فنکار ٹیکس کلچر کو فروغ دے کر مثال قائم کر سکتے ہیں

قیصر افتخار  اتوار 1 نومبر 2020
حکومت اوراس کے متعلقہ اداروں کو بھی ان کی قدروقیمت کوسمجھنے کی ضرورت ہی نہیں بلکہ اس پرعملدرآمد کرنا ہوگا۔ فوٹو: فائل

حکومت اوراس کے متعلقہ اداروں کو بھی ان کی قدروقیمت کوسمجھنے کی ضرورت ہی نہیں بلکہ اس پرعملدرآمد کرنا ہوگا۔ فوٹو: فائل

مغربی دنیا کی بات کریں تووہاں اربوں ڈالرکمانے والا اورسینکڑوں ڈالرماہانہ کمانے والا ہرشخص ٹیکس ادا کرتا ہے۔ جس کا مقصد ملکی معیشت کومستحکم رکھنا اورعوام کوبنیادی سہولیات فراہم کرنا ہوتا ہے، اس لئے وہاں ایک ایسا نظام رائج ہے جس کے تحت جوشخص نہیں چلتا اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑتا ہے۔

ایک طرف توحکومت اورادارے اس حوالے سے اپنا کام بڑی ذمہ داری سے انجام دیتے ہیں اوردوسری جانب عوام بھی قومی خزانے میں ٹیکس کی مد میں رقم جمع کروانے کواپنا فرض سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں تعلیم، صحت اوردیگربنیادی سہولیات کے بارے میں عوام کوکسی قسم کی شکایت نہیں ہوتی۔ جبکہ ہمارے ملک میں اگردیکھا جائے توٹیکس دینے والوں کی شرح جہاں انتہائی کم ہے، وہیں بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔

اگرمغربی شوبز انڈسٹری پرنظرڈالیں تووہاں کام کرنے والے افراد اس شعبے میں اپنی صلاحیتوں کے جوہردکھا کربھاری معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ فنکارتوفنکار، تکنیکی شعبے کے لوگ بھی اپنے کام کی نوعیت کے مطابق منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں لیکن ان کی ادائیگی کاطریقہ کار کچھ ایسا ترتیب دیا گیا ہے کہ انہیں ملنے والی رقم سے پہلے ہی ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے جوکہ سیدھا قومی خزانے میں پہنچتا ہے۔ اسی لئے تو مغربی ممالک میں کام کرنے والے فنکاروں کے گھر، محل نما اورزندگی گزارنے کا انداز بادشاہوں سے ملتا جلتا ہے۔

دوسری جانب اگرہم پاکستان میں شوبز انڈسٹری کی بات کریں تویہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ یہاں کام کرنے والے بہت سے فنکارایسے ہیں جودنیا بھرمیں اپنی شناخت رکھتے ہیں، ایسے ہی فنکاروںکو بھاری رقوم معاوضے کے طورپرادا کی جاتی ہیں۔ اگرفنکاروںکو رہن سہن دیکھا جائے تویہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ ماہانہ کروڑوں روپے کماتے ہونگے لیکن ان کے ٹیکس گوشواروں کودیکھیں تویہ محسوس ہوتا ہے کہ ’’بے چارے‘‘ کس مشکل سے گزر بسر کرتے ہونگے۔

ہمارے فنکاروں کی اکثریت بزنس کلاس میں لوکل اورانٹرنیشنل سفرکرتی ہے، گاڑیوں کی بات کریں توہرنئے ماڈل کی گاڑی ان کے پاس ایک سے زائدہوتی ہیں، اس کے علاوہ گھر کی بات کریں توایک گھر میڈیا کیلئے ہوتا ہے اوربقیہ پراپرٹی مختلف مقامات اور شہروں میں ہے۔

یہ بہت اچھی بات ہے کہ ہمارے جیسے ملک میں بسنے والے فنکارآج ایسی شاہانہ زندگی صرف اورصرف اپنی محنت کی وجہ سے جینے کے قابل ہوتے ہیں، وگرنہ شوبز میں نام ملنے سے پہلے اگرفنکاروں کی مالی حیثیت کاجائزہ لیں تواکثریت کرائے کے گھروں میں رہنے کے ساتھ ساتھ دو وقت کی روٹی مشکل سے پوری کیا کرتی تھی۔ لیکن آج ا ن کے طورطریقے کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ نوکرچاکرآگے پیچھے ہوتے ہیں، جہاں جائیں پروٹوکول ملتا ہے۔ مگر ان کے ٹیکس گوشوارے دیکھیں توپھر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

گزشتہ کچھ عرصہ سے ایف بی آر کی جانب سے کچھ فنکاروں کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کا کام جاری ہے۔ کچھ کی رپورٹ تیارکی جاچکی ہیں اورکچھ کی چھان بین ہورہی ہے۔ اس سلسلہ میں ایک نام بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکاراستاد راحت فتح علی خاںکا ہے جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ان کے فن نے دنیا بھرکے لوگوںکو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے۔ اگران کے معاوضے کی بات کریں توشاید وہ پاکستان  میں سب سے زیادہ معاوضہ وصول کرنے والے فنکاروں میں پہلے نمبر پرہونگے۔

سب لوگ جانتے ہیں کہ راحت کوبھارت میں بھی ڈالر ساتھ رکھنے پرائیرپورٹ سے گرفتارکیا گیا تھا اوران کو اس مد میں جہاں سزا کاسامنا کرنا پڑا تھا ، وہیں انہیں اتنی بڑی رقم سے ہاتھ بھی دھونا پڑے تھے۔ اس کے بعد بھارت میں ان کے خلاف بہت پراپیگنڈہ بھی کیا گیاتھا کہ ایک پاکستانی فنکارکواتنا معاوضہ کیوں دیا جارہاہے ؟ اس پیسے کے اصل حقدارتوبھارتی گلوکارہیں۔

یاد رہے کہ راحت کوملنے والی رقم میں بھارتی حکومت نے پہلے ہی ٹیکس کاٹ لیا تھا لیکن اس کے باوجود انہیں ڈالر ساتھ لانے کی اجازت نہ ملی اوردنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہسائی بھی ہوئی۔ لیکن اپنے ملک کی بات کریں توایف بی آر نے گزشتہ کئی برس سے راحت فتح علی خاں کے سفرکے حوالے سے تفصیلات مانگ لی ہیں۔

اسی طرح ایک اورمعروف اداکارہ ثناء کیخلاف بھی کارروائی جاری ہے اوران کے اثاثوں اورسفرکی تفصیلات کوسامنے رکھتے ہوئے تحقیقات ہورہی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی پاکستان کے بہت سے فنکاراورگلوکار ایسے ہیں جن کا لائف سٹائل ان کے ٹیکس کی رقم سے کہیں نہیں ملتا۔

اسی طرح سے بہت سے فنکارایسے ہیں جوایک کمرشل کرنے کا معاوضہ کروڑوں روپے وصول کرتے ہیں ، ان کے حوالے سے بھی ایف بی آر کوباقائدہ تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی دیکھاجائے توبرسوں تک فلم انڈسٹری پرراج کرنے والی ہیرئنوں کوملنے والا معاوضہ اتنا کم ہوتا تھا کہ اگراس حساب سے ان کا رہن سہن دیکھا جائے توحیرت دنگ رہ جائے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں کام کرنے والی فلمی اداکاراؤں کی اکثریت فلم میں سائن ہونے کیلئے خود پیسے دیا کرتی تھیں۔

فلمسٹارمیرا کی بات کریں توفلم انڈسٹری سے وابستہ لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہونگے کہ ان کے پاس جتنی پراپرٹی صرف لاہورمیں ہے، شاید کسی دوسری اداکارہ کے پاس نہ ہو، لیکن اس کے باوجود انہوںنے حکومت سے مالی امداد کی اپیل کی۔

اسی طرح اگرفیشن انڈسٹری سے وابستہ ماڈلز، ڈیزائنرز، بیوٹیشنز اوردیگرکاجائزہ لیں تویہاں کام کرنے والے ڈیزائنرز ایک جوڑے کی قیمت ایک لاکھ سے بیس لاکھ تک وصول کرتے ہیں اوراس شعبے کواگرپاکستان شوبز کا سب سے مہنگا ترین شعبہ کہا جائے توغلط نہ ہوگا لیکن ان کے’’ اثرورسوخ ‘‘کی بنا پران پربھی کارروائی کاعمل درآمد بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ اس شعبے میں کام کرنے والے اکثریت کی فیملیز کی ہے جس کوپاکستان کاوہ طبقہ سمجھا جاتا ہے جن پرقوانین کا عملدرآمد ہونا ناممکن ہے۔

میوزک انڈسٹری میں استاد راحت فتح علی خاں کے علاوہ عاطف اسلم، عابدہ پروین، غلا م علی، سجاد علی، شفقت امانت علی خاں، عارف لوہار، سٹرنگز، جنون اورحدیقہ کیانی سمیت بہت سے دوسرے نام ایسے ہیں جوایک شو میں پرفارم کرنے کی فیس لاکھوں روپوں یا ڈالروں میں وصول کرتے ہیں، اس شعبے کے بارے میں بھی تحقیقات وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ فنکارجتنا پیسہ کماتے ہیں اگراس حساب سے ٹیکس دیں تویقینناً قومی خزانے میں بہتری آئے گی۔

اس حوالے سے شوبز کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ بلاشبہ ہمارے فنکارٹیلنٹ میں کسی سے کم نہیں ہیں اوریہاں کام کرنیوالے نامور فنکاروں کی مالی صورتحال کسی راجا مہاراجا سے کم نہیں ہے۔ ان کی آمدنی اوردیگرمعاملات کی چھان بین ہونی چاہئے کیونکہ دنیابھرمیں فنون لطیفہ سے وابستہ افراد مالی طورپرمستحکم ہوتے ہیں اورایسا ہی ہمارے ہاں بھی ہے لیکن ٹیکس کے معاملے میں ماضی میں بھی بہت سے فنکاروں کوبھاری رقوم ادا کرنے کے نوٹس موصول ہوئے اوربعد میں ’’اہم شخصیات‘‘ کی مداخلت پرکارروائی کوروک دی گئی۔

یہ بات درست ہے کہ اگرپاکستان میں فلم، ٹی وی، تھیٹر، فیشن، میوزک ، رقص اوردیگرشعبوں سے وابستہ افراد کے اثاثوں کی تحقیقات کی جائے اوران سے ٹیکس وصول کیا جائے توغلط نہ ہوگا لیکن پھران فنکاروں کووہ تمام بنیادی سہولیات کی فراہمی کوبھی یقینی بنانا ہوگا، جوان کا بطورپاکستانی حق ہے۔ یہ لوگ ہمارے ملک کی شان اورپہچان ہیں، جہاں ان کواپنا فرض اداکرنا چاہئے، وہیں حکومت اوراس کے متعلقہ اداروں کو بھی ان کی قدروقیمت کوسمجھنے کی ضرورت ہی نہیں بلکہ اس پرعملدرآمد کرنا ہوگا۔

اگریہ سلسلہ اسی طرح شروع ہوجائے تویقینناً اسے فنکاروںکو عزت ملے گی اورانہیں لمبی قطاروں میں لگنے کی بجائے ایکسپریس سروسز کے تحت سہولیات فراہم کی جائیں گی اورحکومت کوٹیکس کی مد میں اچھی خاصی رقم ملے گی، جوملکی ترقی میں اہم کردارادا کرے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔