پنجاب میں جنگلی حیات کا غیرقانونی شکار کرنے پر سزائیں بڑھانے کی تجویز

آصف محمود  اتوار 25 اکتوبر 2020
پنجاب میں جنگلی حیات کا معیار یورپی ملکوں کے برابر لانا چاہتے ہیں، اعزازی گیم وارڈن فوٹو: فائل

پنجاب میں جنگلی حیات کا معیار یورپی ملکوں کے برابر لانا چاہتے ہیں، اعزازی گیم وارڈن فوٹو: فائل

 لاہور: پنجاب میں جنگلی حیات کے غیرقانونی اور مقرہ حد سے زیادہ شکارکرنیوالے شکاریوں کا اسلحہ ضبط کرنے اور سزائیں بڑھانے کی تجویزسامنے آئی ہے۔

پنجاب میں جنگلی حیات کے غیرقانونی اور مقرہ حد سے زیادہ شکارکرنیوالے شکاریوں کا اسلحہ ضبط کرنے اورسزائیں بڑھانے کی تجویزسامنے آئی ہے، پنجاب اڑیال، ہمالین آئی بیکس کے ہنٹنگ ٹرافی کا فیصلہ وفاقی حکومت کرے گی، بہاولنگرمیں غیرقانونی شکارمیں ساتھ دینے پر ایک وائلڈ لائف انسپکٹر کومعطل کردیا گیا، بریڈنگ سیزن کے دوران جانوروں اورپرندوں کا شکارجرم اوران انواع کی نسل ختم کرنے مترادف ہے۔ پنجاب میں جنگلی حیات کا معیار یورپی ملکوں کے برابر لانا چاہتے ہیں۔

ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے پنجاب وائلڈ لائف کے اعزازی گیم وارڈن بدرمنیر نے بتایا وزیراعظم عمران خان اوروزیراعلی پنجاب کا جنگلات اورجنگلی حیات پر گہرافوکس ہے اورہم انہیں کی ہدایات اورویژن کو لیکر آگے بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ سال جانوروں اورپرندوں کا غیرقانونی شکار کرنیوالے 2800 شکاریوں کے چالان کئے گئے تھے انہیں 19 ملین روپے جرمانہ کیاگیاتھا جبکہ اس سال کے دس ماہ کے دوران 23 ملین روپے جرمانے کی مد میں وصول کرچکے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم نے جانوروں اور پرندوں کا غیرقانونی شکارکرنیوالوں کیخلاف سختی کی ہے۔

بدر منیر نے بتایا کہ محکمے کو فنڈز اور وسائل کی کمی کا سامنا ہے، 36 اضلاع میں مجموعی طور پر ایک ہزار سٹاف ہے۔ تحصیل سطح پر ہمارے پاس موٹرسائیکل بھی نہیں ہے، اگر کسی جگہ گاڑیاں ہیں توپ ٹرول کا مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ شکاریوں کے جدید اسلحے اور گاڑیوں کے مقابلے میں ہمارے پاس پرانی گاڑیاں ہیں۔ انہوں نے وزیراعلی پنجاب کو تجویز دی ہے کہ غیرقانونی شکار اور قانونی شکار کے دوران شکارکی مقررہ حد سے تجاوز کرنیوالوں کا اسلحہ ضبط کرلیا جائے جبکہ جرمانے اورسزائیں مزید بڑھائی جائیں۔

اعزازی گیم وارڈن نے بتایا کہ جنگلی حیات کی ایسی انواع جن کی کسی علاقے میں تعداد کافی زیادہ ہو،یا پھرایسے جانورجو طبی عمرپوری کرنے کے قریب ہوں ان کا شکارکرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے تاہم شکار ایک حد اورقانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہوناچاہیے۔ بریڈنگ سیزن کے دوران جانوروں اور پرندوں کا شکار ناصرف جرم اورگناہ ہے بلکہ یہ اقدام ان انواع کی نسل ختم کرنے کے مترادف بھی ہے۔

بدرمنیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب وہ لوگ بااثر شکاریوں پر ہاتھ ڈالتے ہیں تو پھر ان کیخلاف پراپیگنڈا شروع ہوجاتا ہے ،اینٹی کرپشن کو درخواستیں دی جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ چھوٹے درجے کے ملازم پھر کارروائیاں کرنے سے ڈرتے ہیں۔ تحفظ شدہ جانوروں اور پرندوں کی خرید و فروخت اور شکار میں اگر محکمے کا کوئی ملازم ملوث پایا جاتا ہے فوراً کارروائی کی جاتی ہے۔ ابھی بہاولنگر میں نایاب جانوروں کے شکار میں ایک وائلڈ لائف انسپکٹر کے شامل ہونے کے شواہد ملے تھے جس پر اسے معطل کردیا گیا ہے۔

بدر منیرنے بتایا کہ وہ خود شکار کے لئے مختلف ممالک میں جاچکے ہیں، ان کے کمرے میں جو ہمالین آئی بیکس کا سر پڑا ہے یہ انہوں نے پانچ سال قبل گلگت بلتستان میں قانونی طور پر شکار کیا تھا۔ 30 سال قبل گلگت بلتستان سے ہی ٹرافی ہنٹنگ شروع کی گئی تھی جس کا دائرہ کار پورے ملک میں پھیلا گیا۔ یہ ایک بہترین ماڈل ہے۔ اس سے پاکستان کا سافٹ امیج دنیا کے سامنے آتا ہے جبکہ کثیر زرمبادلہ بھی حاصل ہوتا ہے ۔ جو ان ہی علاقوں میں جنگلی حیات کی افزائش کے لئے خرچ کیا جاتا ہے۔ ٹرافی ہنٹنگ میں ایسے جانوروں کے شکارکی اجازت دی جاتی ہے جو طبعی عمر پوری کرچکے ہیں اوراس کی اجازت وفاقی حکومت دیتی ہے۔

بدرمنیرکا کہنا تھا وہ جب سے اعزازی گیم وارڈن بنے ہیں انہوں نے نا تو محکمے سے ایک روپے کے بھی فنڈز لئے ہیں اور نہ ہی محکمے کی گاڑی استعمال کرتے ہیں۔ وائلڈلائف ان کا شوق ہے اور چاہتے ہیں کہ پاکستان میں جنگلی حیات کا معیار اس سطح پر لے کر جائیں جو یورپ اورافریقا میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔