ڈیجیٹل دنیا کے اسیر بچے  ۔ ۔ ۔ !

وریشا ذوالفقار  منگل 27 اکتوبر 2020
حقیقی دنیا سے ناتا بحال رکھنے کے لیے انھیں ’ڈیجیٹل‘ طریقے سے عملی سرگرمیوں کی طرف لانا ہوگا

حقیقی دنیا سے ناتا بحال رکھنے کے لیے انھیں ’ڈیجیٹل‘ طریقے سے عملی سرگرمیوں کی طرف لانا ہوگا

کہتے ہیں کہ ’کسی بھی مجرم کو پہلا پتھر وہ مارے جس نے کبھی کوئی جرم نہ کیا ہو‘  ہم سب دن رات دوسروں پر تنقید کرنے اور اپنے تئیں ان کی اصلاح کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، لیکن خود کتنے پانی میں ہیں۔۔۔؟

یہ کبھی دھیان نہیں دیتے، کیوں کہ ہمیں اس پر غور کرنے کا بھی وقت نہیں ملتا اور پھر یوں ہوتا ہے کہ آپ کی برائیوں پر کوئی اور دھیان دینے پر مجبور ہوا جاتا ہے اور ایسا کرنے کے لیے اسے جواز بھی دراصل ہم خود ہی فراہم کرتے ہیں۔

میرا جب بھی باہر جانے کا اتفاق ہوا، میں نے یہی دیکھا کہ وہاں لوگ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں، کوئی کسی کی طرف دیکھتا نہیں، کسی کے بارے میں اندازہ لگانے کی کوشش نہیں کرتا۔ بہت سوںکے پاس فون ہوتا ہے، جس کا اسپیکر کانوں میں اُڑس کر وہ اپنی دنیا میں مگن رہتا ہے، لیکن یہ میرا مشاہدہ ہے، ظاہر ہے کہ اج کل موبائل فون میں ایک الگ ہی دنیا جو آباد ہے، وہ نہ کسی کو بور ہونے دیتی ہے اور نہ ہی حقیقی دنیا پر دھیان دینے کا موقع دیتی ہے۔ گو کہ وہ ڈیجیٹل دنیا میں بھی کسی دوسرے حصے کی حقیقی دنیا ہے، مگر ہم سب اس کے لیے اپنے اس پاس کے ماحول کو مکمل نظر انداز کر دیتے ہیں۔۔۔

یعنی آپ کے گھر میں اگر کوئی اہم مسئلہ چل رہا ہوگا، تو شاید آپ کو اس کے بارے میں اتنی معلومات نہیں ہوں گی، جتنی آپ کو کسی اور کے مسئلوں کے بارے میں پتا ہوگا، کیوں کہ ایک گھر اور ایک چھت کے نیچے رہتے ہوئے ہم ذہنی طور پر اپنی جگہ سے غیر حاضر اور عملاً کہیں اور ہوتے ہیں، اپنی مختلف ’موبائل ایپس‘ یا سوشل میڈیا کے ذریعے۔ یہ رجحان جو میں نے دیگر ممالک میں دیکھا، اب پاکستان میں بھی نظر اتا ہے، لیکن جیسا کہ ہم جب بھی کوئی مغربی چیز پر چلنا شروع کرتے ہیں تو اپنی حدود بھی بھول کر چار ہاتھ اگے نکل جاتے ہیں۔

ہمارا گھر ہو یا دفتر، ہر جگہ یہی ماحول ملتا ہے، ہاتھ میں فون اور اس پر گڑی ہوئی نظریں، سامنے بیٹھے انسان کو مخاطب کرنے کے لیے جتنی کوشش کرنی پڑتی ہیں، اتنی محنت اس شخص کو  نہیں کرنی پڑتی، جو آپ سے ’آن لائن‘ رابطے میں ہوتا ہے، یہاں میسج کیا، ادھر تو فوراً جواب دینا ایسا ہوگیا ہے کہ جیسے کوئی فرض، جس کے قضا ہونے کا ڈر ہو، جب کہ ہم اپنے سامنے موجود لوگوں کو نظرانداز کر رہے ہوتے ہیں۔

ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ ہمارا دھیان موبائل کی اسکرین پر اتنا ہے کہ ہمیں پتا ہی نہیں کہ سامنے والا تین چار بار ایک ہی بات پوچھ پوچھ کر اب ہمارے ’’ہیں؟‘‘ کہنے پر ہمیں کتنی عجیب نظروں سے دیکھ رہا ہے۔

اس حوالے سے اس سے بڑا مسئلہ اور کیا ہوگا کہ اب مائیں اپنے بچے کو بہلانے کے لیے ہاتھ میں موبائل تھما دیتی ہیں کہ وہ انھیں تنگ نہ کرے اور خود ہی ’یوٹیوب‘ پر کارٹون لگالے یا پھر اورکوئی مناسب یا غیر مناسب دل چسپ چیزیں دیکھتا رہے، یوں وہ بے فکر ہو کر اپنے کام میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ اس ضمن میں انھیں کچھ احساس اس وقت ہوتا ہے جب ان کے بچے مہنگے مہنگے موبائل، خراب کرنے لگتے ہیں۔

کیوں کہ وہ بچے کی ضد سے جان چھڑانے کے لیے اس کے ہاتھ میں تھما دیے گئے ہوتے ہیں۔ اس لیے اب بچوں کو اس سے کیا سروکار کہ موبائل خراب کرکے وہ کتنے ہزاروںکا نقصان کر دیتے ہیں، انھیں تو موبائل کی لت انھی کے بڑوں نے لگائی ہوئی ہوتی ہے، بلکہ اب تو صورت حال یہ ہے کہ دو، دو سال کے بچے بھی بڑے بہن بھائیوں کے دیکھا دیکھی یہ ضد کرتے ہیں کہ ان کے ہاتھ میں یہ ’اسمارٹ فون‘ دے دیا جائے۔

شروعات میں تو ماؤں کو اور دیگر اہل خانہ کو بہت فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا کم سن بچہ کتنی مہارت سے یہ ٹچ فون استعمال کر رہا ہے، لیکن کچھ وقت کے بعد جب یہی عادت ایک نشے کی طرح  بن جاتی ہے، اور آپ کا اپنا ہی موبائل اپ کو استمعال کرنے کے لیے بچوں کی منتیں کرنی پڑتی ہیں، یعنی جو چیز بچے کو بہلانے کے لیے دی گئی، وہ اس کے بنا ’بہلنے‘ سے انکاری ہو جاتا ہے۔

تقریباً ہر گھر میں بچے آج کل یہی کرتے نظر آتے ہیں۔ ’وٹس ایپ‘ سے لے کر ’ٹِک ٹاک‘ اور پھر آگے یوٹیوب تک۔۔۔ آپ کب تک اور کتنی نظر رکھیں  گے کہ وہ کیا دیکھتا ہے؟ کس سے بات کرتا ہے، یا ’چھوٹا بھیم‘ لگا کر نہایت فضول، بے معنی  اور واہیات قسم کی چیزیں دیکھ رہا ہے یا کوئی معلوماتی فلم بھی اس کا شوق ہے۔

ایسے بچوں کی تعداد یقیناً بہت کم ہے، جو اس ذریعے سے واقعی کچھ حاصل بھی کرتے ہیں، کوئی نیا سوفٹ ویئر یا کسی نئی زبان پر عبور حاصل کرنے کی کوشش، اپنے مستقبل کے لیے سوچتے اور اسے سمجھنے کے لیے انٹرنیٹ کا سہارا لیتے ہیں۔

لیکن ایسے بچے زیادہ تعداد میں مل جائیں گے، جن کے والدین اور بزرگ نمازی پرہیزگار، عبادت گزار اور مذہبی ہوتے ہیں، لیکن وہ بچے کسی گانے پر رقص کر رہے ہوتے ہیں، کسی اداکار کی نقل کر رہے ہوتے ہیں، مختلف ایپس پر عجیب وغریب اور بے باکانہ مکالموں کو ادا کر رہے ہوتے ہیں یا ان پر اداکاری کر رہے ہوتے ہیں۔

بہت سے ماں باپ بچوں کا ’ٹیلنٹ‘ دیکھ کر خوش ہو رہے ہوتے ہیں ، انھیں پذیرائی ملتی ہے، نتیجہ یہ کے آج کل ہر انسان اپنے میں ایک ’اسٹار‘ بنا گھوم رہا ہے ، وہ اخلاقیات اور تربیت جو بڑوں کے ذریعے ملتی تھی، اس کا رواج بالکل ہی ختم ہو گیا ہے۔

سوشل میڈیا کے ’’دوستوں‘‘ سے زیادہ ہمدرد اور خیر خواہ کوئی بھی نظر ہی نہیں آتا، بس وہی صحیح اور باقی سب غلط ہیں۔۔۔

دراصل گذشتہ دنوں ’لاک ڈاؤن‘ کے سبب بچے جس قدر پڑھائی وغیرہ سے دور رہے، اتنا ہی ان خرافات کے قریب ہو گئے، ہر بچے اور بڑے کا ’یوٹیوب‘ چینل ’ٹک ٹاک‘ پر آئی ڈی اور پھر ہر لمحہ کوئی نئی چیز لگانے کے لیے مشقت اور فکر۔۔۔

کوئی بھی کام اگر اعتدال میں کیا جائے، تو غلط نہیں ہوتا، لیکن وقت گزاری کے مشاغل کو زندگی گزارنے کے لیے اہم بنا لیا جائے، تو یقیناً تباہی ہی آتی ہے۔۔۔

اپنا فون ’خاموش‘ رکھ کر، ہر ’اپلیکیشن‘ میں ’پاس ورڈ‘ لگا کر اپنا موبائل فون ایک نہایت نجی ملکیت ظاہر کر کے، ہم سب دن رات ایک دوسرے سے اپنے عیب اور اور غلطیاں چھپا رہے ہوتے ہیں، جن کے ظاہر ہونے پر تباہی آتی ہے۔۔۔

ہم بڑے بھی بچوں کو توجہ نہیں دیتے، وہ پروگرام اور ڈرامے، جو کسی وجہ سے نہیں دیکھ سکے، وہ دیکھنا بچوں کی بات سننے سے زیادہ اہم، بے چارہ بچہ اپنا سا منہ لے کر کمرے سے چلا جاتا ہے، جب اسے توجہ نہیں دی جاتی۔۔۔ کتابیں اب بھی اپنی اہمیت اور ایک الگ انفرادیت اور وجود رکھتی ہیں، ان سے دوری ابھی اس حد تک نہیں ہوئی، اس لیے بچوں میں کسی نہ کسی سطح پر اس عادت کو اب بھی پختہ کیا جا سکتا ہے۔

یہ بات بھی کورونا ’لاک ڈاؤن‘ کے دنوں میں واضح ہوگئی، جب بچے آن لائن کلاسوں سے تنگ آگئے اور انہیں اپنی کاپی پر لکھنا کتاب میں پڑھنا یاد انے لگا، لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہر وقت موبائل فون میں مشغول بچے، اس ہی موبائل پر ٹھیک سے پڑھائی کے لیے آمادہ نہ ہو سکے۔

کھیلوں کی سرگرمیاں ویسے ہی ’کورونا‘ پھیلنے کے خدشے کی بنا پر محدود ہیں، لیکن اگر بچے کو اس کے لیے امادہ کر لیا جائے، تو پچہ کہتا ہے، میں سائیکل چلاتا ہوا آوں گا آپ میری وڈیو بنائیے گا، میں کرکٹ کھیلوں گا تو بالینگ یا بیٹنگ کرتے ہوئے میری تصویر کھینچنا اور پھر سب کو وٹس ایپ کے ’گروپ‘ میں بھیجنا۔

ہر سرگرمی کو ’سوشل میڈیا‘ کی زینت بنانا، کوئی خوشی، کوئی غم کوئی بھی چھوٹے بڑے واقعہ سے اپنوں اور غیروں کو آگاہ رکھنا ایک حد تک تو ٹھیک ہے، لیکن ایک وقت پر یہ عمل دوسروں کو احساس کم تری میں ڈال سکتا ہے کہ جو کچھ آپ کے دوست کے پاس ہے، وہ آپ کے پاس کیوں نہیں، ایک دوسرے سے آگے جانے کی دوڑ، خوب صورت دکھائی دینے کا مقابلہ، نئی نئی جگہوں پر جانا، اپنے چھوٹے سے کام کو بھی  تمام لوگوں کے سامنے پیش کرنا، جن کا آپ سے کوئی تعلق بھی نہ ہو، ’حفاظتی نقطہ نگاہ‘ سے بھی خطرناک ہو سکتا ہے، اچھی معلومات اور خیالات دوسروں کے ساتھ بانٹنا مثبت گفتگو کرنا ایک اچھا پہلو ضرور ہے۔

طلاق کا رجحان، ناجائز رشتے، خود کُشیاں، دشمنیاں، دھوکا دہی ’آن لائن شاپنگ‘ یا کسی اور شکل میں، زیادتی کے واقعات، بچوں کی ذہنی سوچ عمر سے زیادہ بڑی ہو چکی ہے، ہم صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے میں انصاف کرنے سے قاصر ہو چکے ہیں، یہ وہ برائیاں ہیں، جو ہم اب محسوس بھی نہیں کر پاتے، ان جیسے بے تحاشا مسائل صرف ’انٹرنیٹ‘ اور ’سوشل میڈیا‘ کی وجہ سے جنم لے رہے ہیں، شاید آنے والے وقت میں، ان مسائل میں اضافہ ہو، ان کے حل اور سدباب کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

اگرچہ ’سوشل میڈیا‘ پر کی جانے والی ہر سرگرمی ’غلط‘ اور ’گناہ‘ کے زمرے میں نہیں آتی، ہم سب اس کا حصہ ہیں، اپنے اپنے شوق کے مطابق ہم اس کا استعمال بھی کرتے ہیں، ٹک ٹاک، یوٹیوب، انسٹا گرام اور نہ جانے کون کون سے سوشل میڈیا اپلیکیشن ہم استعمال کرتے ہیں، یہ اب ضرورت بھی بن چکی ہے، لیکن مجھ سمیت تمام خواتین خانہ کو بچوں کے لیے کم از کم حدود کا تعین کرنا ضروری ہے، لیکن بچوں کے لیے یہ لازم ہے، جو ابھی معاشرے میں رہنے کا ڈھنگ سیکھ رہے ہیں، ان کی بنیاد جیسی بنے گی، تو عمارت بھی ویسی ہی تعمیر ہوگی۔

بڑی عمر کے لوگ اس بات کا کسی قدر احساس رکھتے ہیں کہ ’سوشل میڈیا‘ کے ذریعے ملنے والی داد وتحسین یا سلام دعا، حقیقی دنیا میں کم ہی اہمیت رکھتی ہے، لیکن بچوں کا ذہن ان تجربات سے نہ آشنا اور ان حساسات سے بہت پرے ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اس پر بہت زیادہ انحصار کرنے لگتے ہیں، یہ چیز ان کی نفسیات اور شخصیت کی تعمیر میں بھی مخل ہوتی ہے۔

اس عمر کا انسان یہ جانتا ہے کے ان چیزوں پر سراہا جانا زیادہ معنی نہیں رکھتا، ہنسی مزاق میں بات ختم ہو جاتی ہے، لیکن اگر ایسی چیزیں بچوں پر اور طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔ دوسری طرف انھیں گھر میں بھی سراہا جائے، تو سونے پر سہاگہ والی بات ہوجاتی ہے، اس لیے ضروری ہے بچوں کو ان چیزوں کے لیے سراہا جائے جو ان کے لیے کارآمد ہو۔

بچوں پر محنت کرنی پڑتی ہے ، ایک موبائل کھلونے کے نام پر ہاتھ میں دینے والے والدین کچھ وقت بعد سر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہوتے ہیں ، بچوں کو وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو کریں، کچھ نئی باتیں بتائیں، اپنے بچپن کے قصے سنائیں۔ وہ کھیل ان کے ساتھ کھیلیں ، انہیں اس نظر سے دنیا دکھائیں جس نظر سے اپ دیکھنا چاہتے ہیں، یہ ذمہ داری گھر والوں کی ہی ہے، ورنہ کسی اور کو آپ کی اولاد کی بہتری میں کوئی دل چسپی نہیں ہوگی، اس کے بگڑ جانے پر باتیں بنانے والے بہت مل جائیں گے۔

اپنے موبائل فون کو رابطے کا ذریعہ ہی سمجھیں، وقت گزاری کے لیے کچھ وقت تفریح کا سلسلہ ہونا بھی غلط نہیں، لیکن اسے اوڑھنا بچھونا بنا لینا ہر طرح سے بگاڑ پیدا کرتا ہے، اگر ہم دوسروں پر تنقید کے بہ جائے اپنی اصلاح پر توجہ دینے لگیں، تو دنیا ہی کچھ الگ ہوگی،  بچوں کی زندگی میں توازن اور انھیں ڈیجیٹل کی قید سے نکال کر حقیقی دنیا میں لائیں تاکہ ان کا اپنے آپ اور اپنے اردگرد سے ناتا منقطع نہ ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔