لحن اور ترنم سے تحت اللفظ خوانی تک

انتظار حسین  اتوار 22 دسمبر 2013
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

ان ہی دنوں ہمیں ایک کتاب موصول ہوئی ہے جس کا موضوع مروجہ موضوعات سے ذرا ہٹ کر ہے۔ کتاب کا عنوان ہے ’تحت اللفظ خوانی‘ ایک فنی مطالعہ‘ مصنف ہیں فرحان رضا۔

اس سے ہمارا دھیان گزری صدیوں کی طرف بلکہ سمجھ لیجیے کہ زمانۂ ماقبل تاریخ میں جانکلا۔ وہ زمانہ جب لکھنے کے چلن سے آدمی کم کم آشنا تھا۔ کیا قصہ کہانی، کیا شعر و شاعری، یہ سب سننے سنانے کی چیزیں تھیں۔ تحریر کا چلن جب چل نکلا تب بھی کتنے زمانے تک سننے سنانے کا سلسلہ جاری رہا۔ قصہ کہانی سنانے کی روایت ہماری ادبی روایت میں بن سنور کر داستان گوئی کی روایت بن گئی۔ پھر جلد ہی زمانہ بدل گیا۔ اس کے ساتھ پرنٹنگ پریس کے سبز قدم آگئے۔ داستان گوئی پھر پنپ نہیں سکی۔ ہاں گھروں میں نانیاں، دادیاں بچوں کوکہانیاں سناتی رہیں مگر جب نئی عورت نے پر پرزے نکالے تو نانی اماں کی سٹی گم ہوگئی، نانی اماں رخصت ۔ کہانی ختم۔

ہاں ہماری شاعری میں مشاعرے کے واسطے سے سننے سنانے کی روایت زندہ رہی۔ وہاں جب بیچ بیچ میں شاعر نے ترنم کے زور پر اپنی شاعری کا جادو جگایا تو پھر ایک تقسیم قائم ہوئی۔ ترنم والے شاعر، تحت اللفظ والے شاعر، موخر الذکر شاعر بھی تحت اللفظ خوانی کے ساتھ چلتے رہے۔

 

مگر تحت اللفظ خوانی کو ان شاعروں نے بنانے سنوارنے پر توجہ نہیں کی۔ اس پر توجہ کی ایک دوسرے ادارے نے۔ اصل میں ہماری شاعری میں دو ادارے تھے جنہوں نے تحت اللفظ خوانی کے حوالے سے سننے سنانے کی روایت کو زندہ رکھا۔ مشاعرہ اور مجلس عزا۔ تو ہوا یوں کہ مجلس میںمرثیہ پڑھنے والوں نے تحت اللفظ خوانی پر توجہ صرف کی، اتنی کہ اسے ایک اچھا بھلا فن بنادیا۔ اس کتاب کے مصنف نے بھی اپنا سارا زور تحقیق مرثیہ خواں کے کمال تحت اللفظ خوانی پر صرف کیا ہے۔ مشاعروں میں تحت اللفظ خوانی کی کیا صورت رہی ہے۔اس طرف توجہ کرنا انھوں نے ضروری نہیں سمجھا تو اصل میں یہ کتاب تحت اللفظ خوانی کے بارے میں نہیں ہے بلکہ مرثیہ خوانی کے بارے میں ہے۔ اسی زاویے کے یہاں تحت اللفظ خوانی کو اس انداز سے برتا گیا کہ اسے ایک فن کا مرثیہ حاصل ہوگیا۔

مشاعرہ کی تحت اللفظ خوانی کو بے شک باآسانی نظر انداز کیا جاسکتا ہے لیکن جب نئی شاعری بصورت نظم آزاد نمودار ہوئی تو یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ اس شاعری کی کیا حیثیت ہے۔ کیا یہ محض پڑھنے کی چیز ہے۔ کیونکہ مشاعرے میں تو نظم آزاد کو سننے کے لیے کوئی آمادہ نظر نہیں آتا۔ ہوتے ہوتے یوں ہوا کہ ضیا محی الدین نے ن م راشد کی نظمیں مختلف تقریبوں میں سنانے کا تجربہ کیا۔ انھوں نے کچھ اس طرح یہ نظمیں سنائیں کہ جن سامعین کے لیے یہ نظمیں مبہم اور لایعنی تھیں اور شعری کیفیت سے دور وہ بھی اس پڑہت  کے سحر میں آگئے۔ اب انھیں ان نظموں میں شاعری بھی نظر آرہی تھی اور معنی بھی۔ نئی شاعری کے حساب میں تحت اللفظ خوانی کا یہ تجربہ کامیاب تھا اور بامعنی۔ مگر نئی شاعری کے سلسلہ میں یہ تحت اللفظ خوانی ضیا محی الدین سے شروع ہوئی اور بڑی حد تک انھیں تک محدود رہی۔

سو ہر پھر کر ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ جیسا کہ فرحان رضا کے تجزیئے سے ظاہر ہوا کہ تحت اللفظ خوانی کے امکانات کو اردو شاعری میں شاعروں کے کسی گروہ نے سنجیدگی سے کھنگالا ہے اور جانا ہے تو وہ مرثیہ خواں ہیں۔ مگر یہ وقت ایک لمبے عمل کے بعد آیا۔

مصنف کا خیال ہے کہ شروع میں مرثیہ لحن میں پڑھا جاتا تھا جس سے سوز خوانی نے جنم لیا اور جس نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ ’’میر و سودا کے عہد تک مرثیہ تحت اللفظ خوانی کی باقاعدہ ابتدا نہیں ہوئی تھی۔‘‘

مصنف کا خیال ہے کہ باقاعدہ ابتدا میر ضمیر کے ہاتھوں ہوئی جب انھوں نے پہلی مرتبہ منبر پر بیٹھ کر مرثیہ پڑھا اور اس عذر کے ساتھ کہ؎

میں کہ اس سے کبھی نہ تھا آگاہ

مرثیے کا ہے کیا طریقہ و راہ

میں نے یہ عرض کی کہ مشفق من

مرثیے خوانی کا جدا ہے فن

مجھ کو کچھ اس میں رسم و راہ نہیں

اس میں بندے کو دستگاہ نہیں

پھر ضمیر جب مرثیہ پڑھ کر منبر سے اترے تو سامعین کو احساس ہوا کہ مرثیہ خوانی کا فن واقعی جدا ہے اور ضمیر کو اگر پہلے اس فن میں رسم و راہ نہیں تھی تو اب پیدا ہوگئی ہے اور یہاں سے اس مرثیہ خوانی کا آغاز ہوتا ہے جو تحت اللفظ خوانی کے طور میں رچا ہوا تھا۔ پھر یہ طور بن سنور کر ایک فن بن گیا اور دبیر اور انیس کے ہاتھوں میں آکر یہ فن منجھ کر نقطۂ عروج تک پہنچ گیا۔

دبیر سے سرسری گزر کر فرحان رضا نے اصل خراج انیس کو پیش کیا ہے کہ بقول ان کے ’’میر انیس نے فن مرثیہ گوئی کے ساتھ ساتھ مرثیہ خوانی کے فن کو بھی اوج ثریا پر پہنچا دیا تھا۔‘‘

ان کے اس بیان کی تصدیق کچھ ایسی شخصیتوں کے بیان سے بھی ہوتی ہے جو مستند حیثیت رکھتے ہیں۔ اپنا ایک تجربہ صغیر بلگرامی نے بیان کیا ہے۔

’’میں کلام دبیر کا شیدائی تھا۔ کلام انیس کا قائل نہ تھا۔ ایک مرتبہ اتفاقاً انیس کی مجلس میں شرکت ہوئی اور میں بے دلی سے ان کو سننے لگا لیکن دوسرے ہی بند کی مندرجہ ذیل بیت

ساتوں جہنم آتش فرقت میں جلتے ہیں

شعلے تری تلاش میں باہر نکلتے ہیں

انھوں نے اس انداز سے پڑھی کہ مجھے شعلے بھڑکتے ہوئے دکھائی دینے لگے اور میں ان کا پڑھنا سننے میں ایسا محو ہوا کہ تن بدن کا ہوش نہ رہا یہاں تک کہ جب ایک دوسرے شخص نے مجھے ہوشیار کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میں کہاں ہوں اور کس عالم میں ہوں‘‘۔

اور محمد حسین آزاد کا یہ بیان بھی سن لیجیے:

’’وہ شخص منبر پر پڑھ رہا تھا اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ جادو کررہا ہے۔‘‘

اور خود فرحان رضا کا یہ بیان:

’’میر انیس نے جب یہ مصرعہ پڑھا؎

وہ دشت اور وہ خیمۂ زنگارگوں کی شان

تو ’’وہ دشت‘‘ کو سریلی آواز سے ایسا کھینچا کہ وسعت دشت کی آنکھوں میں پھرگئی۔ وہ لفظوں کا گہرائو‘ وہ لب و لہجہ‘ وہ سریلی آواز، وہ لبوں پر مسکراہٹ‘‘۔

فرحان رضا تحت اللفظ مرثیہ خوانی کے ارتقا اور فروغ کی تاریخ بیان کرتے کرتے آج کے زمانے تک آئے اور ان مرثیہ خوانوں کا بھی ذکر کیا ہے جو مجالس عزا کے مرثیہ خوانوں کے ذیل میں نہیں آتے۔ اس واقعہ کو سرسری نہیں لینا چاہیے کہ ہمارے زمانے میں مرثیہ خوانی نے امامباڑے کی دہلیز پھلانگ کر ایسے ہنر مندوں کے بیچ اپنا رسوخ اور مقبولیت حاصل کی ہے جنہوں نے اس روایت میں فنی امکانات دیکھے اور اسے اپنالیا۔ ان میں اول نام زیڈ اے بخاری کا ہے۔ انھوں نے جس طرح مرثیہ خوانی کو مجالس عزا کے دائرے سے نکال کر فن کے میدان میں اس کا جھنڈا گاڑا ہے یہ ویسا ہی واقعہ ہے کہ مولانا شبلی نے انیس کے شعری مقام و مرتبہ کو پہچانا اور اس شاعر کو امامباڑے کی دہلیز پھلانگ کر اردو شاعری کی مین اسٹریم میں اردو کے بڑے شاعروں کے پہلو بہ پہلو لاکھڑا کیا۔

ان کے بعد جن غیر روایتی تحت اللفظ مرثیہ خوانوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سب سے بڑھ کر ضیا محی الدین ہیں جنہوں نے اپنی انگریزی Recitation کے پہلو بہ پہلو اردو تحت اللفظ خوانی کو بھی نئے انداز سے برتا ہے اور اس معاملہ میں وہ اردو کے کلاسیکی نظم و نثر سے جدید شاعری اور جدید نثر تک آئے ہیں۔ تو ہمارے زمانے میں باقاعدہ مستقل تحت اللفظ خواں تو وہی ہیں۔ ان کی انیس خوانی الگ توجہ مانگتی ہے۔

فرحان رضا نے آج کے اس مرثیے کے بارے میں بھی کچھ سوال اٹھائے ہیں جس کے جدید ہونے پر بہت زور دیا جارہا ہے۔ اگرچہ ابھی تک مرثیے کے کسی نقاد نے ہمیں یہ نہیں سمجھایا کہ یہ کس حساب سے جدید ہے۔ بہرحال یہ الگ موضوع ہے اور بحث کا طالب ہے۔

کتاب مجموعی طور پر فکر انگیز ہے۔ ہاں اس کتاب کو پرنٹ ایکس کراچی نے شایع کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔