عالمی میڈیا نے کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی صورتحال بدترین قرار دے دی

اسٹاف رپورٹر  بدھ 4 نومبر 2020
کراچی کی 42 فیصد آبادی بوسیدہ بسوں کی چھتوں پر سفر کرنے پر مجبور

کراچی کی 42 فیصد آبادی بوسیدہ بسوں کی چھتوں پر سفر کرنے پر مجبور

 کراچی: عالمی مالیاتی تحقیقی اور ابلاغی ادارے بلومبرگ نے کراچی میں تباہ حال سڑکوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کی بدترین صورتحال کی بناء پر کراچی کو سیاسی یتیم قرار دے دیا۔

بلومبرگ نے اپنی سٹی لیب رپورٹ میں کراچی کے پبلک ٹرانسپورٹ کی زبوں حالی اور سڑکوں کی صورتحال سمیت نامکمل منصوبوں کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا تیسرا بڑا شہر اس وقت سیاسی طور پر یتیم ہوجانے والے ایسے شہر کی تصویر پیش کررہا ہے جس کا کوئی والی وارث نہیں۔

رپورٹ کے مطابق بندرگاہ کو شہر کے وسط سے ملانے والا ایم اے جناح روڈ جو ہمیشہ ٹریفک کی روانی میں اہم کردار ادا کرتا رہا اب مستقل بدترین ٹریفک جام کا شکار رہتا ہے۔ کراچی میں پبلک بسوں پر مشتمل ایکسپریس لین کا منصوبہ جو شہر کے بڑے حصے سے ہوکر گزرتا ہے تین سال کی تاخیر کے باوجود ادھورا پڑا ہے اس منصوبہ کے لیے مختص ایک بالائی گزرگاہ شہر کی اہم سڑکوں کی تین میں سے دو ٹریفک لینز بھی نگل چکا ہے۔ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو جدید بنانے کا یہ منصوبہ تین سال قبل مکمل ہونا تھا تاہم تاحال یہ ٹریک خالی پڑا ہے۔

بلومبرگ نے 2019میں کاروں کے پرزہ جات بنانیو الی عالمی کمپنی Mister Autoکی دنیا کے 100شہروں کے ٹرانسپورٹ نظام کا جائزہ پر مبنی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس رپورٹ میں بھی کراچی کو دنیا میں پبلک ٹرانسپورٹ کے بدترین نظام کا حامل شہر قرار دیا گیا، رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ کراچی کی 42فیصد آبادی دہائیوں پرانی کھچاکھچ بھری ہوئی بوسیدہ حال بسوں کے اندر اور چھتوں پر چڑھ کر سفر کرنے پر مجبور ہیں کراچی کے شہری بس کی چھتوں کو ترقی یافتہ ملکوں میں چلنے والی دو منزلہ بسوں کی طرح استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ کراچی کی سڑکیں گڑھوں سے بھری ہوئی ہیں، ٹریفک سنگنلز کا پورا نظام بھی تاحال خودکار نہیں بنایا جاسکا اور سرخ اشارے کی خلاف ورزی معمول ہے۔ ملک کا سابق دارالخلافہ اور بندرگاہوں کا حامل شہر کراچی متعدد بین الاقوامی کاروباری اداروں کے علاقائی صدر دفاتر کا بھی مرکز ہے جو ملکی خزانے کے نصف سے زائد ٹیکس بھی کراچی سے ہی ادا کیے جاتے ہیں۔

کراچی میں انتظامی بدحالی مون سون سیزن کی حالیہ ریکارڈ بارشوں میں کھل کر عیاں ہوگئی جب بارشوں کے باعث 64افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 10ہزار افراد کو ریسکیو کیا گیا اس دوران شہر کا بڑا حصہ کئی دنوں تک بجلی سے محروم رہا اور شہریوں کو موبائل فون سروس اور اے ٹی ایمز کی بندش کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

اس صورتحال کے بعد وزیر اعظم پاکستان نے کراچی کا دورہ کیا اور کراچی کی بحالی کے لیے 1199ارب روپے (6.8ارب ڈالر) کے پیکج کا اعلان کیا جو پاکستان کو دیوالیہ سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کے تحت 6ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج سے بھی زائد ہے۔ وفاقی حکومت نے کراچی کے میگا پراجیکٹس کے لیے گزشتہ سال بھی 162ارب روپے کے فنڈز کا اعلان کیا تھا تاہم آفیشل رپورٹس کے مطابق گزشتہ سال یہ فنڈ جاری نہیں کیے گئے البتہ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ جون 2020تک کراچی پر وفاق نے 24.65ارب روپے خرچ کیے جبکہ رواں مالی سال 17.9ارب روپے کراچی کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔

عالمی ادارے نے بین الاقوامی ماہرین کی رائے کی بنیاد پر کراچی کے ٹرانسپورٹ سسٹم کی تباہی کو کرپشن اور بدانتظامی کا نتیجہ قرار دیا جس کے سبب کراچی کے بڑے حصے کو آپس میں جوڑنے والا سرکلر ریلوے سسٹم بھی غیر فعال ہوگیا۔ سرکلر ریلوے ٹریک کے بڑے حصے پر غیر قانونی کچی آبادیاں قائم ہوچکی ہیں۔ ماہرین کے مطابق کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے تجاوزات کا انسانی بنیادوں پر حل نکالنا ضروری ہے جس کے تحت بے دخل ہونے والی آبادی سیاسی فائدے نقصان کو پس پشت رکھتے ہوئے متبادل رہائش کی سہولت دستیاب کرنا ہوگی۔

کراچی کے بیشتر اہم منصوبے تاخیر کا شکار ہیں گرین لائن بس سروس چھ سال قبل شروع کیا گیا جو تاحال مکمل نہ ہوسکا اسی طرح کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا منصوبہ بھی 15سال سے زیر غور ہے ادھر پانی کی سپلائی کا بڑا منصوبہ بھی 18سال کی تاخیر کا شکار ہے جس کے نتیجے میں کراچی کی سب سے پوش آبادی کا انحصار ٹینکروں سے سپلائی ہونے والے پر پانی ہے جسے عوامی زبان میں ٹینکر مافیا بھی کہا جاتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں بنیادی سہولتیں اور انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے سے اس شہر کی پیداواری صلاحیت میں مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے جس سے پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے میں مدد ملیگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔