3 نومبر: بہت کچھ دائو پر لگا ہے

زاہدہ حنا  بدھ 4 نومبر 2020
zahedahina@gmail.com

[email protected]

یہ سطریں جب آپ کی نظر سے گزریں گی، اس وقت امریکی صدارتی انتخابات کے ابتدائی نتائج آنے شروع ہوچکے ہوں گے۔ ہم سے ہزاروں میل کی دوری پر ہونے والے یہ انتخابات ہمارے لیے کس قدر اہم ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری معیشت، ہمارے خارجہ معاملات، ماحولیات کے مسائل، آزادی تحریر و تقریر، صحافت، جمہوریت سب ہی ان انتخابات کے نتائج سے جڑے ہوئے ہیں۔

2016میں ہونے والے امریکی انتخابات سے امریکا اور ساری دنیا میں بہت سی توقعات وابستہ کی گئی تھیں۔ ہمیں یقین تھا کہ امریکا جس نے اس سے  پہلے ایک سیاہ فام کو اپنا صدر منتخب کیا تھا، اس مرتبہ امریکی صدارت کا عہدہ ایک سفید فام امریکی خاتون کے حصے میں آئے گا۔ ہلیری کلنٹن بہ طور خاص عورتوں کی آنکھ کا تارا تھیں، لیکن  2016 میں جو نتائج سامنے آئے اس نے ہم سب کو مایوس کیا۔

اس بارے میں ایک نوجوان امریکی لڑکی کول براؤن جو اس وقت کالج میں پڑھ رہی تھی اور اب سڈنی میں پڑھا رہی ہیں، اس نے چند دنوں پہلے لکھا ہے کہ ہم سب کا خیال تھا کہ ایک خاتون صدر کو منتخب کر کے ہمارا ملک ایک نئی تاریخ رقم کرے گا۔ لیکن نتیجہ ہماری خواہشات کے برعکس نکلا۔ اس روز ہم جب رات گئے باہر نکلے تو کالج نے وحشت ناک خاموشی کی چادر اوڑھ لی تھی۔ ان نتائج کے بعد میں نے بڑی عمر کے لوگوں کو پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا۔ اس مرتبہ ڈیموکریٹ حلقوں میں یہ خیال راسخ ہے کہ ہمیں دوبارہ بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔

ہم نہیں کہہ سکتے کہ درحقیقت کیا ہوا تھا لیکن یہ تو سب ہی کہتے ہیں کہ نتائج چرائے گئے تھے، یا بدلے گئے تھے۔ اس مرتبہ مسٹر ٹرمپ کا لہجہ شاید کچھ زیادہ ہی جارحانہ ہے۔ پچھلی مرتبہ انھوں نے امریکیوں کو دہشتگردوں سے نجات دلانے کا وعدہ کیا تھا، جب کہ اس مرتبہ انھوں نے چین کو خطرہ قرار دیا ہے۔ انھوں نے چینی صدر ژی جن پنگ کو امریکا کے ’دشمن‘ کے نام سے پکارا ہے۔

اپنی انتخابی تقریروں میں ایک نہیں کئی مرتبہ اپنے صدارتی حریف مسٹر جو بائیڈن پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ چین کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے۔ کورونا وائرس کو انھوں نے امریکا پر، پرل ہاربر سے زیادہ خطرناک حملہ قرار دیا ہے اور وہ یہ بھی دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ ایک ایسے صدر ہیں جسے جنگی حالات سے نمٹنا پڑا ہے۔

وہ کورونا وائرس کو چینی طاعون سے تشبیہ دیتے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ اس وائرس کی کوئی قومیت نہیں ہے۔ پیٹربن آرٹ کے تجزیے کے مطابق اس وقت 2لاکھ 20 ہزار امریکی کورونا وائرس کا نوالہ بن چکے ہیں اور ایک کروڑ بیس لاکھ 12) ملین) امریکی بیروزگاری کا شکار ہیں، ایسے میں امریکی کسی غیر ملکی طاقت سے خطرہ محسوس نہیں کرتے، وہ تو گھر کے اندر موجود طاقتور عناصر کو شکست دینا چاہتے ہیں۔ یہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کے لیے کوئی خوش آیندہ اشارہ نہیں ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل اور این بی سی نیوز کا اندازہ ہے کہ جوبائیڈن صدارتی دوڑ میں دس پوائنٹ آگے ہیں۔

امریکا دنیا کی ایک عظیم جمہوریت ہے۔ امریکا کا استعماری کردار اپنی جگہ، دنیا میں اس نے جو قتل اور غارت گری کا بازار ایک طویل عرصے تک جاری رکھا، جس میں لاکھوں بے گناہ انسان ہلاک ہوئے وہ حقیقت اپنی جگہ، یہ امر بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا کے غریب ممالک اور ترقی پذیر ملکوں میں اس نے جمہوریت کے بجائے آمرانہ حکومتوں اور بادشاہتوں کی حمایت کی، عوام کے منتخب نمایندوں کو قتل کرایا اور جمہوری طاقتوں کو ابھرنے کا کوئی موقع فراہم نہیں کیا۔

ان تمام منفی عوامل کے باوجود اس سچ سے بھی انکار نہیں کیا جانا چاہیے کہ جمہوریت نے امریکا کو بہت کچھ دیا ہے۔ جمہوریت نے امریکا کو متحد رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ جمہوری آزادیوں کی وجہ سے اس ملک نے سائنس، تحقیق اور ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز پیشرفت کی ہے۔ کیونکہ اختلاف اور انحراف ایجاد، تحقیق اور اختراع کے لیے ناگزیز ہے۔ سرد جنگ میں امریکا کی فتح کی ایک بڑی وجہ جمہوریت تھی، سوویت یونین کبھی ٹکڑے ٹکڑے نہ ہوتا اگر وہاں جمہوریت ہوتی، جبر اور استبداد پر قائم نظام زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتے۔

انسان بھوکا تو رہ سکتا ہے لیکن ہمیشہ کے لیے غلام بننا اسے قبول نہیں ہوتا۔ صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آ کر امریکا کے جمہوری نظام کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ انھوں نے خود کو ایک مغرور اور اناپرست آمر کے روپ میں پیش کیا ہے۔ وہ اپنے مخالفین کی تحقیر کرنے میں ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔ سیاہ فاموں اور دیگر رنگ دار امریکیوں کے بارے میں وہ نسل پرستانہ خیالات رکھتے ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ وہ سفید فاموں کے اندر موجود نسلی بالادستی کے احساس کو ابھار کر انتخابات میں باآسانی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ عورتوں کے بارے میں ان کے خیالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ اس ضمن میں وہ نسلی امتیاز سے بالاتر ہوکر عورت کی تذلیل و تحقیر کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں گنواتے۔ صدر ٹرمپ نے امریکا کے اتحاد کو مضبوط تر کرنے کے بجائے اس میں مزید تقسیم پیدا کر دی ہے۔ اس عمل سے خود امریکا کے اندر عدم استحکام پیدا ہو گیا ہے۔

سابق امریکی صدر بارک اوباما ایک ڈیموکریٹ ہیں اور جی جان سے مسٹر بائیڈن کی حمایت کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انتخابات میں ووٹ ڈالنا معاملات کو مکمل طور پر درست کرنے کا نام نہیں ہے۔ یہ سیاسی صورت حال کو بہتر بنانے کا عمل ہے۔ ووٹ ڈالنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم جو چاہتے ہیں وہ صد فیصد درست ہو جائے بلکہ اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم اس وقت تک ووٹ ڈالتے رہیں جب تک کہ معاملات حتمی طور پر درست ہو جائیں، دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت معاملات کو چھلنی سے چھاننے کا عمل ہے۔

صدر ٹرمپ غیر معمولی کاروباری صلاحیتوں کے مالک ہیں لیکن علم و دانش کے اعتبار سے وہ امریکا  کے سابق صدور سے کہیں پیچھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دلیل کے بجائے لوگوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں، وہ تقریروں میں اپنے سیاسی مخالفین کی نقلیں اتارتے ہیں اور اداکاری کے جوہر دکھاتے ہیں۔ وہ اصل مسائل کی جانب سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے نسلی، لسانی، قومیتی و معاشی تضادات کو ابھارکر انھیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرتے ہیں اور پھر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایک غیر معمولی طاقت اور ذہانت کے مالک ہیں اور ان تضادات کو ان کے سوا کوئی حل نہیں کرسکتا۔

ٹرمپ نے اپنے دور صدارت میں جس طرح اپنے سیاسی حریفوں اور غیر ملکی رہنماؤں کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کیے وہ ان امریکیوں کو کچھ اچھا نہیں لگا جو ان کے حامی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بالکل برعکس جوبائیڈن ایک شائستہ اور نرم دل انسان ہیں۔ ٹرمپ صاحب برسرعام گالیاں دیتے ہیں اور کھلے بندوں یہ کہتے ہیں کہ اگر انتخابی نتائج ان کے حق میں نہ آئے تو وہ انھیں تسلیم نہیں کریں گے اور وہائٹ ہاؤس خالی نہیں کریں گے۔ اس طرح کے کلمات کی اب سے پہلے کسی امریکی صدر سے توقع نہیں کی جاتی تھی۔

ابھی دو دن پہلے ہی یہ ہوا ہے کہ ٹرمپ صاحب کے ساتھیوں نے جوبائیڈن کے حامیوں کے ایک جلوس پر ہلہ بولنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا تھا۔ اس نوعیت کے معاملات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کی شکل میں کس نوعیت کی غنڈہ گردی ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف امریکی اقلیتیں جن میں مسلمان بھی شامل ہیں، میکسیکو اور بعض دوسرے ملکوں سے آنے والے تارکین وطن خوف محسوس کر رہے ہیں۔

اب سے پہلے امریکا تارکین وطن کے لیے ایک پناہ گاہ کی حیثیت رکھتا تھا، نیویارک کے ساحل پر ہاتھ میں مشعل اٹھائے آزادی کا مجسمہ تارکین وطن کے لیے ایک خوش آیندہ منظر تھا لیکن ٹرمپ جیسے لوگ اگر امریکا کے صدر ہوں تو شاید وہ لمحہ بھی آئے جب مجسمۂ آزادی کو  اپنے لیے کوئی نیا ساحل تلاش کرنا پڑے۔

امریکا کے صدارتی انتخابات کے نتائج یہ فیصلہ کر دیں گے کہ آیندہ آنے والے چار برسوں کے دوران امریکا کی سمت کیا ہو گی؟ وہاں جمہوریت اور اس کی اقدار مضبوط ہوں گی یا ان میں زوال کا سلسلہ بدستور جاری رہے گا؟ امریکا کے اندر نسلی، لسانی، صنفی اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ ملے گا یا اس حوالے سے کشیدگی اور تقسیم میں مزید شدت پیدا ہو گی؟

امریکا دنیا سے کٹ کر رہے گا یا دیگر اقوام کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ معیشت بحران سے نکلے گی یا یہ بحران مزید شدید تر ہو گا؟ امریکا  کے صدارتی انتخابات کے نتائج پر نہ صرف امریکا بلکہ دنیا کے لیے بھی بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ لہٰذا سب دم سادھے نتائج کے منتظر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔