر

بلاگر ایکسپریس نیوز لاہور سے بطور کاپی ایڈیٹر وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔