ہمارا احتجاج اور ابا جی کا جوتا

محمد عمران چوہدری  بدھ 4 نومبر 2020
فرانس میں ہونے والے واقعات پر پوری دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔ (فوٹو: فائل)

فرانس میں ہونے والے واقعات پر پوری دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔ (فوٹو: فائل)

بڑے ابا جی ضلع سرگودھا میں سماجی اور سیاسی طور پر ایک معتبر نام ہونے کے علاوہ خاندان بھر میں رعب رکھتے تھے۔ ابا جی علاقے میں فیض کھنڈ (چینی والے) والے کے نام سے معروف تھے۔ خاندان کا ہر فیصلہ ابا جی کی مشاورت سے ہوتا تھا۔ ابا جی بچوں کو الٹے جوتے سے سزا دیا کرتے تھے، جس کی گونج دور تک جاتی اور ہم بچے سہم جایا کرتے تھے۔ کچھ بڑے ہوئے تو معلوم ہوا کہ ابا جی کا جوتا الٹا ہونے کی وجہ سے آواز تو زیادہ پیدا ہوتی ہے مگر اثر نہیں ہوتا۔ اس کے بعد ہم کسی کو مار پڑتے دیکھ کر لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔

یہ واقعہ مجھے فرانس میں ہونے والے واقعات کے بعد مسلمانوں کے احتجاج پر یاد آگیا۔ آج فرانس میں ہونے والے واقعات پر پوری دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔ فرانس کی بنی اشیا کا بائیکاٹ شروع ہوچکا ہے۔ بلاشبہ فرانس میں جو کچھ ہوا وہ ناقابل برادشت ہے۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ آج غیر مسلم ہمارے احتجاج پر ابا جی کے جوتے کی مار کی مانند مسکرا رہے ہوں گے۔ کیونکہ ہمارا احتجاج پہلی بار نہیں ہوا۔ اس سے پہلے بھی ہم ایسے واقعات پر مختلف ممالک کے خلاف احتجاج اور بائیکاٹ کی مشق کرچکے ہیں۔ لیکن ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ والی کیفیت رہی۔

غیر مسلم اقوام کو معلوم ہے کہ ہم ان کے بغیر نہیں چل سکتے۔ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہوگی کہ دنیا بھر میں سات اعشاریہ نو فیصد حلال غذا استعمال ہورہی ہے۔ یعنی 92 فیصد حرام غذا استعمال کی جارہی ہے۔ اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ یہ حلال غذا بھی ہمیں غیر مسلم ممالک مہیا کررہے ہیں۔ ایکسپریس ٹریبیون میں 25 فروری 2016 کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس (ایف پی سی سی آئی) کے صدر عبدالرؤف عالم کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا بھر میں حلال فوڈ کے بڑے بڑے ایکسپورٹرز غیر مسلم ممالک ہیں، جن میں امریکا، نیوزی لینڈ، برازیل، تھائی لینڈ، کینیڈا، آسٹریلیا وغیرہ شامل ہیں۔

غور طلب امر یہ ہے کہ جو مسلم ممالک اپنے لیے حلال غذا تک کا بندوبست نہ کرسکیں، ان کا احتجاج کس قدر موثر ہوگا۔ اور بالخصوص اسلامی جمہوریہ پاکستان جہاں پر بقول سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی (جس کی سرابراہی 2018 میں اس انکشاف کے وقت سینیٹر مشتاق احمد کے پاس تھی) کہ ملک میں غذائی اجناس میں حرام اشیا کی شناخت کا کوئی نظام نہیں۔ ملک میں حرام اجزا سے بنی چاکلیٹ، لپ اسٹک، برگرز سرعام فروخت ہورہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی دنیا اپنی حالت زار پر از سر نو غور کرے۔ احتجاج کے ساتھ معاشی طور پر بھی خود کفالت حاصل کی جائے، اور نہیں تو کم از کم اپنے لیے حلال غذا کا ہی بندوبست کرلیا جائے۔ مزید برآں آپس کے اختلافات بھلاکر اپنے اتحاد کو مضبوط تر بنایا جائے، تاکہ اقوام عالم میں ہماری آواز کو موثر طور پر سنا جاسکے۔

اور ایک آخری بات! ہم سب عشق نبیؐ میں مرنے کےلیے تیار ہیں۔ تو آئیے آج سے ہم اپنے پیارے نبی کریمؐ کے عشق میں اپنے نفس کو مار ڈالیں۔ ہر کام کرنے سے پہلے اس میں اللہ کا حکم اور نبی پاکؐ کا طریقہ دیکھیں۔ خود کو مردہ سمجھتے ہوے ہر غلط کام سے بچیں۔ پاکستان کو خود بھی مضبوط تر بنائیں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں۔ کوئی خود کو بدلے نہ بدلے، ہم آج سے عملی طور پر خود کو غلام محمدؐ بنالیں۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو مجھے یقین ہے آئندہ کوئی ایسی ناپاک جسارت نہیں کرے گا۔ بصورت دیگر اگر ہم کسی غیر مسلم ملک کے خلاف احتجاج کریں گے تو دیگر مماملک ہمارا ساتھ دینے کے بجائے ابا جی کے جوتے کی سزا کی مانند لطف اندوز ہوں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد عمران چوہدری

محمد عمران چوہدری

بلاگر پنجاب کالج سے کامرس گریجویٹ ہونے کے علاوہ کمپیوٹر سائنس اور ای ایچ ایس سرٹیفکیٹ ہولڈر جبکہ سیفٹی آفیسر میں ڈپلوما ہولڈر ہیں اور ایک ملٹی اسکلڈ پروفیشنل ہیں؛ آپ کوچہ صحافت کے پرانے مکین بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔