کیا پاکستان کےلیے صدارتی نظام بہتر ہوسکتا ہے؟

مسعود احمد  منگل 3 نومبر 2020
صدارتی نظام میں، پارلیمنٹ یا مقننہ کے ممبران اپنی توجہ قانون سازی پر مرکوزرکھتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

صدارتی نظام میں، پارلیمنٹ یا مقننہ کے ممبران اپنی توجہ قانون سازی پر مرکوزرکھتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

7 اگست 2018 کو بھارتی کانگریس کے رہنما ڈاکٹر ساشی تھرور نے دی پرنٹ میگزین میں ایک کالم لکھتے ہوئے کہا کہ مودی کی چار سالہ حکمرانی نے انہیں اس بات پر قائل کرلیا ہے کہ ایک صدارتی نظام ہندوستان کےلیے موزوں ہوگا۔ ان کی دلیل کا دائرہ اس حقیقت کے گرد گھوما کہ مودی بڑے پیمانے پر پارلیمنٹ کو نظرانداز کرتے ہیں اور غیر منتخب بیوروکریٹس کی مدد سے اہم فیصلے کرتے ہیں۔ میں پاکستان میں صدارتی نظام کےلیے بھی بحث کروں گا، لیکن میری دلیل انتخابات کی سیاسی معیشت پر مبنی ہوگی۔

سیاسی دانش وروں اور فلسفیوں نے طویل عرصےمیں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایک کامل سیاسی نظام کی تشکیل ممکن نہیں ہے۔ پھر بھی اگر کوئی نظام توقعات کے مطابق کام نہیں کررہا تو پھر کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ایک بڑھتی ہوئی بحث یہ ہورہی ہے کہ موجودہ پارلیمانی نظام ہندوستان اور پاکستان دونوں میں مسائل حل کرنے اور عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہا ہے۔ پاکستان میں فوج کی طرف سے باقاعدہ مداخلت اور اقتدار پر قبضہ کرنے کی وجہ سے اس دلیل کو اتنی قبولیت حاصل نہیں ہے۔ ہندوستانی معاملے میں پارلیمانی جمہوریت کی طویل روایت اور اس کے نتیجے میں ترقیاتی اہداف کی تکمیل میں ناکامی نے پارلیمانی نظام حکومت کی افادیت پر شدید شکوک و شبہات پیدا کردیئے ہیں۔

تو پھر پارلیمانی نظام خصوصاً پاکستان میں رائج نظام میں کیا غلط ہے؟ بظاہر کچھ بھی نہیں۔ لوگ اپنے من پسند رہنماؤں کو ووٹ دیتے ہیں جو پارلیمنٹ میں وزیراعظم کا انتخاب کرتے ہیں اور قانون سازی اور ترقیاتی فیصلے لیتے ہیں۔ پاکستان میں انتخابی سیاست کے ڈھانچے کو مزید گہرائی سے تلاش کیجئے اور آپ دیکھیں گے کہ یہ کتنا نقائص سے بھرپور ہے اور سیاستدان کس طرح ان خامیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دولت و اقتدار میں اضافہ کرتے ہیں اور عوام کو خوشحالی اور وقار سے محروم رکھتے ہیں۔ سیاستدانوں کی دولت اور آسائش کی کوئی انتہا نہیں ہے، لیکن لوگ صحت، تعلیم، پانی، بجلی اور رہائش وغیرہ جیسی بنیادی ضروریات کےلیے جتن کرتے ہیں۔

پارلیمانی نظام میں چیف ایگزیکٹیو، یعنی وزیراعظم، ہمیشہ لازمی فیصلے کرنے کےلیے پارلیمانی اکثریت پر منحصر ہوتا ہے، اور پارلیمنٹیرین معاشی اور سیاسی فوائد لینے کےلیے اسے بلیک میل کرنے کےلیے اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ لٹکی ہوئی پارلیمنٹ کے معاملے میں مزید خراب ہوتا ہے جہاں حکمران جماعت پارلیمنٹ میں اکثریت قائم کرنے کےلیے دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک نازک اتحاد میں داخل ہوتی ہے۔ اس معاملے میں وزرائے اعظم کو اتحادی ممبروں کی خواہشوں کے سامنے جھکنا پڑتا ہے اور وہ آزادانہ اور جلدی سے اہم فیصلے نہیں لے سکتے۔ پاکستان میں قومی اسمبلی اور سینیٹ جیسے دو ایوانوں کے معاملے میں اگر حکمران جماعت دونوں ایوانوں پر قابو نہیں رکھتی ہے تو فیصلہ کرنا زیادہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف بل پر حالیہ تعطل ان مثالوں میں سے ایک ہے جہاں حزب اختلاف صرف دوسرے معاملات پر راحت حاصل کرنے کےلیے کلیدی قانون سازی کو روک رہی ہے۔

پاکستان میں موجودہ انتخابی نظام شخصیت پرستی کی سیاست پر مبنی ہے، جہاں ہر سیاستدان سیاسی مقابلہ کو بطور سرمایہ کاری سمجھتا ہے اور منتخب ہونے پر سیاسی اور معاشی منافع تلاش کرتا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ خاص طور پر حکمران جماعت کے ہمیشہ قانون سازی (جس کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہ ان کا بنیادی کام ہے) کے بجائے طاقتور اور وسائل مند وزارتوں، بجٹ اور ترقیاتی منصوبوں کو حاصل کرنے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں تحفظ اسلام بل ایک حالیہ مثال ہے جہاں اسمبلی ممبران نے متنازعہ بل کو بغیر پڑھے ہی منظور کرلیا۔ یہ صرف ایک مثال ہے کہ پارلیمنٹ کے بیشتر ارکان بامقصد قانون سازی میں کس قدر کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ کیونکہ ان میں سے زیادہ تر سیاستدان وزارتوں اور ترقیاتی منصوبوں کو چلانے کے اہل نہیں ہیں اور چونکہ ان کا سب سے اہم ہدف یہ ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کریں، لہٰذا وہ ترقیاتی وسائل صرف ان علاقوں میں خرچ کرتے ہیں جہاں سے انہیں ووٹ ملتے ہیں۔ اور ایک امیدوار کو جیتنے کےلیے زیادہ سے زیادہ 51 فیصد ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ایک ہی نشست کےلیے متعدد امیدواروں کی دوڑ کے باعث بہت سے افراد کو اس سے بھی کم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ملک بھر میں غیر مساوی ترقی اسی کا نتیجہ ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کراچی پر صرف اس لیے خرچ نہیں کرتی کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ کراچی کے عوام انہیں ووٹ نہیں دیتے۔

سیاستدانوں کی دولت اور طاقت کا مسلسل جمع ہونا ان کو اتنا مضبوط بناتا ہے کہ انتخابات ان کے مخالفین کےلیے غیر مقابلہ بن جاتے ہیں۔ بہت سارے سیاستدان ہر بار آسانی سے انتخابات جیت جاتے ہیں، اس سے قطع نظر کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں اور سابقہ ادوار میں ان کی کارکردگی کیا تھی۔ انتخابات کی مسابقت میں کمی سے ترقی پسند قانون سازی یا ترقی میں حصہ لینے کےلیے سیاستدانوں کی دلچسپی کم ہوجاتی ہے۔ جب سیاستدان انتخابات جیتنے کےلیے ذاتی طور پر ذمے دار ہوجاتا ہے، اور ممکنہ جیت بڑے سیاسی اور معاشی فوائد لاتی ہے، تو وہ کامیابی کےلیے ہر حربے کا استعمال کرتا ہے۔ ان حربوں میں نہ صرف ہدف بنائے گئے اخراجات بلکہ معلومات کی ہیراپھیری اور نسلی اور فرقہ وارانہ کارڈ استعمال کرنے جیسے دوسرے ذرائع بھی شامل ہیں۔

ایک احتیاط سے ڈیزائن کیا گیا صدارتی نظام ان خامیوں میں سے اگر سب کو نہیں تو پھر بھی بہت کو حل کرسکتا ہے۔ عام طور پر صدر کا انتخاب براہ راست ووٹ کے ذریعے ہوتا ہے، اور انتخابی چکر اس وقت تک دہرایا جاتا ہے جب تک کہ اسے ڈالے جانے والے کل ووٹوں کا 50 فیصد سے زیادہ حاصل نہ ہو۔ یہ عمل اسے ملک کی اکثریتی آبادی کے براہ راست اعتماد کا جواز فراہم کرتا ہے۔ ایک بار منتخب ہونے کے بعد، وہ اپنی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کےلیے وسیع پیمانے پر ایگزیکٹیو اختیارات حاصل کرتا ہے۔ صدارتی نظام کی ایک اچھی چیز یہ ہے کہ ایگزیکٹیو کو مقننہ سے الگ کیا جاسکتا ہے۔ صدر مملکت ملک چلانے کےلیے اپنی پسند کی ایک ٹیم کو اکٹھا کرسکتے ہیں۔ عام طور پر اسے اپنے انتظامی فیصلوں میں مقننہ کی منظوری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مقننہ صرف ایوان زیریں اور ایوان بالا دونوں میں دو تہائی اکثریت سے اسے اپنے اقدامات سے روک سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے مقننہ کے ممبروں کو اس کو بلیک میل کرنے اور ان کے فیصلوں پر عمل درآمد میں رکاوٹیں پیدا کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ مقننہ میں عام طور پر صدر اور ان کی ٹیم کی کارکردگی پر نظر رکھنے کےلیے مختلف کمیٹیاں ہوتی ہیں۔

صدارتی نظام میں، پارلیمنٹ یا مقننہ کے ممبران بنیادی طور پر اپنی توجہ قانون سازی پر مرکوزرکھتے ہیں، نہ کہ وزارتوں اور ترقیاتی منصوبوں کو چلانے پر۔ اس سے ان کے پاس ایگزیکٹیو فیصلہ سازی میں مصروف رہنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی جو بدعنوانی اور دولت جمع ہونے کی راہیں کھولتی ہے۔ مدت کی حدود اور مواخذے سے صدر کے اقتدار کی جانچ ہوتی ہے۔ عام طور پر صدر صرف دو مرتبہ منتخب ہوسکتا ہے۔ صدر کے مواخذے کےلیے عام طور پر دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اس نے ریاست اور معاشرے کی سلامتی اور بہتری کے خلاف کوئی کام نہیں کیا تو اس کا مواخذہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ جب براہ راست ووٹ صدر کا انتخاب کرتے ہیں تو وہ مخصوص جغرافیے یا لوگوں کے گروہ کو فائدہ پہنچانے میں مشغول نہیں ہوتا۔ اس طرح ناہموار ترقی کے امکانات کم ہوتے ہیں۔

پاکستان کےلیے بھی اس طرح کے نظام کا تصور کرنا چاہیے تاکہ اقتدار اور دولت کے حصول کےلیے کی جانے والی سیاست کو کم کیا جاسکے۔ صدر اور گورنرز کا انتخاب دو مدت کی حد کے ساتھ براہ راست ووٹوں کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔ انہیں تیسری مدت کےلیے انتخاب لڑنے سے روک دیا جانا چاہیے۔ مواخذے کی صورت میں بھی مزید انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی ہونی چاہیے۔ وفاقی اور صوبائی دونوں سطح پر پارلیمنٹ کے دوسرے ممبروں کو صرف قانون سازی اور نگرانی کرنے والے اداروں کو چلانے میں مشغول ہونا چاہیے، نہ کہ ایگزیکٹیو اور انتظامی امور میں۔ اس طرح کا نظام ضروری استحکام بھی لاسکتا ہے اور ترقی میں درکار توازن کو بھی بحال کرسکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مسعود احمد

مسعود احمد

لکھاری کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے۔ آج کل نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور سے پبلک پالیسی میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ آزاد کشمیر کی تعمیرو ترقی میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر آئی ڈی @masoodthinketh پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔