متنازع بلدیاتی آرڈیننس کیخلاف متحدہ کا احتجاجی مظاہرہ، سندھ کو تقسیم کرنیکی بنیاد رکھی جارہی ہے، مقررین

اسٹاف رپورٹر  پير 23 دسمبر 2013
 کراچی پریس کلب کے سامنے متحدہ قومی موومنٹ کے تحت بلدیاتی آرڈیننس کیخلاف مظاہرے سے ڈپٹی کنوینر رابطہ کمیٹی خالد مقبول صدیقی خطاب کررہے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

کراچی پریس کلب کے سامنے متحدہ قومی موومنٹ کے تحت بلدیاتی آرڈیننس کیخلاف مظاہرے سے ڈپٹی کنوینر رابطہ کمیٹی خالد مقبول صدیقی خطاب کررہے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

کراچی: سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013اور حلقہ بندیوں کیخلاف متحدہ قومی موومنٹ کے تحت اتوار کوکراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

مظاہر ے کے شرکا نے متفقہ قراردادیں منظورکرتے ہوئے بلدیاتی نظام کومسترد اور اسے سندھ کی تقسیم کی سازش قراردیااور مطالبہ کیاکہ آئین کے آرٹیکل 140Aکے تحت مقامی حکومتوں کا قانون جلد از جلد نافذ کیا جائے جس میں وسائل کا اختیار مقامی نمائندوں کو دیا جائے، سندھ میں منصفانہ حلقہ بندیوں کیلیے شفاف اور غیر جانبدارانہ مردم شماری فوج یا عدلیہ کی نگرانی میں کرائی جائے ۔احتجاجی مظاہرے میں ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے ارکان ، حق پرست ارکان سینیٹ ، قومی وصوبائی اسمبلی کے علاوہ بزرگوں، نوجوانوںاور خواتین نے بڑی تعدا میں شرکت کی،مظاہرے کے شرکا نے اپنے ہاتھوں میں پاکستانی پرچم ، ایم کیوایم کے جھنڈے اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013کے خلاف مذمتی کلمات اور ایم کیوایم کے حق میں نعرے تحریرتھے،شرکا نے بینرز اور پلے کارڈ فضا میں بلندکرکے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کیخلاف نامنظور ،نامنظور ، غنڈہ گردی نہیں چلے گی کے نعرے لگائے۔

مظاہرے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہاکہ سندھ میں شہری آبادی60فیصد اور دیہی آبادی40 فیصد ہے ، ایم کیوایم کسی بھی صورت میں سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس2013ء کے سیاہ قانون کونہیں مانے گی ، کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ایم کیوایم انتخابات کابائیکاٹ کردے لیکن ان پرہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم انتخابات میں حصہ لیں گے کیونکہ ہم نے حصہ نہیں لیا توکوئی بھی نہیں لے سکتا، انھوں نے کہاکہ کالے آرڈیننسوں کے ذریعے سندھ کی تقسیم کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی گئی ہے ، خلیج کوگہرا کیاجارہا ہے جسے روکنا مشکل ہوجائے گا، شہرکراچی سندھ کے بجٹ کا99فیصد دیتا ہے ، اگر یہ دینا بندکردیا جائے توجس ایوان میں یہ کالا قانون پاس کیا ہے اس ایوان میں لائٹ جلانے کیلیے بھی پیسے نہیں ہوں گے، انھوں نے کہا کہ مقامی حکومتیںنہ ہوں تو جمہوریت نامکمل ہے ،آئین کا آرٹیکل 140Aبلدیاتی حکومت کے حوالے سے کہتا ہے کہ یہ مالی ، سیاسی ، انتظامیہ طور پر خود مختار ہوں گی اور ہم نے قسم کھائی ہے کہ جب تک بلدیاتی حکومتیں مالی ، سیاسی ، انتظامی طور پر خود مختارنہیں ہوتی ہم اسے نہیں مانیں گے۔

انھوں نے کہا کہ جرائم پیشہ افراد کیخلاف ٹارگٹڈ آپریشن کامطالبہ بھی ہمارا ہے ، لیکن ہمارے مطالبے پر صحیح روح کے مطابق عمل نہ ہوا اور فیصلے روڈ پر آکرکرنے پر مجبور ہوئے تو ضرورکریں یہ جدوجہد کا اختتام نہیں آغاز ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ایم کیوایم کے کارکنان و عوام پاکستان اور اس کے آئین و قانون سے محبت کرتے ہیں اور آج یہ ایک سیاہ قانون کی میت کو دفنانے اور جنازہ اٹھانے کیلیے یہاں جمع ہیں ، یہ اجتماع ابھی روکا ہوا ہے اور اگر اسے چلنے کا کہا گیاتو وہ اسمبلی بلڈنگ بھی جاسکتا ہے، انھوں نے واضح کیا کہ ہم کسی سے ٹکرانا نہیں چاہتے لیکن اگر اصولوں پر بات آجائے تو ٹکرانا ضروری ہے ، متحدہ قومی موومنٹ سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندہ جماعت ہے ، یہ اس پر لازم ہے کہ جن لوگوں کا وہ مینڈیٹ رکھتی ہے ان کے حقوق کے تحفظ کیلیے اگر ایوانوں میں فیصلہ نہیں ہورہا ہے تو سڑکوں پر آکرکرے ، اگر فیصلہ ووٹ نے نہیں کیا تو فیصلہ پھر روڈ پر ہوگا، رابطہ کمیٹی کے رکن حیدرعباس رضوی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کا احتجاج ایم کیوایم اور سندھ کے عوام کی جانب سے کالے قانون کیخلاف ہے جو جبر کا نظام بلدیاتی اداروں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں ، سندھ کے غیور اورجمہوریت پسند عوام ظلم کے خلاف اس نظام اور قانون کو تسلیم نہیں کریں گے۔

 photo 1_zps41acb675.jpg

انھوں نے کہا کہ جو کہتے ہیں کہ اکثریت جسے منظور کرے وہی قانون ہے تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ دیہی اکثریت جو نمائندوں کی ہو اور عوام کی اکثریت نہ ہو تو وہ اکثریت قرار نہیں دی جاسکتی ، اگر سندھ میں ایماندرانہ مردم شماری کرالی جائے تو پوری دنیا کو اندازہ ہوجائے گا کہ کون اکثریت میں اور کون اقلیت میں ہے ، انھوں نے کہاکہ ہم سندھ کے بیٹے ہیں اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ وہ ہم سے سندھ دھرتی چھین لے گا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے، سندھ کے بیٹے کی حیثیت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ کراچی ، حیدرآباد اور دیگر شہروں میں ہمیں آبادی کی بنیاد پر مساوی حصہ دیاجائے ۔ رابطہ کمیٹی کے رکن ڈاکٹر صغیر احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی ، قائد تحریک الطاف حسین کے مینڈیٹ پر شب خون مارنے کی سازش کررہی ہے ، سندھ کے عوام سندھ حکومت کی اس سازش کو ہرگزکامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔ انھوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی سیاہ قانون کے ذریعہ من مانے فیصلے اور مکروہ عزائم پورے کرنا چاہتی ہے ، سندھ کے عوام اس آمرانہ ، ظالمانہ اور سیاہ قانون کو مسترد کرتے ہیں ۔

سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فیصل سبزواری نے کہا کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013عوام کے حقوق پر ڈاکہ ہے ، ایم کیوایم عام آدمی کے حقوق کی سیاست کرتی ہے اور اس سیاست پر ہمیں فخر ہے ، ہمارا حتجاج اس لیے ہے کہ یہاں نافذ کیا گیا قانون ظالمانہ اور سیاہ ہے اس قانون کے تحت صوبائی حکومت مقامی حکومتوں کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ قائد تحریک الطاف حسین اور ایم کیوایم کے سوائے کوئی سیاہ بلدیاتی نظام کے خلاف کھڑا نہیں ہوا اورجن جماعتوں نے ہماری آواز میں آواز ملائی ہے ہم ان کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔ ۔سندھ اسمبلی میں متحدہ کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ سندھ اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر عوام کے حقوق غصب کرنا آمریت ہے ، حکومت سندھ طاقت کے بل پر غریب و متوسط طبقہ کے عوام کو حقوق سے محروم اور سندھ کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے سندھ ہائی کورٹ میں اس سیاہ قانون کو چیلنج کردیا ہے ، ہمیں عدالتوں سے انصاف کی امید ہے اور ہمیں یقین ہے کہ عدلیہ عوام کے حقوق غصب کرنے والے قانون کو کالعدم قرار دے گی مسلم لیگ (ن ) کے رہنما عبدا لرزاق راہمو نے متحدہ قومی موومنٹ کے تحت سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کے خلاف احتجاجی ریلی کی مسلم لیگ( ن )کی جانب سے بھر پور حمایت کی اور کہا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے اندرون سندھ میں بھی انتخابات سے قبل دھاندلی کا سلسلہ شروع کردیا ہے ، ڈسٹرکٹ تھر پار کر میں پی پی پی کے رکن سندھ اسمبلی کے بھائی کو دس روز قبل ڈسٹرکٹ میں اعلیٰ عہدے پر فائزکیا گیا ہے،ہم اس ایکٹ اورسندھ میں حلقہ بندیوں کو مسترد کرتے ہیں اور اس ایکٹ کے خلاف تمام اپوزیشن جماعتیں متحد ہیں ۔

حق پرست رکن سندھ اسمبلی ہیر سوہو نے کہا کہ سندھ کے عوام حکومت سندھ کے غیر جمہوری اقدامات پر سراپا احتجاج ہیں، مظاہرے میں ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈی نینس کے خلاف قرار ادیں پیش کیں جسے شرکانے ہاتھ اٹھا کر متففقہ منظورکرلیا ، پہلی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 140Aکے تحت مقامی حکومتوں کا قانون جلد از جلد نافذ کیاجائے جس میں وسائل کا اختیار مقامی نمائندوں کو دیا جائے،دوسری قرار داد میں اس نظام کے تحت شفاف اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ممکن بنایاجائے اور حلقہ بندی سمیت دیگر امور کو شفاف طریقے سے طے کیاجائے ،تیسری قرار داد پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سندھ میں منصفانہ حلقہ بندیوں کیلیے شفاف اور غیر جانبدارانہ مردم شماری فوج یا عدلیہ کی نگرانی میں کرائی جائے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔