پاکستانی مہاتما کا خواب، اُخوت یونیورسٹی

اسلم خان  اتوار 22 دسمبر 2013
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

گوجرانوالہ کاذکرہوتے ہی بچپن اور جوانی کی یادوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتاہے ۔کالم نگار خواب نگر کی ایسی دنیا میں کھوجاتا ہے جس میںجوانی کے شوخ و شریر دن اور والہانہ پن میں گذرے رتجگے قلب ونظر کی تاریکیوں کو اُجالوں میں بدل دیتے ہیں۔ سول لائنز سے جامعہ اسکول ماڈل ٹائون(Comprehensive School)تک پیدل مارچ‘ برس ہا برس ریل کی پٹڑی پر توازن برقرار رکھتے ہوئے دوڑ لگانا، ریل گاڑی کی آمد سے پہلے پیتل کے سکے پٹڑی پر رکھ کر اس کی ساخت میں تبدیلی پر بچگانہ خوشی اور انبساط حاصل کرنا، اسکول سے واپسی پر روزانہ ایک ہی طرح کے کھیل تماشے ذوق وشوق سے دیکھنے پر وقت ضایع کرنا اور پھر سائیکل پر کوچوانوں سے چھانٹے اُچک کر ریس لگانا، ماضی کے یہ دل آویزنقش اور ان کے مناظر تمام ترجزئیات کے ساتھ یادوں کو مہکا دیتے ہیں۔

اب گوجرانوالہ سے صرف گذران ہوتا ہے۔ اوائل جوانی کے دوست کب کے تتر بتر ہوچکے ہیںلیکن نئے بلند وبالا پل (Over Head Bridge) نے شہر کے درمیان سے گذرنا دوبارہ ممکن بنا دیا ہے۔ ویسے تو مہینے میں ایک آدھ بار گوجرانوالہ سے صرف 12کلو میٹر پر اپنے آبائی گائوں بڈھاگورائیہ کا چکر بھی لگتا رہتا ہے۔ اباجی نے کوآپریٹوبینک سے ریٹائرمنٹ کے بعد جہان گردی کے وقفوں میںپاکستان آمد پر لاہور یااسلام آباد کے بجائے بڈھاگورائیہ کو اپنا ہیڈکوارٹرز بنا لیاہے جہاں جدید زندگی کی تمام سہولیات میسر ہیں اورمرکزی شاہراہ سے ملانے والی گوجرانوالہ بائی پاس صرف 15منٹ کے فاصلے پر ہے۔

لاہور کا سفرزندگی کا حصہ بن گیاہے۔ کبھی یہ شہر نگاراں مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچتا تھا۔ اب اس طرف رخ کرنے کوجی نہیں چاہتا کہ میرے شاہ جی نہ رہے، سید والا تبار جناب عباس اطہر نے صحافت کے اس بے رحم پیشے میں ایسی سرپرستی کی جس کی مثال ملنا ممکن نہیں۔90کی دہائی کے آغاز پر آصف زرداری اور ریاستی طاقت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئے تھے۔چھ ماہ طویل ہماری روپوشی کے دوران شہزادوں کی طرح رکھا،جنرل مشرف کے دورمیںاس کالم نگار کو بغاوت کے مقدمے کا سامناکرناپڑاجواس وقت کے وزیرمملکت  طارق عظیم کومشتعل ہجوم سے بچانے کا انعام تھا۔مجال ہے کہ شاہ جی کے ماتھے پر یہ رام کہانی سن کر بل آیا ہو۔اب تو بس یادیں ہی رہ گئی ہیں۔لاہور میں چاہنے والوں کی بڑی تعداد کے باوجود اب ناک کی سیدھ میں چلتا ہوں، کام سے کام رکھتا ہوں، موقع ملتے ہی جان چھڑا کر واپس اسلام آباد بھاگتا ہوں ،سب سے بڑھ کرمیری پیاری، را ج دُلاری بیٹی ایمان اسلم خاں بھی راہ نہیں روک پاتی۔

گذشتہ دنوں آنکھوں کے معروف معالج، ہم دم دیرینہ ڈاکٹر اختر شاہین کی وجہ سے پاکستان میں غربت کے خلاف برسرپیکار ڈاکٹر امجد ثاقب سے ملاقات اور گوجرانوالہ سفر کا موقع مل گیا۔ 6ارب روپے ایک لاکھ سے زائد گھرانوں میں تقسیم کر دینے کے بعد اس کی 100فیصد بروقت واپسی کاناقابل یقین معجزہ کردکھانے والے قافلہ سالارِ’’اُخوت‘‘نے گوجرانوالہ میں قرضوں کی تقسیم کی تقریب میں شمولیت کی دعوت دی ۔اُخوت مقامی مساجد کومرکز بنا کر کس طرح خط غربت سے نیچے زندگی گذارنے والے بے نوائوں کوجینے کاحوصلہ اور رُوشنی اور اُمید کی کرن دکھا رہی ہے۔

ڈاکٹر امجد ثاقب بتارہے تھے کہ افسر شاہی کے 13ویں کامن گروپ میں DMGکا رکن رکین ہونے کی وجہ سے کس طرح زندگی میں آسانیاں پیدا ہوتی گئیں خودبخود بند دروازے کھلتے گئے۔

ڈاکٹر امجد ثاقب کی آپ بیتی ’اُخوت کا سفر‘کی زبان سادگی اور پُرکاری کا حسین امتزاج ہے جس سے بوئے یار کی مہک آتی تھی لیکن محسوسات اس کیفیت کو سمجھنے سے قاصر تھے ۔نجانے کیسے کراچی اور صاحب طرز انشا پرداز ،شکیل عادل زادہ کا ذکر آگیا۔پھر کیا تھاگاڑی  امجد ثاقب کی اوائل جوانی کی یادوں سے مہک اُٹھی ۔وہ بتارہے تھے ’سب رنگ‘ کے ذریعے کس طرح ٹاٹ اسکول میں پڑھنے والے لڑکے کا عالمی ادبی شہ پاروں سے تعارف ہوا ۔شکیل عادل زادہ نے متحدہ ہندوستان کے معاشرتی اور تہذیبی رچائو کو کس والہانہ شدت سے بابر زمان خاں اور بٹھل کے کرداروں میں سمودیا ہے ۔

70کی دہائی میں اس کالم نگار سمیت متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ہر نوجوان کاتعارف حرف وقلم اور کتاب سے کرانے میںشکیل عادل زادہ ،نسیم حجازی اورابن صفی مرحوم نے بنیادی کردار ادا کیا۔ جس میں ابن صفی کی عمران سیریزوطن پرستی کی تخم ریزی ،جناب نسیم حجازی کی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے ہونے والی جنگوں کی ولولہ انگیز رومانی داستانیں اسلاف کے پرشکوہ ماضی کی یاد دلاتیںاور پین اسلام ازم کے فلسفے سے کچے پکے ذہنوںکی فکری نشوونما کرتیںجب کہ شکیل عادل زادہ کایہ اعزازہے کہ مستند اُردو ترجموں کے ساتھ عالمی شہرت یافتہ مصنفین کا تعارف اوران کی کہانیوں کا ایسا چسکا ڈالا کہ جوہڑوں میں نہانے والے میرے جیسے نجانے کتنے ،سیکڑوں ہزاروں ادب کی زلف گرہ گیر کے ایسے اسیر ہوئے کہ زندگیاں بدل گئیں۔ڈاکٹر امجد ثاقب بھی شکیل عادل زادہ کے عاشق زار نکلے‘ اسی لیے ان کی آپ بیتی سے بوئے دوست کی مہک آتی تھی جسے محسوس کرنے کے باوجود سمجھ نہیں پارہا تھا۔

ہم سفر ڈاکٹر اظہار ہاشمی بھی ادب کے عاشق زار نکلے‘ باتوں میں سفر گذرنے کا پتا بھی نہ چلا ویسے بھی لاہور ،گوجرانوالہ مرکزی شاہراہ کا حصہ، عالمی سطح کی سڑکوں کے ہم پلہ ہوچکا ہے ہماری منزل کھوکھر کے علاقے کی مسجد تھی‘ یہ علاقہ عیسائی مشنریوںکا مرکز،جہاں امریکی صدر اوبامہ بھی دو سال اپنی والدہ کے ساتھ رہائش پذیر رہے تھے۔

یہیں ڈاکٹر امجد ثاقب نے مسجد کو مرکز بنا کر غربت کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تھا ۔صرف 10سال پہلے 10ہزار روپے کے قرض حسنہ سے شروع ہونے والا روشنی کا یہ سفر6ارب روپے کی کثیر رقم بن چکا ہے۔ آج 120افراد کو بلاسود ،بلاضمانت قرض دیا جانا تھا۔اچانک ہمارے خاندان کے دیرینہ سیاسی رفیق کار چوہدری اقبال گجر بھی آگئے ۔ گوجرانوالہ سے متصل سہنسرہ گورائیہ کے زمیندار کئی مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے‘ وزیر بھی رہے ،بدلے ہوئے لباس، سوٹ ٹائی میں اس کالم نگار کوپہچان نہ سکے کہ لباس شخصیت کے پرتو بدل کررکھ دیتا ہے ڈاکٹر امجد ثاقب بتا رہے تھے کہ ہمیں خبردارکیا گیا تھا کہ گوجرانوالہ میں قرض دے کر واپس لینا ممکن نہیں ہوگا اس لیے یہاں اُخوت کاسلسلہ شروع نہ کیاجائے لیکن اس وقت 20کروڑ سے زائد کے قرض دیے جاچکے ہیں جن کی سو فیصد بروقت ریکوری کا سلسلہ جاری ہے۔ ہم عزت نفس مجروح کیے بغیر قرض دیتے ہیں جس کے لیے کوئی ضمانت طلب نہیں کرتے۔صرف چند معمولی شرائط پوری کرنا ہوتی ہیں ۔گروپ بناتے ہیں تاکہ اگر کسی کومدد کی ضرورت ہو تو باقی ساتھی اس کے دست و بازو بنیں۔

یہ کالم نگار کھلی آنکھوں سے خواب دیکھ رہا تھا۔ سیکڑوں افراد بڑے منظم انداز میں خاموشی سے مرکزی ہال میں بیٹھے تھے یہ مسجد کا تقدس تھا جس کا ذکر ڈاکٹر امجد ثاقب کررہے تھے کہ ایک پیسہ خرچ کیے بغیر ایسی روح پرور تقریبات میں مساجد کی برکت بھی شامل ہوجاتی ہے۔ چھوٹے قرضوں کی فراہمی کے اس منفرد منصوبے(Akhuwat Micro Finance Loan Project) پراب دُنیا کی تمام بڑی درس گاہوں میں تحقیق ہورہی ہے۔ بنگلہ دیش کے گرامین بینک کی غربت کے خلاف کامیاب جنگ کی وجہ سے ڈاکٹر یونس کونوبل انعام سے سرخروکیاگیاجس میں خدمات کا معاوضہ (Service Charges) 40فیصد وصول کیا جاتاہے۔

اُخوت کے وسیع وعریض نیٹ ورک میں کام کرنے والے بلامعاوضہ اورتنخواہ داررضاکاروں کی تعداد ہزاروںہو چکی ہے۔ انتھک ڈاکٹر امجد ثاقب رُکنے اور سانس لینے کے لیے تیار نہیں ۔مستقبل کے تعلیمی منصوبے اُخوت یونیورسٹی کے بارے میں بتارہے تھے۔ جہاں پر داخلے کی بنیادی شرط اہلیت ہوگی۔ جس کے فرزندتحصیل علم کے بعد اپنی مادر علمی کو قرض لوٹائیں گے جس کے لیے لاہور،قصور روڈ پر زمین خریدی جاچکی ہے اور جذبہ تعلیم کے جنون میں اُخوت رضاکار اس کی اینٹیں فروخت کرنے نکلیں گے۔ دُنیا کی پہلی منفرد درس گاہ جہاں مفت تعلیم دی جائے گی جس کے فرزند برسرِ روزگار ہونے کے بعد اپنی مادر علمی کے ماتھے پر جھومر سجائیں گے ۔ آشائوں کے دیپ جلائیں گے پھر روشن ہوگا پاکستان اور مایوسیوں کے گھٹاٹوپ اندھیرے بھاگ جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔