12خرابیوں کے بھوت

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 1 نومبر 2020
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

اگر ہمارے کرتا دھرتا اپنی سوانح حیات لکھنے بیٹھیں اور سچائی کے دامن کے ساتھ ساتھ اسے مکمل پکڑکرر کھیں تو ان کی سوانح حیات اور بنجمن فرینکلن کی سوانح حیات میں حیرت انگیز مماثلت پائی جائے گی اور بہت ہی معمولی سا فرق سامنے آئے گا۔

پہلے آپ بنجمن فرینکلن کی سوانح حیات کا ایک اقتباس پڑھ لیں اور پھر اس کے بعد اس معمولی سے فرق پر بات کرتے ہیں ۔بنجمن فرینکلن بہت کامیاب انسان تھا۔ اس نے اپنے سوانح حیات میں لکھا ہے کہ ’’ میں اپنی کامیابیوں اور کارناموں سے بہت خوش تھا کامیابی میرے قدم چوم رہی تھی مگر اس کے باوجود مجھے یہ سب خوشیاں خالی خولی نظر آتیں مجھے سب کچھ کھوکھلا سا دکھائی دیتا ایک بارمیں نے تنہائی میں بیٹھ کر اس چیز کا جائزہ لیا تو مجھے پتہ چلاکہ میں ایک اچھا دوست یاساتھی نہیں تھا میں صرف لوگوں سے اسی بات کی توقع رکھتا تھا کہ وہ میری عزت کریں میری تعریف کریں خود میں کبھی بھی کسی کے لیے مدد گار ثابت نہیں ہوا تھا، مختصر یہ کہ میں صرف حاصل کرنے پر یقین رکھتا تھا ناکہ دینے پر۔

اس روز میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنے آپ کو یکسر بدل ڈالوں گا اور میں نے 12 نیکیوں کا انتخاب کرلیا اور فیصلہ کیا کہ ہر روز ان میں سے ایک میں کروں گا اور ہوسکے تو پوری کی پوری نیکیاں ایک دن میں کرکے دکھائوں گا اپنے آپ کو ۔ اب میرا یہ اصول ہوگیا تھا کہ میں جس روز ایسا نہ کرتا اپنے روزنامچے میں ان نیکیوں یا خوبیوں کے آگے صفر لکھ دیتا۔صفر دیکھ کر مجھے بہت شرمندگی ہوتی ۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ میں اس بارے میں بڑا پکا اور مضبوط ہوگیا اب میرے روزنامچے میں صفر نہیں ہوتا تھا۔

اب آپ ہی فیصلہ کرلیں کہ کیا دونوں کی سوانح حیات میں حیرت انگیز مماثلت پائی نہیں جاتی ہے ۔ بقول بنجمن فرینکلن کے وہ ایک اچھا دوست یا ساتھی نہیں تھا اور وہ صرف لوگوں سے اس بات کی توقع رکھتا تھا کہ وہ میری عزت کریں میری تعریف کریں خود وہ کبھی بھی کسی کے لیے مدد گار ثابت نہیں ہوا تھا مختصر یہ کہ وہ صرف حاصل کرنے پر یقین رکھتا تھا نا کہ دینے پر ۔

کیا اس کی یہ تمام باتیں ہمارے کرتا دھرتا ئوں کی باتوں سے ملتی جلتی نہیں ہیں کیا وہ یہ ہی سب کچھ نہیں کررہے ہیں ۔ کیا وہ اپنی زندگیاں اس چاہت میں نہیں گذار رہے ہیں کہ لوگ ان کی عزت کریں تمام وقت تعریف کرتے رہیں اور کیا وہ سب کچھ حاصل کرنے پریقین نہیں رکھتے ہیں ۔

آئیں! اب اس معمولی سے فرق پر بات کرتے ہیں، فرینکلن نے جب اپنے آپ کو یکسر تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا تو اس نے 12 نیکیوں کاانتخاب کیا اورفیصلہ کیا کہ وہ ہرروز ان میں سے ایک کریگا جب کہ ہمارے کرتا دھرتائوں نے اپنے لیے 12 نیکیوں کا نہیں بلکہ روز 12 خرابیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے اور وہ اکثر یہ بارہ خرابیاں ایک ساتھ بھی روز کرلیا کرتے ہیں۔ آئیں ان کی انتخاب شدہ 12 خرابیوں کا تفصیل سے ذکر کرتے ہیں ۔ خرابی نمبر۱۔ ملک میں بیروزگاری میں مسلسل اضافہ کرنا۔ خرابی نمبر ۲۔ مہنگائی میں مسلسل اضافہ کرنا ۔ خرابی نمبر ۳۔ پینے کے پانی ، صحت کی سہولیات کو تباہ کرنا، بجلی اورگیس کی لوڈ شیڈنگ میں اضافہ کرنا ۔ خرابی نمبر ۴۔ ملک میں غربت و افلاس کو بڑھا وا دینا ۔ خرابی نمبر ۵۔ قانون کی مسلسل خلاف ورزی کرنا ۔ خرابی نمبر ۶۔اداروں کو کمزور سے کمزور کرتے جانا ۔ خرابی نمبر ۷۔ کرپشن اور لوٹ مار میں اضافہ کرتے جانا ۔ خرابی نمبر ۸۔ملک میں عدم استحکام ، بے چینی اور بے یقینی میں اضافہ کرنا ۔ خرابی نمبر ۹۔ ملک کے عوام سے رہے سہے حقوق کو غصب کرتے جانا ۔ خرابی نمبر ۱۰۔ ملک میں انتہاپسندی کوبڑھا وا دینا ۔ خرابی نمبر ۱۱۔ ملک کے طاقتور اداروں کے خلاف سازشیں کرنا۔خرابی نمبر۱۲۔ عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف مسلسل بولنا۔

وحشت ناک بات یہ ہے کہ ان کے ایجنڈے کی کامیابی میں روز بروز اضافہ ہوتا ہی چلا جارہا ہے اور ملک اور عوام کو ان بارہ خرابیوں نے چڑیلوں کی طرح مکمل اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ اس گرفت سے چھٹکارے کی صورت یاامید دور دور تک نظر نہیں آرہی ہے اوریہ بارہ خرابیاں بھوتوں کے خوف کے طرح روز عوام کو کھائے جارہی ہیں۔

ملک کے عوام نے بڑے بڑے عاملوں سے بھی رابطہ کیا لیکن ان سب کاجواب ایک ہی تھا کہ ہم جن ، بھوت اور چڑیلوں سے تو آپ کی جان چھڑاسکتے ہیں لیکن ان بارہ خرابیوں کے آگے ہم بھی بے بس ، لاچار اور مفلو ج ہیں جس طرح آپ جن ، بھوتوں اورچڑیلوں سے ڈرتے ہیں ہم بھی اسی طرح ان بارہ خرابیوں سے ڈرتے ہیں ۔ اب ملک کے عوام کو سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ وہ ان حالات میں کریں تو کریں کیا۔

ملک کے اس سارے منظر کو دیکھ کر اسکائی لیس کے لکھے گئے ڈرامے ’’ پرو می تھیوس ‘‘ کا ایک ڈائیلا گ یا د آرہاہے ’’ یہ تو اب تک کاقصہ ہے ، آیندہ کیا ہوتا ہے ۔ مجھے کن اذیتوں سے گذرنا ہے یہ تم مجھے بتائو۔ مجھ پر رحم کھا کر جھوٹی تسلیاں نہ دینا ۔ جھوٹ کے تا روں سے بنے ہوئے لفظ ۔ ایک غلیظ مرض کی طرح ہوتے ہیں۔ ‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔