- پائلٹ لائسنسنگ کیس کی تحقیقات میں سائبر کرائم ماہرین کو شامل کرنے کا فیصلہ
- اسلام آباد میں پولیس پٹرولنگ ٹیم پر فائرنگ، ایک اہل کار شہید دو شدید زخمی
- ایم کیو ایم پاکستان کا نشتر پارک میں جلسے کا اعلان
- راولپنڈی میں فائرنگ سے ایس ایچ او عمران عباس شہید
- بھارت میں رخصتی کے وقت زیادہ رونے سے دلہن ہلاک
- شمالی وجنوبی وزیرستان میں فورسز کے آپریشن، 4 دہشت گرد ہلاک
- عمران خان نے اداروں کو استعمال کر کے اعتماد کا ووٹ لیا، مریم نواز
- کیمیائی آلودگی جسم کو 8 طرح سے نقصان پہنچاتی ہے
- کیا یہ تین منزلہ عمارت دریا میں ڈوب رہی ہے؟
- گوادر سے بیرون ملک کروڑوں روپے کی منشیات اسمگلنگ ناکام، 4 ملزمان گرفتار
- حکومت کے اتحادی ہیں اور سینیٹ میں بھی اُن کے ساتھ کھڑے ہیں، چوہدری شجاعت
- اب اسمارٹ فون پاکستان میں بنیں گے، 3 کمپنیوں کا پلانٹس لگانے کا اعلان
- مرغی کے گوشت کی قیمت میں ہوشربا اضافہ، عوام کی دسترس سے باہر
- راولپنڈی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ، ایس ایچ او شہید
- بیٹی کیلیے شاہین آفریدی کا رشتہ آیا ہے، شاہد آفریدی کی تصدیق
- ملک میں 10 مارچ سے 60 سال سے زائد عمر کے افراد کو کورونا ویکسین لگانے کا اعلان
- بریسٹ کینسر سے آگاہی، بروقت تشخیص اور علاج کے لیے ایپ متعارف
- پی ایس ایل 6 کی تحقیقات کیلیے فیکٹ فائنڈنگ پینل کا اعلان
- حکومت کا اپنے ہی قائم کردہ براڈ شیٹ کمیشن سے عدم تعاون
- نائیجیریا میں بحری قزاقوں نے چینی جہاز کے عملے کو ایک ماہ بعد رہا کردیا
آکٹوپس اپنی بازؤوں سے کھانے کا ذائقہ محسوس کرتی ہیں

تصویر میں کیلی فورنیا ٹو اسپاٹ آکٹوپس کی طرح کئی آکٹوپس اپنے بازوؤں سے خوراک کا ذائقہ معلوم کرتی ہیں (فوٹو: نیوسائنٹسٹ)
ہارورڈ: سمندر کی عجیب و غریب مخلوق آکٹوپس کے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ وہ اپنے آٹھ بازوؤں سے شکار یا غذا کو چاٹ کر اس کا ذائقہ محسوس کرتی ہے اور اس طرح زہریلی غذا کھانے سے بچ رہتی ہیں۔
سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ اس طرح کچھ آکٹوپس کے بازو گویا زبان کی طرح کام آتے ہیں اور ان سے غذا کو چاٹ کر کھانے کا ذائقہ محسوس کرتی ہیں۔ ان کے بازوؤں کے اندرونی طرف نرم ابھار یا ’’سکرس‘‘ ہوتے ہیں جو چپکنے کا کام کرتےہیں۔ ان کے اندر اعصابی خلیات کی بڑی مقدار ہوتی ہے۔ ایک جانب تو یہ خود اس مخلوق کو احساس دلاتے ہیں اور دوسری جانب بتاتے ہیں کہ آیا غذا اس کے لیے بہتر ہے یا مضر اور زہریلی ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے نکولس بیلونو نے کہا ہے آکٹوپس بغیر دیکھے شکار کرتی ہیں اور پتھروں کے یا سوراخوں کے اندر اپنے بازو ڈال کر شکار کو پکڑتی ہیں۔ نکولس اور ان کے محقق ساتھیوں نے کیلیفورنیا ٹو اسپاٹ آکٹوپس کا خردبینی اور سالماتی سطح پر جائزہ لیا ہے۔ ان میں سے پانی کے اندر کچھ سکرس چھونے اور کچھ غذا کا ذائقہ معلوم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ان خلیات کی عصبی کنارے آخرکار سوچنے اور محسوس کرنے کے نظام تک جاتے ہیں۔
اس کے بعد ماہرین نے الیکٹروفزیالوجی کے عمل کا جائزہ لیا اور ان کے سامنے مختلف اقسام کے ذائقے اور بو شامل کی گئیں یہاں تک کہ پانی میں حل ہوجانے والے کڑوے مرکب ’کلوروکوائن‘ پر بھی آکٹوپس نے اپنے ردِ عمل کا اظہار کیا۔
ہم جانتے ہیں کہ آکٹوپس سمیت کئی سمندری جانوروں میں پانی کے اندر سونگھنے کے اعضا ہوتے ہیں لیکن اب معلوم ہوا کہ آکٹوپس اپنے بازوؤں کے اندرونی حصے سے اپنے شکار کا ذائقہ بھی محسوس کرتی ہے۔ پہلے خیال تھا کہ ان کے منہ میں زبان جیسا ایک عضو ’ریڈیولا‘ یہ کام کرتا ہے لیکن بغور دیکھنے پر معلوم ہوا کہ ریڈیولا ذائقہ معلوم نہیں کرتا بلکہ یہ دانتوں کا کام کرتے ہوئے غذا کے ٹکڑے کرنے میں مدد دیتا ہے۔
اب ماہرین مان چکے ہیں کہ بازوؤں کے اندر موجود سکرس سے آکٹوپس اپنی خوراک کا احساس کرتی ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔