مہنگائی پر حکومت اور اپوزیشن میں بلف گیم

مزمل سہروردی  پير 2 نومبر 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

وفاقی حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ اس کو بڑھتی مہنگائی پر بہت تشویش ہے۔یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بڑھتی مہنگائی کو کم کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔حکومت نے پٹرولیم مصنوعات میں کمی کا ابھی اعلان کیا ہے۔لیکن جہاں پٹرول سستا کیا گیا ہے وہاں ایل پی جی مہنگی کی گئی ہے۔

کون نہیں جانتا کہ سردیوں میں ایل پی جی کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ بہر حال وزیر اعظم بھی مہنگائی کا نوٹس لے چکے ہیں۔ وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں بھی مہنگائی پر طویل بحث ہو رہی ہے۔ وفاقی وزرا افسر شاہی کو مہنگائی کا ذمے دار ٹھہرا رہے ہیں۔ کم از کم حکومت کو دو سال بعد بڑھتی مہنگائی کا احساس ہو گیا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے حکومت مہنگائی کو ایک ایشو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھی۔ شروع میں حکمت عملی یہ بھی کامیاب رہی کہ مہنگائی کی ساری ذمے داری گزشتہ حکومتوں پر ڈال دی جائے۔ لیکن اب وہ وقت آگیا ہے کہ حکومت مزید یہ ذمے داری گزشتہ حکومتوں پر نہیں ڈال سکتی۔ وہ وقت آگیا ہے جب حکومت کو اب اپنے ہر اچھے کام کی خود ذمے دار اٹھانی ہوگی۔

میں سمجھتا ہوں کہ اپوزیشن ایک طرف مہنگائی کو ایشو بنانے میں کامیاب ہوئی ہے اور اس نے مہنگائی کے ایشو پر حکومت کو دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ اپوزیشن ایک مربوط حکمت عملی کے تحت حکومت کو الجھائے رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ جس طرح گندم اور چینی کی قیمتوں کو ایشو بنایا جا رہا ہے، یہ بھی حکومت کو الجھانے کی ایک حکمت عملی ہے۔

یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں گندم اور چینی کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ حکومت گندم اور چینی کے معاملہ کو سمجھنے سے ہی قاصر رہی ہے۔ اس لیے کبھی برآمد کر رہی اور کبھی درآمد کر رہی ہے۔ اس ضمن میں حکومت کی نااہلی اور نا تجربہ کاری کھل کر سامنے آگئی ہے۔ اپوزیشن اس کا بھر پور فائدہ اٹھا رہی ہے۔ لیکن اس معاملہ کا دوسرا رخ بھی ہے۔

فرض کر لیں اگر حکومت نے گندم اور چینی کی قیمتیں کم بھی کر لیں تو کیا ملک میں مہنگائی کم ہو جائے گی۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ گندم اور چینی کی قیمتیں کم کرنے میں حکومت کی اتنی محنت لگ جائے گی کہ اس کے بعد حکومت مزید کچھ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوگی اور دوسری طرف مہنگائی بھی اپنی جگہ موجود ہوگی ۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت کو اس بات کا احساس نہیں ہے۔

میں سمجھتا ہوں حکومت کو مہنگائی  کے اصل محرکات کا علم ہے۔ لیکن وہ ان کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔ کیونکہ شاید حکومت کے پاس بھی اس کا کوئی حل نہیں ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن بھی ان مسائل پر تحریک کے دوسرے مرحلہ میں بات کرنا چاہتی ہے۔

حکومت مہنگائی کے حوالے سے شدید دباؤ میں آچکی ہے۔ اسی لیے آئی ایم ایف سے اس کا پروگرام مزید آگے چلانے سے معذرت کی گئی ہے۔ حکومت نے بجلی مزید مہنگی کرنے سے انکار کیا ہے۔ ملک میں تین سو ارب کے نئے ٹیکس لگانے سے آئی ایم ایف سے معذرت کی گئی ہے۔یہ خوش آیند ہے کہ کم از کم حکومت کو احساس تو ہو گیا ہے کہ عوام کی بس ہو گئی ہے اور اب عوام پر مزید بوجھ ڈالنا ممکن نہیں ہے۔ کہیں نہ کہیں حکومت کے اندر یہ احساس بھی پیدا ہو گیا ہے کہ اب قیمتیں کم کرنے کی ضرورت ہے۔ تا ہم حکومت اس ضمن میں بے بس نظر آرہی ہے اور اس بے بسی کا اظہار کرنے سے بھی قاصر ہے۔

گندم اور چینی گھر کے بجٹ کا اتنا بڑا حصہ نہیں ہیں کہ ان دو آئٹم سے گھر کا بجٹ خراب ہو جائے۔ گاؤں میں لوگوں کے پاس اپنی گندم ہوتی ہے۔ اور شہروں میں بھی آٹا گھر کے بجٹ کا بڑا حصہ نہیں ہے۔ ان کی بازگشت زیادہ ہے لیکن ان کا گھر کے بجٹ پر اثر زیادہ نہیں ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پہلے سمجھے کہ ایک مڈل کلاس گھر کے بجٹ میں ایسا کیا ہوا ہے کہ مہنگائی نے گھر کا بجٹ خراب کر دیا ہے۔میں نہیں مانتا کہ صرف آٹا اور چینی کی مہنگائی نے غریب اور بالخصوص مڈل کلاس کے گھریلو بجٹ کو خراب کر دیا ہے۔ آٹا اور چینی کا شور اپنی جگہ، ان کی سیاسی اہمیت اپنی جگہ لیکن گھریلو بجٹ میں ان کا حصہ اتنا بڑا نہیں ہے کہ سارا بجٹ اپ سیٹ کر سکیں۔

سب سے عجیب بات یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے مہنگائی سے نبٹنے کے لیے کوئی خاص حکمت عملی نہیں بنائی جا رہی ہے۔ وہی فرسودہ سستے اور سہولت بازاروں کا نظام۔ کس کو نہیں معلوم کہ یہ سب طریقے فیل ہو چکے ہیں۔ ہر بار فیل ہوئے ہیں۔ اس بار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں۔ کس کو نہیں معلوم کہ ان سستے اور سہولت بازاروں میں غیر معیاری اشیا ملتی ہیں۔ لوگ یہ اشیا کھانا پسند نہیں کرتے۔ اسی طرح یوٹیلیٹی اسٹور کا فارمولہ بھی فیل ہو چکا ہے۔ اب یہ یوٹیلیٹی اسٹورز معاشرہ میں سستی اشیا کی فراہمی کا ذریعہ بننے کے بجائے حکومت پر مالی بوجھ بن چکے ہیں۔ حکومت نے آتے ہی ان یوٹیلیٹی اسٹورز سے جان چھڑانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن احتجاج کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ اس لیے حکومت کے اب تک کے اقدامات سے ایسی کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آئی ہے جن سے مہنگائی کے جن کو قابو کیا جا سکے۔

حکومت کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اس وقت ایک عام آدمی کے لیے بجلی گیس کے بل ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔ موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدوں کی پاسداری کے لیے بجلی اور گیس کے نرخ اتنے بڑھا دیے ہیں کہ بجلی اور گیس کے بل عام آدمی کی سکت سے باہر ہو گئے ہیں۔ بالخصوص مڈل کلاس نے اپنا لائف اسٹائل ایسا بنا لیا ہوا ہے جس میں بجلی اور گیس کا استعمال ناگزیر ہو گیا ہے۔

اس لیے اب تنخواہ اور آمدنی  کا ایک بڑا حصہ بجلی اور گیس کے بلوں میں چلا جاتا ہے۔ جس کے بعد باقی ضروریات کے لیے اتنی رقم ہی نہیں بچتی کہ اس سے گزارا ممکن ہو سکے۔ بجلی گیس کے بل اور پٹرولیم کی قیمتوں کے بعد گھر کا بجٹ عملی طورپر ناممکن ہو گیا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر بالفرض حکومت آٹا اور چینی سستی بھی کر لے تب بھی مہنگائی میں کوئی خاص کمی نہیں آئے گی۔

یہ درست ہے کہ سبزی ،صابن، شیمپو، گھی، گوشت سمیت سب کچھ ہی مہنگا ہو گیا ہے۔ شایدکسی کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے کہ سب کچھ کیوں مہنگا ہوا ہے۔ حکومت نے گزشتہ دو سال میں ایک مربوط حکمت عملی کے تحت ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔ادویات کی قیمتوں میں اضافہ بھی گھریلو بجٹ پر بہت بڑا اثر ڈال رہا ہے۔ اس لیے حکومت کو احساس کرنا ہوگا کہ جب تک ان تمام اشیا کی قیمتوں میں کمی نہیں کی جائے گی جو گھریلو بجٹ کا بڑا حصہ ہیں تب تک عوام مہنگائی میں کمی کو محسوس نہیں کریں گے۔

حکومت کی جانب سے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے مصنوعی اقدامات نہ حکومت کے لیے کوئی نیک نامی لائیں گے اور نہ ہی ان کا کوئی فائد ہ ہوگا۔ اور مہنگائی کو کم کرنا ہے تو بجلی گیس پٹرولیم اور ادویات کی قیمتوں میں اضافہ واپس لینا ہوگا۔ روپے کی قدر میں کمی بھی مہنگائی کی وجہ ہے۔ لیکن شور آٹا اور چینی کا ہے۔ شاید اپوزیشن حکومت کو بیوقوف بنا کر الجھانا چاہتی ہے اور حکومت کو بھی بیوقوف بننے میں مزا آرہا ہے۔ بس یہی حقیقت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔