عمران خان پر اداروں پر حملے کے الزامات ناکافی ہیں، تحریری فیصلہ جاری

ویب ڈیسک  منگل 3 نومبر 2020
21 ہزار لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تھی، مقدمہ صرف 131 لوگوں کے خلاف درج کیا گیا، عدالت

21 ہزار لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تھی، مقدمہ صرف 131 لوگوں کے خلاف درج کیا گیا، عدالت

 اسلام آباد: پارلیمنٹ اور وزیراعظم ہاؤس حملہ کیس میں عمران خان کی بریت کا تحریری فیصلہ جاری کردیا گیا۔

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس نے 9 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس کے مطابق  30 اگست کی رات دس بج کر پندرہ منٹ پر پارلیمنٹ کے سامنے ریڈزون میں پیش آنے والے واقعے کا مقدمہ دوسرے روز درج کروایا گیا، تھانہ جائے وقوعہ سے دوکلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر ہونے کے باوجود 16 گھنٹے بعد مقدمہ درج کروایا گیا، کیس فوری درج نہ کرانے کی معقول وجہ ریکارڈ پر نہیں لائی گئی۔

تحریری فیصلے کے مطابق عمران خان کے خلاف مقدمے میں قتل، اقدام قتل، دہشتگردی یا دیگر جرائم کے ارتکاب کا الزام نہیں، بلکہ ان پر سیاسی جماعت کے سربراہ کے طور پر کارکنان کو سیاسی تقریر سے پارلیمنٹ اور وزیراعظم ہاؤس پر حملے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کیلئے اکسانے کا الزام ہے، پولیس نے ضمنی چالان میں کہا کہ عمران خان نے کارکنوں کو ایک پتہ بھی توڑنے سے نہیں روکا اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے سے دوٹوک منع نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم عمران خان پارلیمنٹ حملہ کیس میں بری

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ پراسیکیوشن کے مطابق پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کی قیادت نے 21 ہزار کارکنوں کو پارلیمنٹ اور وزیراعظم ہاؤس کی جانب پیش قدمی کی ہدایات دیں، لیکن چند وجوہات کی بنا پر وقوعے کا مقدمہ صرف 131 لوگوں کے خلاف درج کیا گیا، اگر وقوعہ کے روز اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ تھا تو تمام 21 ہزار لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تھی، اتنے بڑے ہجوم کو دفعہ 144 نافذ ہونے کے باوجود اسلام آباد اور بالخصوص ریڈزون میں داخل ہو کر دھرنا دینے کی اجازت کیوں دی گئی، ملزمان کے خلاف خاص جرم کے تحت نہیں بلکہ عمومی نوعیت کے مقدمات درج کیے گئے۔

عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ پبلک پراسیکیوٹر نے خود کہا کہ مقدمہ سیاسی مخالفت میں درج کیا گیا اور کوئی ایسے شواہد اکٹھے نہیں کیے گئے جو پراسیکیوشن کے کیس کو فائدہ دے سکیں، اور یہ کہ عمران خان کے خلاف کیس مزید چلانا قیمتی عدالتی وقت کو ضائع کرنے کے مترادف ہوگا۔

عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ عمران خان کی تقریر کی ویڈیو ریکارڈنگ یا ٹرانسکرپٹ کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا، تقریر کے واضح الفاظ کی غیر موجودگی میں عمران خان پر سرکاری املاک اور اداروں پر حملے کیلئے مشتعل کرنے کے الزامات ناکافی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔