خد ارا ایک راہ کا تعین کر لیجیے

طلعت حسین  اتوار 22 دسمبر 2013
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

یہ جاننے کے لیے اس ملک میں پیچیدہ معاملات پر اتنا ابہام پایا جاتا ہے‘ آپ کو کوئی خاص محنت کرنے کی ضرورت نہیں۔ پچھلے چند دنوں میں جاری شدہ دو پریس ریلیزز پڑھ لیں۔پاکستان کے سامنے خوامخوا کے بنائے ہوئے دوراہے واضح ہوجائیں گے۔ آپ جان پائیں گے کہ ہم اس قوم اور اُس کے مستقبل کے ساتھ کیسا خطرناک کھیل رہے ہیں۔ پہلی پریس ریلیز عمران خان کی جانب سے جاری کی گئی۔ظاہراً اس پریس ریلیز کا مقصد حکومت سے یہ مطالبہ تھا کہ شمالی وزیرستان میں ملٹری کارروائی شروع کی جانے سے متعلق خبروں کی وضاحت کریں۔ نماز پڑھتے ہوئے فوجیوں پر خود کش حملے سے متعلق ایک مذمتی جملہ تھا۔اور اُس کے بعد ایک لمبا بیان جس کے چیدہ چیدہ نکات درج ذیل ہیں۔

٭آرمی کو خودکش حملے کے بعد فوری کارروائی سے پہلے وہاں پر موجود لوگوں کو علاقے سے نکالنے کا بندوبست کرنا چاہیے تھا۔

٭آرمی نے گولہ بارود اور ہیلی کاپٹروں سے حملہ کرکے عورتوں، بچوں اور معصوم لوگوں کی جان ومال کو ویسا ہی نقصان پہنچایا ہے جیسا ڈرون حملوں میں ہوتا ہے۔

٭ہم فاٹا کے عورتوں اور بچوں کی طرف اِس قسم کا ظالمانہ رویہ نہیں دکھا سکتے جو ہم نے اپنایا ہوا ہے۔ صدر پاکستان کو وہاں کے بچوں اور عورتوں کوآرمی کی کارروائی کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کی تلافی کا بندوبست کرنا چاہیے۔

٭اگر اس طرح آہستہ آہستہ طاقت کا استعمال بڑھتا گیا تو دوسری طرف انتقامی کارروائیاں بھی بڑھیں گی۔ نفسانفسی میں اضافہ ہوگا ۔عسکری پسندی اور دہشت گردی بھی بڑھے گی۔

٭ہماری اطلاعات کے مطابق ملٹری آپریشن میں عام لوگ مارے جارہے ہیں اور کرفیو کے نتیجے میں سیکڑوں بے گھر ہوگئے ہیں۔ ہمیں اپنی تاریخ سے سیکھنا چاہیے۔ اپنے ملک میں اپنے لوگوں کے خلاف طاقت کے استعمال سے مسائل گھمبیر ہوجاتے ہیں۔شمالی وزیرستا ن میں آپریشن سے بھی ایسا ہی ہوگا۔

عمران خان کی طرف سے واضح بیان کا خلاصہ تو یہی ہے کہ پاکستان کی ریاست اور حکومت اِن علاقوں میں جو بھی کام کررہی ہے وہ انسانی اور شہری حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ عورتوں اور بچوں کے حوالے عمران خان کے اِس بیان کو باوزن اور موثر بنانے کے لیے بار بار استعمال کیے گئے ہیں۔ اور آخری نکتہ یہ کہ ملک میں پھیلی ہوئی دہشت گردی کی اصل وجہ آرمی کی اپنی کارروائیاں ہیں۔اگر یہ کارروائیاں ختم ہوجائے تو امن اور سکون کا ویسا ہی ماحول پیدا ہوجائے گا جو جہانگیر خان ترین کے لودھراں کے فارم میں پایا جاتا ہے۔اب آپ کو دوسری پریس ریلیز کی تفصیل بتاتے ہیں۔چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے پشاور کور ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا۔ یادگار ِشہداء،یہ اُن فوجی کے نام ہے جو دہشت گردی کی جنگ میں لڑتے ہوئے اللہ کو پیارے ہوگئے، پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔ پریس ریلیز کے مطابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے افسران اور جوانوں کے دہشت گردی کے خلاف استقلال کو سراہا۔اس کے علاوہ اِن کوششوں سے دہشت گردی کاشکار  علاقوں میں امن کے قیام کی بھی تعریف کی۔یہاں پر ہونے والے ترقیاتی کاموں سے فاٹا کے عوام کو ہونے والے فوائد پر ایک بریفنگ لی۔انھوں نے حکومت کی طرف سے موجودہ امن کوششوں پر مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی۔مگر یہ بھی کہا کہ دہشت گردوں کے حملے کسی صورت برداشت نہیں کیے جائیں گے اور اُن کا سخت جواب دیا جائے گا۔اس پریس ریلیز کے ساتھ ایک تصویر بھی جاری کی گئی۔جس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور پشاور کور کمانڈر جنرل ربانی یاد گار شہداء پر فاتحہ خوانی کرتے ہوئے دکھائے گے۔

دوسر ے الفاظ میں اس ملک کی فوج کا سربراہ یہاں پر ہونے والی فوجی کارروائیوں سے مطمئن ہے۔ فوج کی اعلیٰ قیادت یہ سمجھتی ہے کہ ان علاقوں میں دہشت گردی کا صفایا ہوا ہے۔ اور طاقت کا استعمال ترقیاتی کاموں کے ساتھ کامیابی کا وہ فارمولہ بن چکا ہے جس پر یہ ادارے فخر کرسکتے ہیں۔

دہشت گردی جیسے نازک معاملے پر آراء اور اُن سے اخذ کیے جانے والے نتائج  میں ایسا فرق اِس ملک کو تباہی کے جہنم میں دھکیلنے کے لیے کافی ہے۔ایسے حالات میں وفاقی حکومت کی طرف سے نئی معلومات اور طالبان کے ساتھ بات چیت کے عمل کی قسمت کا حتمی فیصلہ سنایا جانا بہت ضروری ہے۔ میاں محمد نواز شریف کو جونہی ہندوستان کے ساتھ امن قائم کرنے سے فرصت ملے تو اُن کو فوراً قوم کو اعتماد میں لینا چاہیے۔میری اطلاع کے مطابق حکومت نے یہ طے کرلیا ہے کہ اب کل جماعتی اعلامیے سے بات چیت کی شق قابل عمل نہیں رہی۔ مگر اِس نتیجے کو یہاں بیان کرنے کے لیے سب وزیراعظم کی طرف دیکھ رہے ہیں۔کوئی بھی یہ خبر خود سے دے کر خود کو مصیبت میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ بہرحال اس کے ساتھ آپ کو یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ حکومت کی طرف سے پالیسی بیان آنے کے باوجود بھی پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علماء اسلام جیسی جماعتیں اپنے موقف پر قائم رہیں گی۔

جماعت اسلامی کی طرح پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علماء اسلام ان علاقوں سے ووٹ لے کر اپنی سیاست چلاتی ہیں۔یہاں پر بات چیت کا نعرہ اگر سیاسی طور پر بلدیاتی انتخابات کے نتائج کی صورت میں مثبت بنایا جا سکتا ہے تو وہ اس موقف سے نہیں ہٹیں گے۔ان حالات میں اگر شمالی وزیرستان میں حتمی اور بڑی کارروائی کا آغاز کرنا پڑا تو عسکری طور پر تو شاید معاملات سنبھل جائیں مگر سیاسی غیر یقینی سے پھیلنے والی بددلی کا تدارک کرنا مشکل ہوگا۔گزشتہ کئی سال سے فوجی قیادت سیاسی حکمرانوں کی طرف قومی یک سوئی کی منتظر رہی ہے۔شمالی وزیرستان میں کارروائی موخر کرنے کی ایک بڑی وجہ اسلام آبادمیں یک جہتی اور ہم آہنگی کا نہ ہونا تھا۔ خیال کیا جارہا تھا کہ مئی کے انتخابات کے بعد یہ ماحول تبدیل ہوجائے گا۔اور بات چیت یا طاقت کے استعمال دونوں میں سے ایک پر سیاسی اتفاق رائے بن پائے گا۔ایسا نہیں ہوا۔ ذہنی طور پر اس قوم کو دودھاروں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ اس کا ایک عارضی حل ہے جو شاید دیر پا بنیادوں پر اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کردے۔ عمران خان کا خیال ہے کہ بات چیت کے عمل کو صحیح طرح پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا گیا اور طالبان بھائیوں کے دل جیتنے کے لیے کوئی خاص کوشش نہیں کی گئی۔اُن کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر صاف نیت اور کھلے دل سے امن کا جھنڈا لہرایا جائے تو اس سرزمین پاک سے فساد ختم ہوسکتا ہے۔

عمران خان پختہ ارادے کے مالک ہیں۔فاٹا میں سیاسی پذیرائی ملنے کے بعد یہاں پر ہونے والی عسکری کارروائیوں کی تمام کمزوریاں اب اُن کے سامنے عیاں ہوگئی ہیں۔ وہاں پر قدم رکھے بغیر اُن کو زمینی حقائق کا تمام تر باریکیوں کے ساتھ علم ہے۔ اپنے ارادے، نیت اور معلومات کو بروئے کار لاتے ہوئے اُن کو ایک رضا کارانہ گروپ تشکیل دینا چاہیے۔ جس میں اپنی پارٹی سے وہ شیریں مزاری، شاہ محمود قریشی، فوزیہ قصوری اور جہانگیر ترین کو شامل کریں۔ محترم منور حسن اور مولا فضل الرحمن کو ساتھ لیں۔ اور جس ہیلی کا پٹر میں انھوں نے الیکشن کی تمام سرگرمیاں کم وقت میں سرانجام دیں تھی اُس میں بیٹھ کر میران شاہ جا اُترے  میر علی اور اردگرد کے دوسرے علاقوں سے طالبان کے وفود سے ملاقات کریں۔ اس دوران جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم ان سے مکمل تعاون کر یں اور وہ تمام سہولیات فراہم کریں جو اس وفد کو طالبان بھائیوں کے صحن تک پہنچانے کے لیے ضروری ہیں۔عمران خان اس براہ راست بات چیت کے ذریعے وہ تمام خواہش پوری کرلیں جو وفاقی حکومت اپنی بغض کی وجہ سے پوری نہیں ہونے دے رہی۔براہ راست بات چیت سے کوئی نہ کو ئی نیتجہ یقینا نکلے گا یا امن آجائے گا یا عمران خان کو سمجھ آجائے گی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔