فارن فنڈنگ اور تحفظات

جاوید نذیر  جمعرات 5 نومبر 2020
ملکی ترقی میں کنٹری بیوشن کو دیکھتے ہوئے فارن فنڈنگ کے قوانین میں نرمی کی جائے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ملکی ترقی میں کنٹری بیوشن کو دیکھتے ہوئے فارن فنڈنگ کے قوانین میں نرمی کی جائے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

گزشتہ کچھ عرصہ سے فارن فنڈنگ کے حوالے سے موجودہ اور سابقہ حکومتوں نے بھی قومی و بین الاقوامی تنظیموں، غیر سرکاری اور مذہبی اداروں کی فنڈنگ کے حوالے سے جو مشروط قانون سازی کی ہے، اُسے پورا کرنے کےلیے رجسٹرڈ اداروں، تنظیموں اور مذہبی اداروں کو بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

بینکوں کو پابند کردیا گیا ہے کہ وہ اکنامک افیئرز ڈویژن کی این او سی یا سرٹیفکیٹ کے بغیر فارن فنڈنگ کی ٹرانزیکشن کسی صورت بھی نہ کریں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اکنامک افیئرز ڈویژن کےلیے آپ کو اسلام آباد جانا پڑتا ہے اور اُس کےلیے ضروری دستاویزات کو تیار کرنے میں کسی کنسلٹنٹ یا لیگل ایڈوائزر کی خدمات لینی ناگزیر ہیں۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ ان تمام عوامل کو پورا کرنے کے باوجود بھی خدا جانے اکنامک افیئرز ڈویژن کی طرف سے این او سی یا سرٹیفکیٹ ملتا بھی ہے یا نہیں۔

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ کسی بھی حکومت کو ملک میں کرپشن کو روکنے کےلیے اس طرح کے قانون بنانے کا حق حاصل ہے لیکن جو لوگ اس سیکٹر سے جڑے ہیں اُن کا ماننا ہے کہ حکومتوں کو اس ضمن میں ملک بھر میں کام کرنے والی تنظیموں اور اداروں کے معروضی حالات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر ہر ضلع میں آپ نے اُن تنظیموں اور اداروں کو رجسٹرڈ کرنے کےلیے ایک ادارہ جوائنٹ اسٹاک سوسائٹی ایکٹ 1860 بنایا ہوا ہے تو حکومت اُس ادارے میں ہی اکنامک افیئرز ڈویژن کا پورشن کیوں نہیں بناتی؟ یا کسی متعلقہ شخص کو اس کےلیے تعینات کیوں نہیں کرتی؟

اگر راجن پور، صادق آباد، رحیم یار خان اور کوٹ ادو کا رہائشی اگر اکنامک افیئرز ڈویژن کے سلسلے میں اسلام آباد کے متعدد چکر لگاتا ہے اور اُس کے بعد بھی اُسے کام کرنے کی اجازت نہیں ملتی تو آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اُن کی کیا کیفیت ہوتی ہوگی۔

اکنامک افیئرز ڈویژن کی شرط کے ساتھ پنجاب حکومت کی طرف سے ان قومی و بین الاقوامی تنظیموں اور غیر سرکاری اور مذہبی اداروں کو پنجاب چیریٹی کمیشن میں رجسٹرڈ کروانا لازم قرار دے دیا گیا ہے۔ اب آپ خود سوچیے کہ ایک تنظیم اور ادارے کو اپنے ہی ملک میں کام کرنے کےلیے کس قدر مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری جانب غیر ملکی فنڈنگ کے اداروں نے اس صورتحال میں ہاتھ کھینچ لیا ہے، جس کی وجہ سے چھوٹے شہروں کے وہ لوگ جو اس سیکٹر سے جڑے تھے اُن کےلیے اس کو جاری رکھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگیا ہے۔ ایسے میں ان اداروں اور تنظیموں سے جڑے لوگوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ اُن کے خاندانوں کی کفالت کیسے ہوگی؟ وہ موجودہ دور میں مہنگائی کے عفریت سے کیسے نمٹ سکیں گے؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ لہٰذا اس ضمن میں حکومت کو سنجیدگی سے لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے دور دراز علاقوں سے جڑے لوگ بھی اپنے خاندانوں کی کفالت باآسانی کرسکیں۔

دلچسپ صورتحال ملاحظہ کیجیے کہ مسیحیوں کی عبادت گاہوں کی رجسٹریشن بھی جوائنٹ اسٹاک سوسائٹی ایکٹ سے ہوتی ہے اور اسی وجہ سے وہ تمام شرائط مسیحی عبادتگاہوں پر اُسی طرح عائد ہوتی ہیں جو این جی اوز پر ہوتی ہیں۔ حالانکہ این جی اوز اور مسیحی عبادت گاہوں کے کام میں بہت فرق ہے۔ لیکن جوائنٹ اسٹاک سوسائٹی ایکٹ 1860 کی شرائط دونوں کےلیے ایک جیسی ہیں۔ ایسی ہی صورتحال این جی اوز اور مسیحی عبادتگاہوں کو پنجاب چیریٹی کمیشن میں اندراج کراتے بھی پیش آئیں اور گرجا گھروں کو بھی اُن تمام دستاویزات کو پیش کرنا پڑا جس کا ان سے بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی تعلق ہی نہیں بنتا۔

مسیحی مذہبی رہنما یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جب وہ ہر سال اپنے گرجا گھر کی رجسٹریشن کی تجدید کرواتے ہیں اور اس ضمن میں تمام ضروری دستاویزات جمع کرواتے ہیں تو اس کے بعد انہیں پنجاب چیریٹی کمیشن میں رجسٹرڈ کروانے پر دوبارہ اسی قسم کے سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مذہبی اداروں کےلیے شرائط تبدیل ہونی چاہئے تھیں جو صرف مذہبی اداروں کے متعلق ہی ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بہت سے مذہبی ادارے جو ان شرائط کو پورا نہیں کرسکتے اُن کےلیے لمحہ فکریہ ہے کہ مستقبل میں اُن کے ادارے کے ساتھ کیا ہوگا۔ کیونکہ کسی کو علم نہیں ہے کہ اگر وہ پنجاب چیریٹی کمیشن سے رجسٹرڈ نہیں ہوتے تو اس کا کیا نقصان ہوسکتا ہے؟

ملک میں تنظیمیں اور بڑے مذہبی ادارے جو فارن فنڈنگ کے ذریعے اپنے نظام کو چلا رہے تھے اُن کےلیے ان اداروں کو چلانا ناممکن ہوگیا ہے۔ اس لیے ہر ادارے سے اپنے ملازموں کو ملازمت سے برخاست کرنا لازمی امر ہے۔ اب آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس سیکٹر سے جڑے لوگوں کی کتنی بڑی تعداد بے روز گار ہوچکی ہے؟ مذہبی اداروں کے منتظمین پریشان ہوچکے ہیں، کیونکہ فارن فنڈنگ کے نہ ہونے سے انہیں اپنے ادارے کے اخراجات کو پورا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ اس لیے وہ حکومت سے استدعا کر رہے ہیں کہ وہ ان قوانین میں نرمی کرے تاکہ فارن فنڈنگ کے مسائل حل ہوں۔

اس ضمن میں قومی و بین الاقوامی تنظیموں کو مل کر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر سوشل سیکٹر سے لوگ متنفر ہوگئے تو حکومت پر ورک لوڈ بڑھ جائے گا، جس کو پورا کرنا کسی بھی حکومت کےلیے مشکل ہے۔ آپ دنیا کے ممالک کا جائزہ لیجیے، خاص طور پر کورونا کی صورتحال میں دیکھیں تو سوشل سیکٹر سے جڑے لوگوں نے پوری دنیا میں منظم طریقے سے کام کیا اور بڑی تعداد میں رضاکارانہ طور پر بھی خدمات سر انجام دیں۔ لیکن ہمارے ہاں آج بھی سوشل سیکٹر کی تنظیمیں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ کورونا کے بعد بارشوں نے ملک بھر میں تباہی مچائی، تب بھی ہمیں فوج کے علاوہ کوئی اور ادارہ ایکشن میں دکھائی نہیں دیا۔

آپ ملکی ترقی میں سماجی تنظیموں کا کنٹری بیوشن دیکھیے۔ آپ انسانی حقوق کی ترویج، خواتین اور بچوں کے حقوق، بھٹہ مزدوروں کےلیے قانون سازی، محروم طبقات کے بچوں اور بچیوں کےلیے ووکیشنل ٹریننگ، چھوٹے قرضوں کے پروگرام، ناگہانی آفات میں عوام کو ریلیف دینا اور ان کی نئے سرے سے آبادکاری، غرض ایسی بہت سی سرگرمیاں ہیں جن کےلیے تنظیموں نے نمایاں خدمات سر انجام دی ہیں۔ اسی وجہ سے ملک بھر میں بڑے ادارے وجود میں آئے۔ درجنوں ایسے مقامی اور قومی ادارے اور تنظیمیں ہیں جو کم و بیش پانچ دہائیوں سے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ملکی ترقی میں اتنے بڑے کنٹری بیوشن کے باوجود ان اداروں اور تنظیموں کےلیے اب یہ قدغنیں کیوں لگائی جارہی ہیں؟

اسی طرح اگر آپ مسیحی عبادت گاہوں اور اداروں کا کنٹری بیوشن دیکھیں تو مذہبی خدمات کے علاوہ صحت اور تعلیم کے میدان میں مسیحیوں کا کنٹری بیوشن نمایاں ہے۔ ایک اور بات ملاحظہ کیجئے کہ مسیحی عبادتگاہیں اور ان کے ادارے قیام پاکستان سے بھی قبل سے یہاں کام کر رہے ہیں، بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ اُن کی خدمات کا دورانیہ ایک صدی پر محیط ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک صدی گزر جانے کے بعد اُن مذہبی اداروں کی فنڈنگ کو بھی روک دیا گیا ہے۔ اس لیے مسیحی عبادتگاہیں، اسکول اور اسپتال جو کہ اپنے اداروں کو چلانے کےلیے فارن فنڈنگ لے رہے ہیں، تو اس میں حکومت کو ان کےلیے شرائط نرم کرنی چاہئیں۔

امید ہے کہ حکومت اس صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لے گی۔ آپ ان تمام اداروں کے ملکی ترقی میں کنٹری بیوشن کو دیکھتے ہوئے فارن فنڈنگ کے قوانین میں نرمی کریں، کیونکہ ملک کے اندر تو مخیر حضرات موجود ہیں اور وہ مختلف اداروں کو سپورٹ کرتے ہیں جن کی وجہ سے وہ ادارے چل رہے ہیں۔ لیکن سوشل سیکٹر کی تنظیمیں مختلف طریقے سے کام کرتی ہیں اور مختلف منصوبوں (پراجیکٹس) کےلیے انہیں مالی معاونت کی ضرورت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ملک کے اندر اور باہر سے ڈونر ایجنسیوں سے رابطہ کیا جائے اور منصوبے کےلیے انہیں درخواست کی جائے۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ فارن فنڈنگ کے ایشوز کی وجہ سے غیر ملکی ڈونر ایجنسیاں ہمارے ملک میں کام کرنے میں احتراز برت رہی ہیں۔ لازمی ہے کہ حکومت فوری طور پر اس کے سدباب کےلیے لائحہ عمل ترتیب دے اور سوشل سیکٹر اور مذہبی اداروں کے فارن فنڈنگ کے تحفظات کو فوری طور پر دور کرے تاکہ یہ ادارے ملکی ترقی میں نئے جذبے کے ساتھ اپنا کردار ادا کرسکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔