- بلدیہ عظمیٰ کراچی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو کچلنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
- کراچی میں سیشن جج کے بیٹے قتل کی تحقیقات مکمل،متقول کا دوست قصوروار قرار
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبروں نے اقوام متحدہ کو بھی خوفزدہ کردیا
- ایکس کی اسمارٹ ٹی وی ایپ متعارف کرانے کی تیاری
- جوائن کرنے کے چند ماہ بعد ہی اکثر لوگ ملازمت کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟
- لڑکی کا پیار جنون میں تبدیل، بوائے فرینڈ نے خوف کے مارے پولیس کو مطلع کردیا
- تاجروں کی وزیراعظم کو عمران خان سے بات چیت کرنے کی تجویز
- سندھ میں میٹرک اور انٹر کے امتحانات مئی میں ہونگے، موبائل فون لانے پر ضبط کرنے کا فیصلہ
- امریکی یونیورسٹیز میں اسرائیل کیخلاف ہزاروں طلبہ کا مظاہرہ، درجنوں گرفتار
- نکاح نامے میں ابہام یا شک کا فائدہ بیوی کو دیا جائےگا، سپریم کورٹ
- نند کو تحفہ دینے کے ارادے پر ناراض بیوی نے شوہر کو قتل کردیا
- نیب کا قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں غیر قانونی بھرتیوں کا نوٹس
- رضوان کی انجری سے متعلق بڑی خبر سامنے آگئی
- بولتے حروف
- بغیر اجازت دوسری شادی؛ تین ماہ قید کی سزا معطل کرنے کا حکم
- شیر افضل کے بجائے حامد رضا چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نامزد
آکٹوپس اپنی بازؤوں سے کھانے کا ذائقہ محسوس کرتی ہیں
ہارورڈ: سمندر کی عجیب و غریب مخلوق آکٹوپس کے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ وہ اپنے آٹھ بازوؤں سے شکار یا غذا کو چاٹ کر اس کا ذائقہ محسوس کرتی ہے اور اس طرح زہریلی غذا کھانے سے بچ رہتی ہیں۔
سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ اس طرح کچھ آکٹوپس کے بازو گویا زبان کی طرح کام آتے ہیں اور ان سے غذا کو چاٹ کر کھانے کا ذائقہ محسوس کرتی ہیں۔ ان کے بازوؤں کے اندرونی طرف نرم ابھار یا ’’سکرس‘‘ ہوتے ہیں جو چپکنے کا کام کرتےہیں۔ ان کے اندر اعصابی خلیات کی بڑی مقدار ہوتی ہے۔ ایک جانب تو یہ خود اس مخلوق کو احساس دلاتے ہیں اور دوسری جانب بتاتے ہیں کہ آیا غذا اس کے لیے بہتر ہے یا مضر اور زہریلی ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے نکولس بیلونو نے کہا ہے آکٹوپس بغیر دیکھے شکار کرتی ہیں اور پتھروں کے یا سوراخوں کے اندر اپنے بازو ڈال کر شکار کو پکڑتی ہیں۔ نکولس اور ان کے محقق ساتھیوں نے کیلیفورنیا ٹو اسپاٹ آکٹوپس کا خردبینی اور سالماتی سطح پر جائزہ لیا ہے۔ ان میں سے پانی کے اندر کچھ سکرس چھونے اور کچھ غذا کا ذائقہ معلوم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ان خلیات کی عصبی کنارے آخرکار سوچنے اور محسوس کرنے کے نظام تک جاتے ہیں۔
اس کے بعد ماہرین نے الیکٹروفزیالوجی کے عمل کا جائزہ لیا اور ان کے سامنے مختلف اقسام کے ذائقے اور بو شامل کی گئیں یہاں تک کہ پانی میں حل ہوجانے والے کڑوے مرکب ’کلوروکوائن‘ پر بھی آکٹوپس نے اپنے ردِ عمل کا اظہار کیا۔
ہم جانتے ہیں کہ آکٹوپس سمیت کئی سمندری جانوروں میں پانی کے اندر سونگھنے کے اعضا ہوتے ہیں لیکن اب معلوم ہوا کہ آکٹوپس اپنے بازوؤں کے اندرونی حصے سے اپنے شکار کا ذائقہ بھی محسوس کرتی ہے۔ پہلے خیال تھا کہ ان کے منہ میں زبان جیسا ایک عضو ’ریڈیولا‘ یہ کام کرتا ہے لیکن بغور دیکھنے پر معلوم ہوا کہ ریڈیولا ذائقہ معلوم نہیں کرتا بلکہ یہ دانتوں کا کام کرتے ہوئے غذا کے ٹکڑے کرنے میں مدد دیتا ہے۔
اب ماہرین مان چکے ہیں کہ بازوؤں کے اندر موجود سکرس سے آکٹوپس اپنی خوراک کا احساس کرتی ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔