سندھ کی جیلوں میں جعلی قیدیوں کی موجودگی پر آئی جی جیل خانہ طلب

کورٹ رپورٹر  منگل 3 نومبر 2020
سندھ کی تمام جیلوں میں جدید نظام سے قیدیوں کی مانیٹرنگ ہوگی، اسسٹنٹ پراسیکیوٹر فوٹو: فائل

سندھ کی تمام جیلوں میں جدید نظام سے قیدیوں کی مانیٹرنگ ہوگی، اسسٹنٹ پراسیکیوٹر فوٹو: فائل

 کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے جیلوں میں بائیو میٹرک نظام نہ ہونے کی وجہ سے جعلی قیدیوں کو رکھنے سے متعلق سیکریٹری محکمہ داخلہ اور آئی جی جیل خانہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔

جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ کے روبرو جیل کے اندر بائیومیٹرک نظام نہ ہونے کی وجہ سے جعلی قیدیوں کو رکھنے سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔ دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ جیلوں میں بائیو میٹرک نہ ہونے سے قیدیوں کی جانچ پڑتال نہیں ہو سکتی۔ ایک قیدی کی جگہ دوسرا قیدی سزا کاٹ رہا ہوتا ہے۔ ملزمان اپنی جگہ کسی اور کو جیل کے اندر رکھواتے تھے۔

محکمہ داخلہ سندھ، آئی جی جیل خانہ جات اور اے آئی جی لیگل نے رپورٹ جمع کرادی۔ اے آئی جی لیگل کی رپورٹ کے مطابق پہلے کراچی، حیدرآباد اور سکھر کی جیلوں کو آپ گریڈ کیا جارہا ہے۔ حیدر آباد اور نوشہرو فیروز میں ابھی تک نہ اسٹاف ہے اور نہ ہی کمپوٹرز ہیں۔

اسسٹنٹ پراسیکیوٹر بیرسٹر شہریار مہر نے موقف دیا کہ جیلوں میں قیدیوں کا بائیو میٹرک کا جدید سسٹم نصب کیا جارہا ہے۔ سندھ کی تمام جیلوں میں جدید نظام سے قیدیوں کی مانیٹرنگ ہوگی۔ پہلے جعل سازی کے ذریعے دوسرے لوگوں کو قیدی بنا کر کئی کئی سال جیل میں رکھا جاتا تھا۔ جدید ٹیکنالوجی کی تنصیب سے جعل سازی سے کسی کو جیل میں قید نہیں کیا جاسکے گا۔

عدالت نے ریمارکس دیئے درخواست ٹرسٹ کی طرف سے ہے لیکن فائدہ سندھ حکومت کو ہی ہوگا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے اس میں پولیس اور محکمہ داخلہ کا ہی فائدہ ہے۔ اگر آپ نے پورے صوبے میں بائیو میٹرک کروا دیا تو آپ کو ہی آسانی ہوگی۔

عدالت نے آئندہ سماعت پر سیکریٹری محکمہ داخلہ اور آئی جی جیل خانہ جات کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔ عدالت نے سندھ حکومت کی رپورٹ پر درخواستگزار کو جواب الجواب جمع کرنے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے نادرا سے بھی پیش رفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 26 نومبر تک ملتوی کردی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے افسران کو عدالت طلب کرنے کا مقصد معاونت حاصل کرنا ہوتا ہے تاکہ کیس ٹھیک سمت میں چل سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔