فرانس ہماری ریڈ لائن کراس نہ کرے

سالار سلیمان  ہفتہ 31 اکتوبر 2020
عالم اسلام کو ہمت کرنی ہوگی کہ وہ فرانس کو موثر جواب دے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عالم اسلام کو ہمت کرنی ہوگی کہ وہ فرانس کو موثر جواب دے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

فرانس میں ایک مرتبہ پھر سے آقائے دو جہاں نبی مہرباں وجۂ تخلیق کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخانہ خانے شائع کیے گئے ہیں۔ کفار کی جانب سے آقاؐ کی شان اقدس میں یہ گستاخی کوئی نئی بات نہیں ہے اور فرانس کے حوالے سے تو یہ بالکل بھی نئی بات نہیں۔ اگر میں غلط نہیں ہوں تو فرانس نے گزشتہ دہائیوں میں یہ حرکت کئی بار دہرائی ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ فرانس اس بات کو بہت ہی ہلکا لیتا ہے کہ خیر ہے، ایک نبی ہی ہے۔ دوسری بات یہ کہ فرانس جانتے بوجھتے ہوئے یہ حرکت کرتا ہے۔ دونوں صورتوں میں ہمارے لیے یہ حرکت ناقابل برداشت اور ناقابل قبول ہے۔ اگر یاد ہو تو گزشتہ سال آسیہ مسیح کو اس حکومت نے ملک سے فرار کروایا تھا۔ یہ آسیہ مسیح اُس وقت یہاں سے کینیڈا گئی تھی اور وہاں سے وہ شاید پھر فرانس گئی ہوگی کیونکہ فرانسیسی صدر کی اس کے ساتھ بے تکلفی کی ایک تصویر اس وقت انٹرنیٹ پر گردش میں ہے۔

ترکوں نے جہاں ارطغرل غازی کو تخلیق کرکے امر کیا ہے، وہیں انہوں نے سلطان عبدالحمید کو بھی تخلیق کیا ہے۔ اس ڈرامے میں ایک حقیقی واقعے کی عکسبندی بھی کی گئی ہے۔ سلطان کے دور میں اُن کو خبر ملی کہ فرانس کے کسی تھیٹر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکے دکھائے جائیں گے۔ سلطان نے اس پر سخت ترین ردعمل دیا۔ سفیر کو بلا کر اس کی اگر، مگر، چونکہ اور چنانچہ سنے بغیر حکم دیا کہ فرانس تک اُن کے تحفظات پہنچائے جائیں۔ ڈیڈ لائن دی اور یہ بھی کہا کہ بصورت دیگر فرانس جنگ کےلیے تیار رہے۔ سلطان نے پوری ریاست کو جنگ کی تیاری کا حکم بھی دیا اور اپنا جنگی لباس بھی طلب کرلیا۔ فرانس نے اُسی وقت تھیٹر میں وہ متنازع ڈرامہ منسوخ کردیا تھا۔ اس پر پورے عالم اسلام سے سلطان کو مبارکباد کے خطوط موصول ہوئے تھے۔ میں نے جب یہ کلپ دیکھا تو مجھے سمجھ میں آگیا کہ فرانس کو اس بابت روکنے کا موثر طریقہ کیا ہے۔ خواہش ہے کہ ہر مسلمان حکمران بھی یہ کلپ دیکھ لے۔

گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے فرانس کی موجودہ حرکت اس حوالے سے منفرد ہے کہ اس مرتبہ فرانسیسی صدر کی اس سارے عمل میں پشت پناہی حاصل ہے۔ فرانس کے مطابق یہ آزادی اظہار رائے ہے اور وہ اس حوالے سے کچھ نہیں کرے گا۔ بلکہ فرانس نے حکومتی سرپرستی میں عمارتوں پر رسول اللہؐ کے گستاخانہ خاکے آویزاں کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ترک صدر طیب اردگان نے فرانسیسی ہم منصب پر شدید ترین تنقید کرتے ہوئے اس کو دماغی مریض قرار دیا اور اس کو علاج کروانے کا مشورہ دیا تو فرانس نے اس کو صدر کی توہین گردانتے ہوئے اپنا سفیر ترکی سے واپس بلا لیا ہے۔ یعنی، فرانس اپنے صدر کی شان میں کوئی گستاخی برداشت نہیں کرسکتا، لیکن یہ امید رکھتا ہے کہ مسلمان نبی مہرباںؐ کی شان میں گستاخی کو برداشت کریں۔

اہل مغرب کو یہ نقطہ اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان سب کچھ برداشت کرلیتا ہے لیکن نبی پاکؐ کی شان میں کوئی بھی گستاخی برادشت نہیں کرتا۔ مسلمان آخری درجے پر ہی کیوں نہ کھڑا ہو، وہ شراب کے نشے میں ہی کیوں نہ ہو، اگر اُس کے سامنے نبیؐ کی شان اقدس میں کوئی بھی گستاخی کی جائے گی، وہ اپنی صلاحیت اور حیثیت کے مطابق ردعمل لازمی دے گا۔ لہٰذا، نبی پاکؐ کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کی جاسکتی ہے۔ ہمارے لیے ہمارے نبیؐ کی ذات گرامی تمام تر باتوں سے بڑھ کر ہے۔ اہل مغرب کے نزدیک مذہب کی حیثیت تو ثانوی بھی نہیں رہ گئی، تو اُن کےلیے یہ بات مضحکہ خیز ہوگی لیکن ہمارے لیے ہمارے ایمان کا لازمی جزو ہے۔

ترک صدر کے بعد ایران نے بھی بہت اچھا جواب فرانس کو بھیجا ہے۔ اُس نے اپنے معروف جریدے ’وطن امروز‘ کے سرورق پر فرانس کے صدر کا کارٹون چھاپا ہے، جس میں اس کو شیطان کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کارٹون سے اہل مغرب جل بھن کر رہ گئے ہیں۔

عالم اسلام میں اس وقت فرانسیسی مصنوعات کی بائیکاٹ کی مہم چل رہی ہے۔ یہ مہم ریاستی سطح پر نہیں بلکہ انفرادی حیثیت سے چل رہی ہے۔ آغاز میں ایسا محسوس ہوا تھا کہ شاید یہ مہم اتنا اثر نہ ڈال سکے کیونکہ فرانس کی مارکیٹ کا بڑا حصہ تو مغرب میں ہے لیکن عالمی جریدے کی خبر نے خوشگوار خوشی دی کہ فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ نے نہ صرف ان پر اثر ڈالا ہے بلکہ وہ بائیکاٹ نہ کرنے کی اپیل پر مجبور ہوئے ہیں۔

اس کا حل کیا ہے؟ اگر مسلم ممالک اس مسئلے پر یکجا ہوکر آواز بلند کریں، فرانس کا ریاستی سطح پر بائیکاٹ کیا جائے تو فرانس یہ حرکت دوبارہ کرنے سے پہلے دو مرتبہ سوچے گا۔ ابھی انفرادی بائیکاٹ کے بعد حالت یہ ہے کہ وہ بائیکاٹ نہ کرنے کی اپیلیں کر رہا ہے تو ریاستی بائیکاٹ پر فرانس کیا کرے گا۔ فرانس کی تاریخ ہے کہ اگر اُس کو اس کی زبان میں جواب دیا جائے تو وہ ٹانگوں کے درمیان سے ہاتھ گزار کر کان پکڑتے ہوئے معافیاں مانگے گا۔ عالم اسلام کو یہ ہمت کرنی ہوگی کہ وہ موثر جواب دے۔

اقوام متحدہ میں تمام مسلمان ممالک اکٹھے ہوکر توہین رسالت کا عالمی قانون کیوں اب تک نہیں بنا سکے؟ ان کو اس حوالے سے بھی کام کرنا ہوگا، وگرنہ اس اقوام متحدہ کے ہونے یا نہ ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ بات بھی اہل مغرب کو سمجھ لینی چاہیے کہ اگر ہولوکاسٹ، کنگ اینڈ کوئن یا جو بھی ان کی ڈیفائن ریڈ لائنز ہیں تو نبی مہرباںؐ کی شان میں ادنیٰ سی بھی گستاخی اسلامی دنیا کی ریڈ لائن ہے۔ آپ ہماری ریڈ لائن کراس نہ کیجئے، ہم آپ کی کراس نہیں کریں گے۔ لیکن اگر آپ ہماری لائن کراس کریں گے تو ہماری تو تاریخ ہی غازی علم دین شہید جیسوں سے بھری ہوئی ہے۔ باقی آپ سوچ لیجیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔