انداز نئے نئے ہیں …

شیریں حیدر  اتوار 1 نومبر 2020
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ بیٹا، کسی کو لفٹ مت دیں، کوئی روکے تو رکنا نہیں، کوئی بھکاری دیکھیں تو اسے بھیک دینے کوبھی اپنی کھڑکی کا شیشہ مت اتاریں، مبادا کہ کوئی شیشہ اتارنے پر آپ پر کوئی دوا سپرے کردے۔

کوئی مجبوربھی نظر آ رہا ہو کہ گاڑی خراب ہے، حادثہ ہوگیا ہے، عورتوں کا ساتھ ہے اور سڑک پر گاڑی خراب ہو گئی ہے، کوئی سڑک پر گرا پڑا ہو… کچھ بھی ہو آپ نے اپنے راستے پر بغیر رکے سیدھا جانا ہے!! ‘‘ بیٹی ہر روز سویرے اسپتال اپنی جاب پر جاتی ہے تو اسے یہ سب ہدایات ہم گاہے بگاہے دیتے رہتے ہیں۔ گھر سے حصول تعلیم ، اپنی ملازمتوں یا اپنے بچوں کو اسکول لے جانے اور لانے کے لیے نکلنے والی بچیوں کے والدین کے لیے ان کی حفاظت کا مسئلہ پریشان کیے رکھتا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں اور بچوں کو گاہے بگاہے لیکچر دیتے ہیں لیکن ہوتا کیا ہے کہ ہم خود بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بھی ایسا کوئی مسئلہ ہو سکتا ہے۔

اس روز وہی تو ہوا تھا، طبیعت کچھ بہتر ہوئی تھی، لگ بھگ ڈیڑھ ماہ سے کئی اہم کام رکے ہوئے تھے… دونوں بہنوں کے ساتھ گھر سے نکلی، گاڑی میں چلا رہی تھی، صدر کے کچھ کام کر لیے تو مری روڈ کا رخ کیا، مریڑ چوک پر حسب معمول ٹریفک جام کی کیفیت تھی، گاڑیوں کی طویل قطاریں، تا حد نظر، تین رویہ سڑک پر چھ رو میں کھڑی گاڑیاں ، بمپر سے بمپر جڑا ہوا، چیونٹی کی رفتار سے رینگتی ہوئی گاڑیاں۔ ’’ ٹک ٹک!! ‘‘ میری طرف کی کھڑکی کے شیشے پر کسی نے دستک دی تھی، میں نے دائیں طرف دیکھا تو کوئی نظر نہ آیا۔

گاڑی چونکہ آگے رینگ آئی تھی تو دستک دینے والا پیچھے رہ گیا تھا، چند لمحوں میں وہ آگے آیا، وہ ایک رکشہ چلا رہا تھا اور اسی طرح رینگتے ہوئے رکشے میں سے ہی اچک کر اس نے پھر میری کھڑکی کے شیشے پر دستک دی اور نیچے کی طرف اشارہ کیا، میں سمجھی کہ میرا دوپٹہ باہر لٹک رہا ہو گا یا میری گاڑی کے ٹائر کے ساتھ کوئی مسئلہ ہو گا، میںنے سوالیہ اشارہ کیا، اس نے پھر نیچے کی طرف دیکھ کر کچھ کہا جو کہ ظاہر ہے ٹریفک کے شور اور بند کھڑکی کی وجہ سے بھی سنائی نہیں دیا تھا۔

’’ کیا بات ہے بیٹا؟ ‘‘ میںنے شیشہ اتار کر اس سے سوال کیا ، شیشہ اترنے سے اور اس کا رکشہ میری گاڑی کے متوازی آنے سے میں نے دیکھا کہ وہ آنسوؤں سے رو رہا تھا… ’’ باجی! ‘‘ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا تو میرا جسم سن ہونے لگا، کہیں کوئی سڑک پر رینگتا ہوا بھکاری میری گاڑی کے نیچے تونہیں آ گیا، میرے ذہن میں سوچ آئی کیونکہ وہ لفظ ’ باجی ‘ سے زیادہ کچھ بول نہ سکا تھا اور مسلسل نیچے کی طرف اشارہ کر رہا تھا، اس صورتحال اور اتنے رش میں، میں گاڑی سے باہر بھی نہیں نکل سکتی تھی۔

’’ کچھ بولو بیٹا کیا بات ہے؟ ‘‘ میںنے جھنجھلا کر سوال کیا ۔

’’ ایکسل ٹوٹ گیا ہے باجی… سچ کہہ رہا ہوں، بہت مجبور ہوں، اسی رکشے کے چلنے سے میری روزی روٹی چلتی ہے، اگر اسے مرمت نہ کروایا تو گھر کا چولہا بھی نہیں چلے گا!! ‘‘ ہچکیوں اور سسکیوں میں اس نے بتایا۔

’’ چل تو رہا ہے آپ کا رکشہ، اگر اس میں مسئلہ ہوتا تو آپ اسے کسی طرف روک کر اس کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتے نہ کہ تیز ترین لین میں چلاتے ہوئے کسی میرے جیسے بے وقوف ’’ شکار ‘‘ پھانسنے کی کوشش کر رہے ہوتے ! ‘‘ میں پانچویں رو میں تھی اور وہ میرے دائیں طرف یعنی کہ چھٹی اور تیز رفتار ترین ٹریفک کی طرف تھا۔

’’ سچ کہہ رہا ہوں باجی، گھسیٹ گھسیٹ کر چلا رہا ہوں! ‘‘ وہ اب باہر نکل آیا تھا اور رکشے کو گھسیٹ رہا تھا، ’’ پانچ ہزار کا خرچہ ہے باجی، ایمان سے اللہ مجھے بھیک مانگنے سے بچائے، شرم آرہی ہے آپ سے مانگتے ہوئے بھی!! ‘‘ اس کے آنسوؤں میں تیزی آ گئی تھی کیونکہ سگنل کھلنے پر ٹریفک چل پڑی تھی۔

’’ مجھے بھی شرم آرہی ہے بیٹا آپ کے انداز سے … ‘‘ میںنے کھڑکی کا شیشہ اوپر کیا اور گاڑی چلادی۔ اپنی بے وقوفی پر خود کو دل ہی دل میں ڈانٹا کہ کوئی بھی ہو سکتا تھا اور کسی بھی نوعیت کی واردات کر سکتاتھا۔

برتنوں کی دکان کے پاس گاڑی کھڑی کی اور وہاں سے کام کر کے باہر نکلے ، گاڑی نکالنے لگی تو گیارہ بارہ سال کی ایک پیاری سی لڑکی گاڑی کے پیچھے نظر آئی، میںنے اسے پیچھے ہٹنے کا اشارہ کیا کیونکہ مجھے گاڑی ریورس کرنا تھی مگر اسے میری بات سمجھ نہ آ رہی تھی۔ میں نے پھر شیشہ اتارا اور اسے بلایا، ’’ پیچھے سے ہٹ جاؤ بیٹا مجھے گاڑی ریورس کرنا ہے! ‘‘

’’ میں اسی لیے آپ کو اشارہ کر رہی ہوں ، گاڑی نکالنے میں آپ کی مدد کر رہی ہوں ! ‘‘ اس نے کہا تو مجھے ہنسی آ گئی۔

’’ میری گاڑی میں کیمرہ ہے بیٹا اور مجھے آپ کی مدد کی ضرورت نہیں ، بہت شکریہ! ‘‘ میں نے کہا ۔

’’ پیسے؟ ‘‘ اس نے میرے سامنے ہاتھ پھیلایا۔

’’ کس چیز کے پیسے؟ ‘‘ میںنے حیرت سے کہا، اندازہ تو تھا کہ بھیک مانگ رہی ہے۔

’’ میںنے آپ کی گاڑی نکلوائی ہے! ‘‘ اس کی اس ادا پر تو بڑا ہی پیار آیا ۔

بھوک چمکی تو چکن تکہ کھانے کا ارادہ کیا، ہوٹل کے اندر بیٹھ کر کھانے میں بے احتیاطی کا احتمال ہوتا ہے اس لیے بہتر سمجھا کہ گاڑی میں بیٹھ کر ہی کھا لیا جائے ۔ کھانا کھاتے ہوئے بھی گاڑی کے گرد کئی گداگروں کا طواف جاری تھا، یوں گاڑی سے آنکھیں لگا کر اندر تک تاڑتے ہیں کہ شرم محسوس ہوتی ہے۔ کوشش کر رہے تھے کہ اپنے دھیان کھاتے رہیں مگر اس کوشش میں کامیابی نہیں ہو پا رہی تھی۔ جب ویٹر برتنوں کی ٹرے لینے کے لیے آیا تو ایک انتہائی عمر رسیدہ سے بزرگ بہن کی طرف والی کھڑکی کے پاس آ کر روٹی کی طرف اشارہ کرنے لگے، ہم تو وہ روٹیاں واپس ہی کر رہے تھے، بہن نے اٹھا کر انھیں روٹیاں پکڑا دیں۔

’’ اس کو کس کے ساتھ کھاؤں گا؟ ‘‘ انھوںنے اتنی حسرت سے کہا کہ بہن نے اپنے پرس میں سے کافی رقم نکال کر انھیں دے دی اور کہا کہ وہ چکن تکہ لے لیں۔ انھوں نے رقم پکڑی اور اگلی گاڑی کی طرف چل دیے جہاں ایک اور فیملی گاڑی میں بیٹھ کر کھانا کھا رہی تھی، اسی حسرت بھرے لہجے اور بھوکی نظروں سے دیکھنے کے لیے کہ دیکھنے والے کو بھی ترس آ جائے۔ اس ایک دن میں، میں نے گداگروں کے ایسے ایسے نئے رنگ ڈھنگ دیکھے ہیں کہ ان کی جدت پسندی پر حیرت ہوتی ہے ۔

آپ اسلام آباد میں کچہری سے ہوتے ہوئے صدر تک چلے جائیں ، سواں پل کی تعمیر و مرمت کی وجہ سے کچھ زیادہ وقت لگ جاتا ہے مگر اگر آپ چالیس منٹ میں بھی یہ فاصلہ طے کر لیں تو بلا مبالغہ آپ کا واسطہ سو کے لگ بھگ بھکاریوں سے پڑتا ہے، نظر آنے والے بھکاریوں کی تعداد ہزار تک ہو سکتی ہے۔ ان میں زیادہ تعداد نوجوان لڑکیوں کی ہے، ان کے ہاتھ پیر سلامت ہیں، یہ چست اور چالاک ہیں اور اشارے اور غمزے کا ڈھب بھی جانتی ہیں، گاڑیوں کے ساتھ چپک کر کھڑکی کے شیشے سے ناک چپکا کر ایسی ایسی ادائیں بھی دکھا لیتی ہیں جو ان کی معصومیت نما چالاکی سے دیکھنے والوں کا دل موہ لیتی ہیں ۔

چھوٹے چھوٹے وہ بچے کہ جنھیں اسکول میں ہونا چاہیے، رٹی رٹائی تقریریں کر کے سناتے ہیں کہ اماں بیمار ہے، ابا مر گئے ہیں، بہن بھائی بھوکے ہیں وغیرہ۔ یہ سب ہر روزبلا ناغہ تیار ہو کر اپنے اپنے  work stations پر پہنچ جاتے ہیں، انھیں ان کے ’’ پراجیکٹ ایریا ‘‘ میں گاڑیوں پر ڈراپ کیا جاتا ہے اورشام کو واپس اٹھایا جاتا ہے … ان کا ایک مکمل مافیا ہے۔ ہمیں اور آپ کو تو سال میں کچھ چھٹیاں ملتی ہیں مگر ان کے دفاتر کا کام سال کے تین سو پنسٹھ دن چلتا ہے۔

ان سب میں سے ہر کوئی، ہر روز ہزاروں کے حساب سے کما کر اپنے ٹھکانے پر لے جاتا ہے۔ میں نے چند برس پہلے، اپنی ملازمت کے دوران ، جب میں گھر سے منہ اندھیرے نکلتی تھی، خود اپنی آنکھوں سے انھیں pick اور drop ہوتے ہوئے دیکھا ہے… ان چہروں کو میں پہچاننا شروع ہو گئی تھی اور میں نے ان کے ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے چوکوں پر تبادلے ہوتے ہوئے بھی دیکھے ہیں ۔ ان کے اپنے اپنے انداز ہیں، اپنے اپنے ڈھب۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔