معاشرے کا سدھار، خود سے ابتدا کیجئے

راضیہ سید  منگل 27 اکتوبر 2020
ہر انسان اگر خود کو ہی ٹھیک کرلے تو پورا نظام ٹھیک ہوسکتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہر انسان اگر خود کو ہی ٹھیک کرلے تو پورا نظام ٹھیک ہوسکتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میرا بھانجا بہت دیر سے مضطرب دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ محمد ہادی کے پاس جاکر دیکھنا چاہیے کہ یہ کیوں الجھن کا شکار ہے۔ ہادی کے منہ بسورنے پر مجھے احساس ہوا کہ معاملہ سنجیدہ ہے۔ ہادی بہت دیر سے ایک نقشہ (پزل) مکمل کرنے نے کی کوشش کررہا تھا۔ میں نے پزل دیکھنے کے بعد اسے صرف ایک بات سمجھائی کہ پزل کے بیک سائیڈ پر دیکھو کوئی تصویر تو نہیں بنی ہوئی۔ جب ہم نے وہاں دیکھا تو ایک آدمی کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ میں نے ہادی کو کہا کہ آؤ نقشے کو چھوڑو، ہم اس آدمی کی تصویر کو پورا کرتے ہیں۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ دس منٹ میں پزل مکمل ہوگیا۔

پزل حل ہونے کے بعد ہادی تو خوش ہوگیا لیکن میرے سامنے ایک اور پزل آگیا کہ واقعی ایک آدمی کے ٹھیک کرنے سے نقشہ مکمل ہوگیا تو کیا ایک آدمی کے بھی درست ہونے سے ہمارا معاشرہ نہیں سدھر سکتا؟ یعنی انسان اگر خود کو ہی ٹھیک کرلے تو کیا پورا نظام ٹھیک نہیں ہوسکتا؟ ہمارا مائنڈ سیٹ اب ایسا ہوچکا ہے کہ ہم دوسروں کی غلطیوں کے جج اور اپنے گناہوں کے بھی وکیل ہوتے ہیں۔

حکومت ہے تو وہ غلط، اپوزیشن ہے تو وہ کام نہیں کررہی۔ سبزی والے نے گلی سڑی سبزی دے دی۔ دفتر میں باس نے ڈانٹ دیا۔ بازار گئے تو پرس چوری ہوگیا۔ یہ سب باتیں عجیب اس لیے ہیں کہ ہم نے ہمیشہ دوسروں پر نکتہ چینی کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ اب چشم تصور سے چند واقعات کو دیکھیے۔ نوشین اسکول میں ٹیچر ہیں، جنہیں اپنی شاگرد مہک سے یہ شکایت ہے کہ یہ نالائق ہے۔ لیکن انھوں نے اس کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے یہ کبھی نہیں سوچا کہ وہ ذہنی طور پر تھوڑی کمزور ہے اور والدین کی شفقت سے بھی محروم ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ میڈم اس کو اضافی کلاسز میں پڑھائیں لیکن انھوں نے مہک کے چچا کو ٹیوشن کے بارے میں بتادیا کہ انھیں ان کے گھر بچی کو لے کر آنا ہوگا۔

’’آج تو باس کا موڈ بہت آف ہے، یار کوئی اور بات کرو یہ تو روز کی کہانی ہے‘‘۔ یہ کہنا ہے فرید اور نوید صاحب کا جنہوں نے ایک ہفتہ پہلے دی گئی فائلز اور رپورٹس مکمل نہیں کیں۔ ان دونوں نے سارا وقت گپ شپ اور اسی طرح کی فضولیات میں گنوا دیا۔ فاروق صاحب ایک باس ہیں، انھیں اپنے ماتحتوں سے شکایت ہے کہ ان کی لاپرواہی کے باعث افسران بالا نے ان کی بے عزتی کی۔ لیکن کیا فائنل پریزنٹیشن سے پہلے اپنے اسٹاف کے ساتھ ایک میٹنگ کرکے مسائل کا حل تلاش نہیں کرسکتے تھے؟ لیکن ظاہر ہے کہ پھر انھیں باس کون کہے۔

راحیلہ آنٹی اپنی نوکرانی سے پریشان ہیں کہ وہ روز روز چھٹی کرلیتی ہے اور دنیا جہان کے بہانے کرتی پھرتی ہے۔ اب کوئی ان سے یہ پوچھے کہ آپ بھی تو نوکرانی پر گھر چھوڑ کر مارننگ شو دیکھنے میں مشغول ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے نوکرانی اپنے آپ کو سیاہ و سفید کا مالک ہی سمجھنے لگی ہے۔ تو کیا اس سب میں آپ کی غلطی نہیں اور اگر ایک دن آپ برتن دھو کر رکھ لیں گی تو آپ کو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا؟

’’ہر طرف کتنے کاغذ ہیں، لوگ کتنا گند ڈالتے ہیں‘‘ یہ آواز مہرین کی ہے۔ جبکہ یہی مہرین ڈرائیونگ کے دوران چپس اور دیگر اشیا کے پیکٹ کے ریپر کھول کر سڑک پر پھینک دیتی ہے۔

بس ہمارا یہی طرز عمل ہے جو ہمیں خود پر تنقید کرنے کا موقع نہیں دیتا۔ جبکہ خود احتسابی کا عمل شروع کرنے سے آپ خود کو بالکل تازہ دم محسوس کریں گے، جس طرح پارک میں سرسبز پگڈنڈیوں پر چہل قدمی کرتے ہوئے فرحت محسوس ہوتی ہے۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راضیہ سید

راضیہ سید

بلاگر نے جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کیا ہوا ہے اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور پروڈیوسر، رپورٹر اور محقق وابستہ ہیں۔ بلاگز کے علاوہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔