آپ کے گھر ماسی نہیں آتی؟

راضیہ سید  منگل 3 نومبر 2020
اکثر گھرانوں میں سارا نظام نوکرانی پر چھوڑ کر خود آرام کیا جاتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اکثر گھرانوں میں سارا نظام نوکرانی پر چھوڑ کر خود آرام کیا جاتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یہ صرف آج کی نہیں بلکہ ہمیشہ کی ٹینشن ہے کہ آج پھر ماسی نہیں آئی۔ کیونکہ پہلے تو گھر میں کام کرنے والے ملازمین کی تلاش ایک مشکل امر ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ہر بندہ قابل اعتبار نہیں کہ وہ آپ کے گھر کا آپ کی طرح خیال رکھ سکے۔ اور اگر مل بھی جائے تو پھر ان کے نخرے دیکھو۔ کبھی تنخواہ بڑھانا تو کبھی کھانا پینا، کپڑے جوتے بھی ساتھ دینا، ان سب سہولتوں کی فراہمی اب ایک طرح کی روایت بن چکی ہے۔

یہ ہے ایک سائیڈ کے لوگوں کی رائے اور دوسری طرف ایسے افراد ہیں جن کا یہ ماننا ہے کہ گھروں میں کام کرنے والے افراد کے ساتھ باقاعدہ زیادتی کی جاتی ہے۔ نہ تو ان کا مشاہیرہ مناسب ہوتا ہے اور نہ ہی انھیں چھٹی لینے کےلیے کوئی رعایت دی جاتی ہے، الٹا ایک دن بھی وہ چھٹی کرلیں تو اگلے دن ایک طوفان ان کا منتظر ہوتا ہے اور قلیل تنخواہ میں سے بھی کٹوتی ہوجاتی ہے۔

اس سارے منظرنامے میں دونوں مکاتیب فکر کی باتیں درست بھی ہیں اور غلط بھی۔ ہم نے گھر میں کام کرنے والے خدمت گزاروں کو انسان سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ کبھی انھیں باسی سالن اور روٹی دے دی جاتی ہے تو کبھی کسی بہانے سے ایسے کپڑے دے دیے جاتے ہیں جو ہمارے تو کیا کسی کے بھی پہننے کے قابل نہیں ہوتے۔ گھروں میں کام کرنے والے بچے تو اور بھی مظلوم ہیں کہ ان کے ماں باپ کو ان کی بالکل پروا نہیں ہوتی، مالکان ان کے ساتھ حد درجہ برا سلوک روا رکھتے ہیں اور پھر انھیں کوئی کڑی سزا بھی نہیں ملتی۔

کیونکہ ہمارے ہاں قانون صرف اور صرف کاغذوں کا پیٹ بھرنے اور سیاہی بھرے قلم خالی کرنے کےلیے بنے ہیں تو جب یہ صرف کاغذی کارروائی ہی ہے تو ظاہر ہے اس کے اطلاق کےلیے اقدامات اور ان کا انتظار کرنا چہ معنی دارد؟

لیکن آج کے اس دور کا ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے کام کرنے کو عار سمجھ لیا ہے۔ خواتین یہ بالکل نہیں چاہتیں کہ مارننگ شو میں ہونے والی شادی بیاہ کی رسومات، بیوٹی ٹپس اور نت نئے کھانوں کی ترکیبیں دیکھنا چھوڑ کر گھر کے برتن ہی مانجھ لیں۔ زیادہ برا تو تب ہوتا ہے کہ بہت سی خواتین کھانوں کی تراکیب نوٹ کرتی ہیں اور بچوں کی شکایت یہ ہوتی ہے کہ آج پھر ٹینڈے پکا لیے گئے۔

زیادہ تر گھروں کا نظام ایسا ہوتا ہے کہ سارا گھر نوکرانی پر چھوڑ کر خود آرام کیا جارہا ہے۔ ہاں جب کچھ چوری ہوگیا اور برتن گندے دھل گئے، نوکرانی سیاہ و سفید کی مالک بن کر اچانک چھٹی کرگئی اور آپ کو دوبدو جواب دینے لگی تب آپ کو علم ہوا کہ اب تو پانی سر سے گزر گیا۔

دیکھا جائے تو ہماری زندگی سوال در سوال بن کر رہ گئی ہے۔ آج اس خاندان کو بہت ہی معیوب سمجھا جاتا ہے جن کے گھروں میں میڈ نہیں۔ جو لوگ اپنے گھر کا کام خود کرلیتے ہیں انھیں بڑی آسانی سے یہ کہہ دیا جاتا ہے بھئی آپ تو بہت کنجوس ہیں، دفتر سے آنے کے بعد بھی گھر کا کام خود ہی کرتے ہیں بھئی کوئی نوکرانی ہی رکھ لیں۔ مطلب ماسی، نوکرانی، میڈ، گھروں میں کام کرنے والیاں بھی اب ایک اسٹیٹس سمبل بن گئی ہیں۔ جس کے مطابق انسان کی زندگی معاشرتی اور معاشی اعتبار سے تولی جانے لگی ہے۔

کسی بھی انسان کی اہمیت اور عظمت یوں محسوس نہیں کی جاتی کہ وہ اپنے گھر کے کام خود سرانجام دیتا ہے، بلکہ اس کے گھر میں کام کرنے والے نوکروں کی تعداد سے اس کے معاشی رتبے اور اس کی عزت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔

یہ رویہ آخر کب تبدیل ہوگا؟ کب ہم گھر کا کام کرنے والے ملازموں سے امیتازی سلوک بند کریں گے؟ کب ہم انھیں بھی انسان سمجھیں اور ان کو تازہ کھانا اور معقول مشاہیرہ دیں گے اور کب تک اپنے گھروں کا کام خود کرنے میں شرم محسوس نہیں کریں گے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راضیہ سید

راضیہ سید

بلاگر نے جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کیا ہوا ہے اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور پروڈیوسر، رپورٹر اور محقق وابستہ ہیں۔ بلاگز کے علاوہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔