جب 1من گندم 9روپے کی تھی۔۔۔

سید عاصم محمود  جمعـء 30 اکتوبر 2020
جسے قابو کرنا ہر حکمران ِوقت کے لیے دردِسر بن جاتا ہے

جسے قابو کرنا ہر حکمران ِوقت کے لیے دردِسر بن جاتا ہے

ہمارے ایک بزرگ کی عمر ماشاء اللہ پچاسی برس ہے۔ بچپن و نوجوانی میں خالص غذائیں کھانے کے سبب صحت اچھی ہے۔ اکثر گذرا زمانہ یاد کرتے اور اسے سنہرا کہتے ہیں۔بتاتے ہیں کہ تب روزمرہ استعمال کی اشیا کم داموں میں مل جاتیں اور قیمتوں میں سست رفتاری سے اضافہ ہوتا۔آج کل تو قیمتوں کو جیسے پَر لگ گئے ہیں۔بیس روپے کی چیز چند دن میں پچیس کی ہو جاتی ہے۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر بتاتے ہیں کہ مہنگائی وہ سب سے بڑا عنصر ہے جس کے سبب عوام میں حکومت ِوقت کے خلاف ناپسندیدگی بڑھتی ہے اور وہ اس سے تنگ آجاتے ہیں۔ جو حکمران عوام میں مقبول رہنا چاہے، اسے چاہیے کہ وہ خصوصاً آٹے، دال،چاول، گھی اور سبزی کی قیمتیں نہ بڑھنے دے۔دوسری صورت میں عام آدمی اُٹھتے بیٹھتے حکمرانوں کو سخت باتیں سنائے گا۔مہنگائی سے حکومت ِوقت کے اچھے کاموں پر بھی پانی پھر جاتا ہے۔ جمہوری مملکت میں عوام کی ضروریات کا خیال نہ رکھنے والے حکمران کو اگلے الیکشن میں ووٹ نہیں ملتے۔

جب انہیں خبر ملی کہ چکی کا آٹا 80 روپے کلو ہو چکا تو بڑے حیران ہوئے۔ کہنے لگے‘ لاؤ تو ابا کی ڈائریاں ‘ دیکھتے ہیں ‘ ماضی میں آٹا کا ہے قیمت کا تھا۔ 1970ء میں فوت ہو جانے والے ان کے ابا جان روز مرہ اخراجات ڈائریوں میں لکھتے تھے۔ یہ ڈائریاں جو 1940ء تا 1960ء کے عرصے میںلکھی گئیں‘ اب بھی ان کے پاس محفوظ ہیں۔ یہ اسّی سال قبل روزمرہ اشیاء کی قیمتیں آشکارا کرنے والی قیمتی دستاویز ہیں۔ دور حاضر میں تیزی سے بڑھتی مہنگائی کے تناظرمیں ان کی اہمیت بڑھ چکی۔

وہ ماضی اور حال میں مہنگائی کا حیرت انگیز اور عبرت ناک تقابلی جائزہ پیش کرتی ہیں۔1947ء میں پاکستان معرض وجود میں آیا ۔ ہمارے متوفی بزرگ کی اس زمانے کی ڈائریاں روزمرہ اشیاء کی یہ قیمتیں بتاتی ہیں: چالیس سیر گندم نو روپے میں دستیاب تھی٭ایک کلو آٹا ڈھائی آنے میں مل جاتا٭ آٹھ آنے میں ایک کلو چاول ملتے ٭ ایک کلو چینی کی قیمت ساٹھ پیسے تھی٭ ایک کلو بڑا گوشت آٹھ آنے میں ملتا ٭ چھوٹا گوشت سوا روپے فی کلو تھا٭ چالیس پچاس پیسے میںایک کلو دودھ آ جاتا٭ بیس تیس پیسے میں ایک کلو دال آ تی٭ ڈبل روٹی ایک آنے میں ملتی٭دیسی گھی فی کلو ڈھائی تا تین روپے میں ملتا٭ ایک تولہ (11.66گرام) سونے کی قیمت 57 روپے تھی جو آج بڑھ کر ایک لاکھ بیس ہزار روپے تک پہنچ چکی۔یہ واضح رہے کہ اس زمانے میں ایک روپیہ 16 آنے رکھتا تھا۔ ایک آنہ چار پیسے پر مشتمل ہوتا ۔جبکہ ایک پیسہ تین پائی مالیت رکھتا۔ ایک پائی کی مالیت بارہ کوڑی تھی… گویا ایک روپے میں چونسٹھ پیسے اور ایک سو بانوے پائیاں ہوتی تھیں۔

ہندوستانی مسلم شاہوں کا دور
مہنگائی کی تاریخ بھی چشم کشا ہے۔ہندوستان میں اسلامی سکے التتمش نے اپنے دور حکومت (1211ء تا 1236ء) میں متعارف کرائے۔ تب ’’تنکا‘‘ سب سے اہم سکہ تھا جو سونے اور چاندی سے ڈھالا جاتا۔ مہنگی اشیا خریدنے‘ ملازمین کو تنخواہیں دینے اور خیرات کرنے میں یہی سکہ کام آتا۔بعدازاں آدھے تنکے کی مالیت کے سکے بھی ڈھالے گئے۔تنکے سے کمتر تانبے کا سکہ ’’جیتل‘‘ کہلایا۔ یہ سکہ روزمرہ اشیا کی خرید و فروخت میں کام آتا۔ بعدازاں ’’غنی‘‘ کے نام کمتر مالیت کا ایک اور سکہ متعارف کرایا گیا۔ ایک نقرئی تنکے کی مالیت 48 غنی تھی۔ آنے والے سلاطین نے تانبے کا نیا سکہ ’’پیکا‘‘ ڈھالا جس کا آدھا حصہ ’’ادھوا‘‘ کہلاتا تھا۔

اب ذرا 1296ء تا 1388ء کے عرصے میں روزمرہ اشیا کی قیمتیں فی چالیس کلو ملاحظہ فرمائیے۔ یہ دہلی سلطنت کے علاقوں میں مروج تھیں:گندم فی چالیس کلو 8جیتل٭جو 4 جیتل٭چاول 5جیتل٭ دال ماش 5 جیتل٭ دال مونگ3جیتل٭چنا 5جیتل٭ براؤن چینی13جیتل3غنی٭ دیسی گھی 26 جیتل 7غنی٭ سرسوں کا تیل 13جیتل 3غنی٭ نمک 2 جیتل۔ تانبے سے بنا ایک جیتل57.6 گرین (3.77گرام) وزن رکھتا تھا۔ آج کل ایک کلو تانباایک ہزار ایک سوروپے میں دستیاب ہے۔ گویا ایک گرام تانبا ایک روپے ایک پیسے کا ہوا۔فی الوقت بجلی کی تاروں اور دیگر اشیا کی تیاری میں استعمال ہونے کے باعث تانبے کی قیمت بڑھ چکی۔ زمانہ قدیم میں اس کی مالیت بہت کم تھی۔ اس کے باوجود آج کے حساب سے ایک جیتل تین روپے ستتر پیسے مالیت رکھتا ہے۔

1540ء میں شیر شاہ سوری تخت دہلی کے مالک بنے تو انہوں نے اپنے دور (تا1545ء) میں نیا کرنسی نظام متعارف کرایا۔ یہ نظام طلائی سکے ’’مہر‘‘ (وزن 169گرین) ‘ نقرئی سکے ’’روپیہ‘‘ (وزن 178 گرین) اور تانبے کے سکے‘ ’’پیسے‘‘ یا د ام (وزن 323گرین) پر مشتمل تھا۔ مغل بادشاہوںنے بھی یہ نظام برقرار رکھا اور اسے ترقی دی۔ ہندوستان میں چاندی پیرو اور میکسیکو کی کانوں سے آتی تھی۔ سولہویں اور سترہویں صدی میں مغل ہندوستان یورپ سے باہر چاندی کا سب سے بڑا درآمد کنندہ تھا۔مغلیہ سلطنت کے مورخ ابو الفضل فیضی نے اپنی کتاب ’’آئین اکبری‘‘ میں روزمرہ اشیا کی قیمتیں درج کی ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ یہ قیمتیں لاہور کی منڈیوں میں 1595ء کے دوران رائج تھیں۔اہم اشیائے خورونوش کی قیمتیں درج ذیل ہیں۔ یہ فی من کے حساب سے ہیں۔ یاد رہے‘ اس زمانے میں ایک من 25.11کلو کا تھا:

٭گندم 30 پیسے ٭کابلی چنا 40 پیسے ٭دال 20 پیسے٭جو 20 پیسے٭ باجرہ 20 پیسے٭ مٹر15پیسے٭ چاول عمدہ 2روپے 75پیسے٭ چاول عام 50 پیسے٭ آٹا 55 پیسے٭ میدہ 38 پیسے٭ پالک 40 پیسے٭پیاز 15 پیسے ٭ لہسن 15 پیسے٭ گوبھی ایک روپیہ٭ ادرک 2 روپے 50 پیسے٭ چھوٹا گوشت 1 روپے 62 پیسے٭دیسی گھی 2 روپے 63 پیسے ٭ دودھ 62 پیسے٭ چینی 3 روپے 20پیسے٭ زعفران 400 روپے٭لونگ60 روپے٭ انار6تا پندرہ روپے٭ کشمش 9 روپے ٭ بادام 28 روپے ٭ انجیر (وسطی ایشیا)7 روپے۔

اس زمانے میں اشیائے روزمرہ خوراک کی قیمتیں صرف سپلائی اور ڈیمانڈ کے مطابق گھٹتی بڑھتی تھیں۔ مثلا جب قحط سے اناج کم پیدا ہوتا‘ تو اس کی قیمت بھی بڑھ جاتی۔1595ء میں ایک من (25.11 کلو) گندم کی قیمت 30 پیسے تھی۔ جب 1630 ء سے ہندوستان کے بیشتر علاقے قحط کی لپیٹ میں آئے تو ایک من گندم کی قیمت ساڑھے چھ روپے تک بڑھ گئی۔ 1750ء میں مگر یہی قیمت 1 روپیہ ریکارڈ ہوئی۔مورخین نے اپنی کتب میں 1575ء تا 1697 ء کے دوران سونے کی سالانہ قیمتیں درج کی ہیں۔ یہ قیمت ایک من (25.11کلو) کے حساب سے ہیں۔ 1575ء میں ایک من سونا 18,943روپے کا تھا۔ 1658ء میں اس کی قیمت 33,676روپے تک جا پہنچی۔1670ء کے بعدمگر چاندی کے سکے (روپے) نایاب ہونے سے سونے کی قیمت گرنے لگی۔ 1688ء میں اس کی قیمت 25,257 روپے فی من تک گر گئی۔

قیمتوں کے ساتھ ساتھ مورخین ہندوستان نے کتب میں مختلف ہنر مندوں کی روزانہ اور ماہانہ تنخواہیں بھی قلمبند کی ہیں۔ ضیاء الدین برنی نے ’’تاریخ فیروز شاہی‘‘ میں 1296ء تا1316ء مختلف ہنر مندوں کی تنخواہ لکھی ہے ۔ تب ایک عام کاریگر کی روزانہ تنخواہ دو تا تین جیتل تھی۔ اور وہ سالانہ پندرہ تنکا کما پاتا۔ گھروں میں کام کاج کرنے والے روزانہ ڈیڑھ جیتل پاتے۔ جولاہا اور درزی دوجیتل روزانہ کما لیتے۔ وہ سستا زمانہ تھا۔ یہ رقم پانچ چھ افراد پر مشتمل گھرانے کے اخراجات باآسانی پوری کر دیتی۔

1595ء میں مغل اکبر بادشاہ کے دور میں بڑھئی کی ماہانہ آمدن سوا پانچ روپے تھی۔ جبکہ مستری ڈھائی روپے اور بہشتی (پانی بھرنے والا) بھی اتنی ہی رقم کما لیتا۔ لکڑ ہارا ڈیرھ روپے اور عام مزد ور بھی یہ رقم کما سکتا تھا۔ مغل فوج میں شامل ایک عام فوجی کی تنخواہ بیس سے پچیس روپے کے درمیان تھی۔1637ء میں مغل بادشاہ شاہجہان کے دور میں میں ولندیزیوں نے آگرہ میں اپنا تجارتی مرکز کھول لیا۔ اسی مرکز میں ملازم مختلف ہنر مندوں کو ماہانہ یہ تنخواہ ملتی تھی: دھوبی پانچ روپے٭ گھوڑوں کا رکھوالا ساڑھے چار روپے ٭مرکز کے سربراہ کا ذاتی خدمت گار ساڑھے چار روپے ٭ مرکز مینجر چار روپے٭ کوچوان ساڑھے تین روپے٭ چوکیدار ساڑھے تین روپے ٭ چپڑاسی ساڑھے تین روپے٭ فارسی میں خط لکھنے والا پچاس پیسے٭ نائی پچاس پیسے ۔

انگریز غاصبوں کی آمد
سترہویں صدی (1601ء تا1700ء ) ہندوستان میں اشیائے خورونوش اور عام استعمال کی اشیاء کی قیمتیں بہت مناسب رہیں ۔ مغل حکومت نے ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں پر کڑی نظر رکھی اور انہیں حرام مال نہیں کمانے دیا۔ اس زمانے میں بھی گندم ہند وستانی قوم کا من بھاتا کھاجا تھی۔ اس لیے حکومت گندم‘ چاول‘ گھی‘ دالوں اور سبزیوں کی قیمتیں کنٹرول سے باہر نہ ہونے دیتی۔1764ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز تاجروں نے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔1857ء میں ملک برطانیہ کی نو آبادی بن گیا۔ انگریزوں نے ہندوستان میں سب سے پہلے مہنگائی کا جن متعارف کرایا۔ وہ اس طرح کہ انگریز ہندوستانی اشیائے خورونوش اور دیگر تجارتی اشیا سستے داموں خرید کر برآمد کرنے لگے۔ جب انہیں کئی گنا زیادہ منافع ہوا تو انہوںنے پورے ہندوستان میں سڑکیں تعمیر کرائیں اور ریل پٹڑیاں بچھا دیں۔ مقصد یہ تھاکہ پوری مملکت سے تجارتی سامان بہ آسانی اور تیزی کے ساتھ بندرگاہوں تک پہنچ سکے۔ ہندوستان میں پیدا ہونے والی اشیائے خورونوش برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک بجھوانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی قلت ہونے سے ہندوستانی مارکیٹوں میں ان کی قیمتیں بڑھ گئیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی آبادی بڑھ رہی تھی۔ اس قدرتی امر نے بھی مہنگائی کا رجحان برقرار رکھا۔ انگریز 1947ء تک ہمارے آقا رہے۔ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق 1764ء سے 1947ء سے تک وہ ہندوستان سے کم از کم 600 ارب ڈالر مالیت کا سامان لوٹ کر برطانیہ لے گئے۔ گویا انہوں نے ہندوستانی قومکے وسائل پر ڈاکے مار کر خود کو امیر کبیر بنا لیا۔ جبکہ ہندوستان جسے مغل حکمرانوں نے سپر پاور بنا دیا تھا‘ وہ دو سوبرس میں ایک ترقی پذیر اور غریب مملکت بن گیا۔ انگریزوں نے ہندوستان میں آب پاشی نظام بہتر بنایا تھا‘ اگرچہ یہ اقدام بھی اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر کیا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ ہندوستان میں اناج کی مقدار بڑھ سکے اور وہ اسے یورپ برآمد کر دیں۔ بہر حال اس جدید آب پاشی نظام سے ہندوستانی قوم کو بھی فائدہ پہنچا اور خصوصاً پنجاب کا علاقہ گندم‘ چاول‘ کپاس اور گنے کی پیداوار کا بڑا مرکز بن گیا۔ اسی باعث جب ہندوستان دو مملکتوں میں تقسیم ہوا تو وہاں خصوصاً اناج‘ سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں مناسب تھیں۔

فرانسیسی انقلاب کی اہم وجہ
ماضی کی طرح آج بھی عام پاکستانیوں کی آمدن کا بڑا حصہ اشیائے خورونوش خریدنے پر صرف ہوتا ہے۔ نچلے اور درمیانے طبقے کے پاکستانی تو اپنے آمدن کا 40 سے 50 فیصد حصہ اپنا اور اپنے پیاروں کا پیٹ بھرنے پر خرچ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے‘ کھانے پینے کی اشیا مہنگی ہو جائیں‘ تو ان کا ماہانہ بجٹ گڑ بڑا جاتا ہے اور وہ اسے قابو کرنے میں دقت و مشکلات محسوس کرتے ہیں۔ انسانی تاریخ کے مطالعے سے عیاں ہے کہ مختلف ادوار میں اشیائے خورونوش کی مہنگائی کا حکومتیں گرانے میں اہم کردار رہا ہے۔ مثلاً اٹھارہویں صدی کے اواخر تک فرانس میں حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں سے مہنگائی عروج پر پہنچ گئی۔ عام آدمی کے لیے ڈبل روٹی تک خریدنا مشکل ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب عیش و مشرت کی زندگی گزارتے شاہ وقت کو یہ خبر ملی تو اس کی کسی داشتہ نے فقرہ کس دیا :’’یہ لوگ کیک کیوں نہیں کھا لیتے؟‘‘

فرانس میں اشیائے خورونوش مہنگی ہونے کی دو اہم وجوہ تھیں۔ اول یہ کہ ملک کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا مگر زرعی پیداوار اسی رفتار سے نہ بڑھ سکی۔ دوم آمدن بڑھانے کے لیے فرانسیسی بادشاہ نے زرعی پیداوار برآمد کرنے کی اجازت دے دی۔ اس باعث فرانس میں نہ صرف اشیائے خوورنوش کی قلت نے جنم لیا بلکہ وہ مہنگی بھی ہو گئیں۔ پاکستانی قوم کی طرح فرانسیسی بھی بریڈ (ڈبل روٹی) سے پیٹ بھرتے تھے۔ یہ ان کا پسندیدہ کھاجا تھا۔ جب انہیں بریڈ خریدنے میں دقت پیش آئی تو شاہی حکومت کے خلاف ان کا غم و غصہ عروج پر پہنچ گیا۔ آخر5مئی 1789 سے وہ شاہی قلعوں پر حملے کرنے لگے اور ’’فرانسیسی انقلاب‘‘ کا آغاز ہو گیا۔ شاہی قلعوں پر حملے اسی لیے کیے گئے تاکہ وہاں سرکاری گوداموں میں جمع اناج اور اشیائے خورونوش لوٹی جا سکیں۔ بھوک نے آخر لاچار اور مجبور فرانسیسی عوام کو طاقتور آمرانہ حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے پر اکسا دیا۔ امریکی صدر‘ ہربرٹ ہوور کا یہ قول برحق ہے: ’’بھوک انارکی کی ماں ہے‘‘۔

گندم کی قیمت کی تاریخ
فرانس میں عوام کا من بھاتا کھاجا بریڈ تھی تو پاکستان میں یہی مقام روٹی رکھتی ہے۔ کروڑوں پاکستانی روٹی کھا کر ہی روزمر ہ کا م انجام دینے کے لیے توانائی پاتے ہیں۔ اس باعث گندم کی قیمت میں اضافہ براہ راست ان کے ماہانہ بجٹ پر اثر انداز ہوتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ 1947ء سے لے کر 2020ء تک مختلف حکومتوں کے ادوار میں گندم کی قیمت کیا رہی۔جیسا کہ بتایا گیا‘ 1947ء میں ایک من گندم کی قیمت نو روپے تھی۔ غیر معیاری گندم اس سے بھی کم قیمت پر مل جاتی ۔ 1947ء سے 1958ء تک پاکستان میں جمہوریت کا راج رہا۔ اسی دوران گندم کی قیمت فی من 12 روپے 8آنے تک جاپہنچی۔ گویا گیارہ برس میں قیمت تین روپے آٹھ آنے بڑھ گئی۔

1958ء میں جنرل ایوب خاں نے حکومت سنبھالی اور وہ1969ء تک حکومت کرتے رہے۔ ان کے دور میں آخری برس گندم کی فی من قیمت 17روپے تھی۔ گویا ایوب خان کے گیارہ سالہ دور میں قیمت میں چار روپے آٹھ آنے اضافہ ہوا۔1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو حکومت برسراقتدار آئی۔ جب بھٹو صاحب 1978ء میں رخصت کیے گئے تو گندم کی فی من قیمت 39روپے چھ آنے پہنچ چکی تھی۔ گویا پاکستان کے دوسرے سات سالہ جمہوری دور میں قیمت میں 22روپے چھ آنے کا اضافہ ہوا۔ یہ دگنے سے بھی زیادہ اضافہ تھا۔1978ء میں دوبارہ ایک جرنیل‘ ضیاء الحق کا راج شروع ہوا۔ وہ 1988ء تک حکومت کرتے رہے۔ ان کے آخری برس گندم کی فی من قیمت 103 روپے تھی۔ گویا دوسری فوجی حکومت کے دس سالہ اقتدار میں قیمت 64 روپے چھ آنے بڑھ گئی۔ یہ بھی خاصااضافہ تھا۔

1988ء سے 1999ء تک پاکستان میں تیسرے جمہوری دور کے دوران سیاسی رہنما حکومت کرتے رہے۔ اس گیارہ سالہ دور کے اختتام پر فی من گندم کی قیمت 103سے 300روپے تک جا پہنچی۔ گویا اسی دوران قیمت میں 197روپے کا اضافہ ہوا۔ یہ دوسو فیصد اضافہ تھا۔1999ء میں فوجی حکمرانی کے تیسرے دور کا آغاز ہوا۔ جنرل پرویز مشرف 2008ء تک ارض پاک کے حکمران رہے۔ ان کے آخری برس فی من گندم کی قیمت 781 روپے پہچ چکی تھی۔ گویا نو سالہ اقتدار میں قیمت میں اضافہ 481 روپے رہا جو خاصا تھا۔2008ء سے مملکت کی باگ ڈور چوتھی بار سیاست دانوں نے سنبھال لی۔ اب تک وہی حکومت کر رہے ہیں۔ اگرچہ کہا جاتا ہے کہ پس پردہ جنرل صاحبان بھی خصوصاً امور خارجہ میں ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ بہرحال اس بارہ سالہ جمہوری دور میں فی من گندم کی قیمت 781 روپے سے 2500 روپے جا پہنچی۔ گویا اس چوتھے جمہوری حکومت میں قیمت میں 1719 روپے کا ریکارڈ اضافہ ہو چکا۔

مہنگائی ہونے کی وجوہ
پاکستان میں خصوصاً سیاسی رہنما اکثر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ فوجی حکومتوں نے ملک وقوم کو زوال پذیر کر دیا ۔لیکن گندم کی قیمتوں کا درج بالا تقابلی جائزہ عیاں کرتا ہے کہ فوجی حکمرانوں نے اپنے ادوار میں عوام کا خیال رکھا۔ انہوں نے عام آدمی کے بنیادی کھابے، گندم کی قیمت زیادہ بڑھنے نہیں دی اور اسے کنٹرول میں رکھا ۔ چوتھے جمہوری دور سے عیاں ہے کہ پچھلے بارہ برس میں گندم کی قیمت آسمان پر جا پہنچی ہے اور عوام کے نمائندوں نے اپنے ہی ووٹروں کے کاندھوں پر مہنگائی کا جن سوار کر دیا۔ اب وہ اس کے بوجھ تلے پسے جا رہے ہیں۔پچھلے دو سال سے پاکستان میں اشیائے خورونوش مہنگی ہو رہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق قیمتیں بڑھنے کی کئی وجوہ میں اہم یہ ہیں:

٭…آب وہوائی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث زیادہ بارشیں ہونے لگی ہیں اور سیلاب آنے لگے ہیں۔ یہ قدرتی آفات فصلوں کو نقصان پہنچاتی ہیں اور پیداوار کم ہوتی ہے۔ پچھلے دو سال ٹڈی دَل بھی فصلوں پر حملہ آور رہا۔ اس کی وجہ سے بھی کئی فصلیں تباہ ہو گئیں۔مارکیٹ میں اب سبزی، پھل، اناج اور دیگر غذائی اشیاء کی قلت ہے۔ چنانچہ قدرتی اصول کے مطابق ان کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ جو پھل، سبزی یا اناج وافر دستیاب ہے، اس کی قیمت بھی کم ہے۔

٭…دور جدید میں اناج، دالیں، سبزی وپھل بھی’’منافع بخش اشیا‘‘(commodity) کی حیثیت اختیار کر چکیں۔ لہٰذا اب کاروباری مافیا یہ اشیا ذخیرہ کر کے ان کی مصنوعی قلت پیدا کر دیتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھا کر زیادہ منافع کمایا جا سکے۔ اسی ذخیرہ اندوزی نے خصوصاً گندم، چینی، چاول اور دالوں کی قیمتوں میں اضافہ کیا ۔حکومتی دعوی ہے، پچھلے دو برس میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اشیائے خورونوش کی بہت زیادہ ذخیرہ اندوزی کی ہے۔ مقصد مصنوعی مہنگائی کر کے عوام کو پی ٹی آئی حکومت کے خلاف بھڑکاناہے۔ حکومت کہتی ہے، وہ جن مافیاز کے خلاف سرگرم عمل ہے، مصنوعی مہنگائی انہی کی پیدا کردہ ہے تاکہ عوام کو بدظن کیا جا سکے ۔اور یہ حقیقت ہے کہ مہنگائی سے عام آدمی پریشان ہو کر پی ٹی آئی حکومت سے نالاں نظر آتا ہے۔

٭…اشیائے خورونوش کی اسمگلنگ اور بیرون ممالک ان کی برآمد بھی قیمتیں بڑھا رہی ہے۔ گندم، چینی، چاول اور بعض پھل وسبزیاں افغانستان، ایران اور بھارت کے راستے سے بھی اسمگل ہوتی ہیں۔ اسمگلنگ کی روک تھام کرنے والی سرکاری ایجنسیوں کو زیادہ متحرک ہونا اور اپنے اندر موجود کرپٹ لوگوں سے چھٹکارا پنا ہوگا جو رقم کی خاطر سمگلروں کو کھلی چھوٹ دے دیتے ہیں۔اسی طرح پاکستان ہر سال سوا ایک کھرب مالیت کی سبزی، پھل اور گوشت بیرون ممالک بھجواتا ہے۔ اس برآمد سے مگر پاکستان میں نہ صرف اشیائے خورونوش کی قلت جنم لیتی ہے بلکہ ان کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ اشیائے خورونوش کی برآمد سے پاکستانی کسانوں کو مالی فائدہ پہنچ رہا ہے یا نہیں۔

٭…پاکستان کی بڑھتی آبادی بھی اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ منڈی کا اصول ہے کہ جس شے کی طلب زیادہ اور رسد کم ہو تو اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ 1960ء میں پاکستان کی آبادی ساڑھے چار کروڑ تھی۔ اس سال گندم کی کھپت 5454 ہزار میٹرک ٹن تھی۔ آج پاکستان میں بائیس کروڑ افراد آباد ہیں۔ یہ آبادی اب سالانہ 27500 میٹرک ٹن گندم استعمال کرتی ہے۔ گویا پچھلے ساٹھ برس میں گندم کی کھپت میں بائیس ہزار میٹرک ٹن اضافہ ہو چکا۔تازہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں آبادی کے اضافے کی شرح (گروتھ ریٹ) 3.6 ہے۔اس شرح میں آبادی ہر 19.4 سال بعد دگنی ہو جاتی ہے۔گویا 2040ء میں پاکستان کی آبادی چوالیس کروڑ پہنچ سکتی ہے۔ اتنی بڑی تعداد کو خوراک کہاں سے، کیونکر اور کیسے میسر آئے گی، یہ دماغ چکرا دینے والا معّمہ ہے۔

٭…اپوزیشن کا دعوی ہے،پی ٹی آئی حکومت نوٹ چھاپ کر اخراجات پورے کر رہی ہے۔ازحد نوٹ چھاپنے سے پاکستان میں افراط زر نے جنم لیا۔اس عمل نے بھی مہنگائی بڑھا دی۔

٭…پچھلے دو سال میں روپے کی قدر بھی کم ہو چکی۔حکومت ِوقت کا کہنا ہے کہ پچھلی دو جمہوری حکومتوں نے مصنوعی طریقوں سے کرنسی کی قدر میں اضافہ روک رکھا تھا۔بہرحال روپے کی قدر کم ہونے سے بیرون ممالک سے آنے والی اشیائے خوراک اور دیگر چیزیں مہنگی ہو گئیں۔یوں روپے کی قدر گھٹنے سے بھی مہنگائی نے جنم لیا۔

٭…بعض ماہرین معاشیات یہ نکتہ اجاگر کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت نے کئی کاروباری و صنعتی شعبوں میں ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی تاکہ حکومتی آمدن میں اضافہ ہو سکے۔تب کمپنیوں نے بھی اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دیں تاکہ منافع کی شرح برقرار رہے۔اس وجہ سے بھی مہنگائی بڑھ گئی۔

٭…حکومت وقت آئی ایم ایف کے کہنے پر مختلف شعبوں کو دی جانے والی سبسڈی ختم یا کم کر رہی ہے۔مثلاً زرعی شعبے کو دی گئی سبسڈیاں ختم ہو چکیں۔اس باعث کسانوں کو اب کاشت کاری مہنگی پڑ رہی ہے۔لہذا انھوں نے بھی اناج،سبزی و پھل کی قیمتیں بڑھا دیں۔بجلی،گیس اور پٹرول کی بڑھتی قیمتوں نے بھی مہنگائی بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا۔

٭…گندم،چینی اور ٹماٹر کی قیمت میں حکومتی بدانتظامی سے بھی اضافہ ہوا۔حکومت نے پہلے سرکاری گندم (اور چینی بھی)برآمد کرنے کی اجازت دے دی۔جب ملک میں گندم کی قلت ہوئی تو بیرون ممالک سے مہنگے داموں درآمد کرنا پڑی۔اسی طرح جب ٹماٹرکی قیمت سو روپے سے تجاوزکر گئی اور عوام نے دہائی دی ،تبھی حکومت کو ہوش آیا اور باہر سبزی منگوائی گئی۔ان غفلتوں سے عیاں ہے کہ حکومتی ٹیم میں نااہل بھی بیٹھے ہیں۔جبکہ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے سرکاری گندم فلور ملوں کو جاری نہیں کی جس سے قیمت میں اضافہ ہوا۔

حرف آخر
درست کہ پچھلی دو جمہوری حکومتوں میں بے دریغ لیے گئے قرضوں کے انبار نے مہنگائی بڑھانے میں اہم کردار ادا کیامگر پی ٹی آئی حکومت نے بھی قرضے لینے کی روایت جاری رکھی ہے۔مہنگائی پہ قابو پانے کی خاطر غیر ترقیاتی اخراجات کنٹرول کرنا وقت کی پکار ہے۔حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ خصوصاً اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھتی رہیں تو فرانس کے مانند یہاں بھی عوام حکمران طبقے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ایسا وقت بڑے خوفناک مناظر دکھا سکتا ہے۔پی ٹی آئی حکومت اپنے آپ کو عوام دوست کہتی ہے۔ لہذا حکمران طبقے کا فرض ہے کہ عام آدمی سے مسلسل رابطہ رکھے تاکہ وہ انھیں اپنے مسائل اور مشکلات سے آگاہ رکھ سکے۔حکومت پھر مسائل ختم کرنے کی خاطر مناسب پالیسیاں بنا سکے گی۔عوام سے کٹ کر حکومت کرنے والے شاید زورزبردستی یا کرپشن کے سہارے کرسی اقتدار پہ براجمان رہیں ،مگر اس روش سے وہ ملک وقوم کو ترقی نہیں دے پاتے اور نہ ہی عام آدمی ان سے دلی محبت کرتا اور انھیں عزت دیتا ہے۔

غذائی مہنگائی کیسے کم ہو؟
ہر ملک میں اشیائے خوراک کی قیمتیں بڑھتی ہیں ۔مگر پاکستان میں ان کا نہایت تیزی سے بڑھنا آشکارا کرتا ہے کہ حکومت انھیں روکنے میں ناکام ہے۔اس سنگین مسئلے پر قابو پانے کے سلسلے میں کچھ تجاویز درج ذیل ہیں:

٭…نجی شعبے کو آبادیوں میں منڈیاں کھولنے کی اجازت دی جائے۔ذخیرہ اندوز منڈی اپنے قبضے میں لے کر غذائوں کا ذخیرہ کرتے اور مصنوعی مہنگائی کو جنم دیتے ہیں۔زیادہ منڈیاں کھلنے سے ذخیرہ اندوزی کرنا مشکل ہو گا۔حکومت یقینی بنائے کہ منڈیوں میں کارٹل تشکیل نہ پا سکیں۔

٭…مڈل مین یا آڑھتی کا کردار کم سے کم کیا جائے۔یہ بھی اپنا منافع بڑھانے کی غرض سے گٹھ جوڑ کر مصنوعی مہنگائی پیدا کرتے ہیں۔کسانوں کو مکمل آگاہی دی جائے کہ وہ کیونکر اپنی اشیا براہ راست منڈیوں میں فروخت کر سکتے ہیں۔اس طرح انھیں زیادہ مالی فائدہ ہو گا اور قیمتیں بھی مناسب رہیں گی۔

٭…زرعی شعبے کو ڈیجیٹلائز کر دیا جائے۔بذریعہ میسج یا کال کسانوں کو بیجوں،کھاد،زرعی مشینری اور اشیائے خورونوش کی روزانہ قیمتوں سے آگاہ رکھا جائے۔ملک کے تمام کسانوں کا ڈیٹا بیس بنایا جائے تاکہ انھیں پیداوار بڑھانے کے جدید سائنسی طریقوں روشناس کرایا جا سکے۔

٭…حکومت تمام آبادیوں میں نجی شعبے کے تعاون سے بڑے گودام بنائے تاکہ وہاں گندم،چاول،چینی،دالیں وغیرہ طویل عرصہ ذخیرہ ہو سکیں۔یوں مہنگائی ہونے پر اُن اشیا کو منڈی لا کر حملے کی شدت کم کی جا سکے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔