محنت کش اور مصیبتیں

زبیر رحمٰن  اتوار 22 دسمبر 2013
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

پاکستان سمیت دنیا بھر میں دکھ، اذیت، ذلت، بھوک، افلاس، غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور بیماریوں کا محنت کشوں کو سامنا ہے، اس لیے کہ ان کا خون چوس کر سرمایہ دار اور جاگیردار کروڑپتی سے ارب پتی اور اب پتی سے کھرب پتی بنتے چلے جارہے ہیں۔ یہ قدر زائد ہی ہے جو سرمایہ داری کو اجارہ داری میں بدل دیتی ہے۔ اسی قسم کا استحصال بہت سی فیکٹریوں میں محنت کشوں کا کیا جا رہا ہے۔ بہت مرتبہ مزدوروں نے این جی اوز، انسانی حقوق کمیٹی، عدالتوں اور حکومت کے سارے دروازے کھٹکھٹائے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات، محنت کشوں کو غیر مستقل رکھا جا رہا ہے، ان سے ٹھیکیداری نظام کے تحت کام لیا جاتا ہے۔ 57 سالہ تاریخ میں مزدوروں کو بونس نہیں دیا گیا۔ حتی کہ ان مزدوروں کو کھانا بھی نہیں دیا جاتا۔ کچھ فیکٹریوں میں ٹھیکیداری نظام میں کھانا دیاجاتا ہے۔ کینٹین میں کام کرنے والے مزدوروں کو بھی مستقل نہیں کیا جاتا۔ خواتین مزدوروں کو بھی مستقل نہیں کیا جاتا۔ پرنٹنگ ڈیپارٹمنٹ کی پروڈکشن میں مزدوروں نے دن رات بے پناہ محنت کرکے کئی گنا اضافہ کیا ہے۔ فیکٹری انتظامیہ ان مزدوروں کو ترقی دینے کے بجائے مسلسل مزدور دشمنی کا ثبوت دیتی آرہی ہے۔

مزدوروں کا کہیں ورک ریٹ میں کئی گنا اضافہ کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے ہر غریب مزدور کا کم از کم 5ہزار سے 8ہزار روپے تک ہر ماہ نقصان ہورہاہے۔ جب کہ لیبر قوانین کے مطابق انتظامیہ ایسا نہیں کرسکتی ہے۔ اس سلسلے میں مزدوروں نے وزیراعظم اور صدر پاکستان، وزیراعلیٰ پنجاب، محکمہ لیبر آئی ایل او کے ڈائریکٹر جنرل سب کو درخواستیں دی ہیں لیکن شنوائی نہیں ہوئی۔

اسی طرح ایک خاندان راولپنڈی کا ہے جہاں صرف ایک بوڑھی ماں اپنے چار بچوں کو مزدوری کے ذریعے نیم فاقہ کشی کے حالت میں پال رہی ہے اس کی بیٹی اریہ سلیم جو کہ نویں جماعت میں پڑھتی تھی مالی بد حالی کی وجہ سے پڑھائی چھوڑنی پڑی۔ وہ لکھتی ہے کہ ’’ہم چار بھائی بہن ہیں، والد بچپن میں ہی انتقال کر گئے۔ ماں نے محنت مزدوری کرکے ہمیں پالا۔ اب بھی بڑھاپے میں کام کرنے پر مجبور ہے، غربت کی وجہ سے بھائی نفسیاتی مریض بن گیا ہے۔ میں ماں کے ساتھ کام کرتی ہوں، میں بھی بیمار ہوگئی ہوں، مجھ پر گرم پانی گرگیا، نتیجتاً ایک ماہ اسپتال میں رہی پھر گھر پر علاج نہ ہوسکا، جس کی وجہ سے میرے زخم ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئے، مجھے رات کو تکلیف کی وجہ سے نیند نہیں آتی، ادھر سرکاری اسپتال میں دوائیاں نہیں ملتیں اور اسٹور سے مہنگی دوائیاں ہم خرید نہیں سکتے۔ میری والدہ نے سرکاری حکام سے کئی بار رجوع کیا لیکن ساری کوششیں اکارت گئیں۔ اعلی حکام کے پاس گئے، درخواستیں دیں مگر ساری محنت بے نتیجہ نکلی۔ ہمارے گھر اکثر اوقات فاقے ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے تین بار حالات سے تنگ آکر خودکشی کرنے کی کوشش کی مگر کچھ لوگوں نے بچالیا۔ اب میں نے حالات سے سمجھوتہ کرلیاہے۔ ہمارے پاس اس وقت سردی کے کوئی کپڑے نہیں اور نہ رضائیاں ہیں۔ ہم محنت مزدوری کرکے جو کچھ کماتے ہیں گھر کا کرایہ، بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے میں خرچ ہوجاتے ہیں۔ اسی وجہ سے مجھے اسکول چھوڑنا پڑا، پڑھنے کا بہت شوق ہے مگر تعلیم جاری نہیں رکھ سکتی ہوں۔ اس لیے بھی کہ سرکاری اسکول دور ہے اور پرائیویٹ کے اخراجات کرنے کے رقم نہیں‘‘۔

کہیں مزدور لڑکے اپنے مطالبات منوا بھی لیتے ہیں۔ ایک فیکٹری انتظامیہ نے جبری طورپر برطرف کیے گئے تمام مزدوروں کو بحال کرنے کا اعلان کیا اور تمام مزدوروں کے سامنے اپنے رویے کی معافی مانگی جس پر یونین قیادت نے ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کیا اور کہاکہ ہمارا محنت کشوں کے حقوق حاصل کرنے کی جانب پہلا قدم ہے۔ فیکٹری کے محنت کش ہڑتال پر تھے اور اپنے مطالبات کے لیے فیکٹری کے باہر مسلسل احتجاج کررہے تھے۔

انتظامیہ نے پہلے تو ہڑتال توڑنے کے لیے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کا سہارا لیا اور یونین قیادت پر جھوٹے مقدمات بنوائے۔ جب یہ ہتھیار کار گر ثابت نہ ہوا تو انھوںنے لالچ اور ہوس کے ذریعے مزدوروں میں پھوٹ ڈلوانے کی کوشش کی۔ بالآخر مزدوروں کی یکجہتی کے سامنے تمام بت اور فرعون پاش پاش ہوگئے اور مالک نے خود سامنے آکر تمام مزدوروں کے سامنے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ وہ جبری برطرف مزدوروں کو بحال کرے گا۔ تنخواہوں میں اضافہ کرے گا، اس نے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ جھوٹے مقدمات واپس لے گا اور آیندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کی جائے گی۔ اس کے بعد یونین قیادت نے اعلان کیا کہ یونین لیبر ڈیپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ ہوچکی ہے اور اسے کسی طرح ختم نہیں کیاجاسکتا۔ انھوںنے کہاکہ ہم صرف مالک کی زبانی یقین دہانی پر اعتماد کررہے ہیں اور اگر وعدہ خلافی کی گئی تو ہم پھر احتجاج کریںگے اور ہڑتال کا حق استعمال کریںگے۔ اس موقعے پر یونین قیادت نے پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپین کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوںنے اس جد وجہد میں ان کا بھرپور ساتھ دیا اور ملک بھر کی مزدور تنظیموں سے یکجہتی کے پیغامات بھجوائے اور احتجاج کروائے۔

پی ٹی یو ڈی سی کے رہنما کامریڈ آدم پال نے اس موقعے پر کہاکہ سرمایہ داروں کے دعوئوں کا کبھی بھی یقین نہیں کیاجاسکتا اور انھیں جب بھی موقع ملے گا یہ دوبارہ مزدوروں پر حملہ آور ہوںگے اور مختلف طریقوں سے انتقامی کارروائیاں کریںگے۔ انھوںنے کہاکہ ہمارے پاس دفاع کا واحد طریقہ ہماری یکجہتی ہے جب تک تمام محنت کش اکٹھے ہیں اور اپنی صفوں سے کالی بھیڑوںکو دور رکھیںگے کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑسکتا۔ انھوںنے کہاکہ ہم علاقے کی تمام صنعتوں تک جد وجہد کو پھیلانے کی کوشش کریںگے۔ اس کے علاوہ انھوںنے کہاکہ مزدور نظریات کو مزدوروں سے دور رکھا جاتاہے تاکہ مالک کے ہاتھوں ہونے والے استحصال سے ان کو آگاہی حاصل نہ ہو۔ ہم مقامی سطح پر ہفتہ وار ’’اسٹیڈی سرکل‘‘ کا آغاز کریںگے تاکہ مزدور نہ صرف اپنے حقوق اور شاندار ماضی سے آگاہ ہوسکیں بلکہ ملکی اور عالمی سطح پر مزدور تحریک سے جڑ کر اس میں اپنا فعال کردار ادا کریں۔ انھوںنے مالکان کو تنبیہ کی کہ آیندہ محنت کشوں کے ساتھ نا انصافی کی صورت میں زیادہ بڑے پیمانے پر رد عمل نظر آئے گا۔ ضلعی انتظامیہ اور پولیس سمیت جبر کے تمام ریاستی ستونوں کو محنت کش توڑ ڈالیںگے اور یہ لڑائی آگے چل کر ایک غیر طبقاتی ہموار معاشرے کی تشکیل دے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ کام صرف مزدور طبقے کی قیادت اور کارکنوں کی یکجہتی سے ممکن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔