جنون کے قیدی

شاہد کاظمی  جمعـء 6 نومبر 2020
کرائے کے لکھاری پاکستان میں بکثرت موجود ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کرائے کے لکھاری پاکستان میں بکثرت موجود ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

صحافت کو اگر پاکستان میں دیکھا جائے تو یہ بطور پیشہ انتہائی مشکل پیشہ ہے، جبکہ بطور شوق انتہائی سستا شوق ہے۔ اور پیشہ ورانہ مہارت کے حوالے سے مشکل ترین شعبہ ہے۔

بطور پیشہ مشکل اس لیے کہ اس شعبے میں آنے سے پہلے اگر آپ پانچ سے دس سال بطور فری لانسر کام کرسکتے ہیں تو اس شعبے میں آئیے، ورنہ کوئی لگی بندھی ملازمت کیجیے۔ کیوں کہ اس شعبے میں آپ کو ابتدائی برسوں میں جیب خرچ بھی لگا دینا پڑے گا۔ اس لیے پاکستان میں یہ ایک مشکل ترین پیشہ ہے۔ انتہائی سستا شوق اسے یوں کہیے کہ آپ کو صحافی بننے کا شوق ہے تو موجودہ حالات میں بس موبائل فون ہونا چاہیے اور آپ اپنا شوق پورا کرسکتے ہیں۔ چند بے مقصد سطور لکھئے۔ مائیکرو بلاگنگ کیجئے۔ اور آپ کی صحافتی رگ اطمینان حاصل کرنا شروع کردے گی۔ زبان و بیان کے حسن سے آپ چاہے لاعلم ہوں لیکن چند متنازعہ سطور کے بعد آپ صحافت کا شوق خوش اسلوبی سے جاری رکھنے کے قابل ہوجائیں گے۔

اور پیشہ ورانہ مہارت کے حوالے سے یہ پاکستان کے چند مشکل ترین شعبہ جات میں اس لیے شمار ہوتا ہے کہ کاروباری مفادات کے ٹکراؤ، صحافتی اسرار و رموز سے ناواقفیت، شہ سرخی، بریکنگ نیوز، صحافتی اخلاقیات سے دور دور تک واسطہ نہ رکھنے والی ہستیاں صحافت کی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کےلیے آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے راستے کی رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ تجربے کا متبادل کچھ نہیں، لیکن تعلیم کا متبادل بھی ابھی تلاش نہیں کیا جاسکا۔

اس شعبے میں پیشہ ورانہ مہارت کے بجائے پاکستان میں اب تعلقات و مالی پوزیشن زیادہ اہم ہوچکے ہیں۔ آپ نے بیورو چیف بننا ہے، کسی علاقائی اخبار کا چیف رپورٹر بننا ہے، یا پریس کارڈ کا حصول واحد مقصد ہے اور جیب اجازت دے تو جی آیاں نوں۔ لہٰذا پاکستان میں صحافت کے شعبے کے حوالے سے صحافت کی تعلیم حاصل کرنے والا نوجوان، فری لانسنگ صلاحیتوں کا لوہا منوانے والا صحافی، بڑے میڈیا گروپس میں خون پسینہ ایک کرنے والا ورکر بنیادی طور پر اپنے جنون کے قیدی ہیں۔ ان کا جنون صحافت ہے لیکن ان کا واسطہ صحافت کی الف ب نہ سمجھنے والوں سے ہے۔

ایک تحریر کا شور ہوا۔ ایک لکھاری کی تحریر معروف قومی روزنامے میں شائع ہوئی۔ بعد ازاں وہی تحریر ڈیجیٹل میڈیا میں مقام رکھنے والی ویب سائٹ پر بھی اپ لوڈ ہوگئی۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ تحریر حرف بہ حرف اپ لوڈ تو ہوگئی فرق بس لکھاری کے نام اور تصویر کا تھا۔ معاملہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگیا۔ لے دے ہوئی۔ بعد میں جس مشہور اینکر کے نام کے ساتھ ویب سائٹ پر تحریر لگائی گئی تھی انہوں نے معافی تلافی کی راہ اپنائی۔ معاملے کی گرد بیٹھنا شروع ہونے لگی تو اچانک تحریر کی حقیقی مالک لکھاری نے پھر سے ایک ٹویٹ داغ دی۔ جس سے ایک نئے تنازعے نے جنم لیا۔ ریسرچر کا کردار سامنے آیا۔ غلطی کسی تنخواہ دار ریسرچر کے ذمے لگتی دکھائی دینے لگی۔ لیکن یہاں پر صحافتی بددیانتی کہیے یا پھر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا کہ یہ تاثر سامنے آنا شروع ہوگیا بڑے لکھاری ریسرچرز کے کندھوں پر رکھ کر بندوق چلاتے ہیں اور ریسرچرز کی محنت پر اپنے نام سے کالم اخبارات کی زینت بنواتے ہیں۔

فری لانسنگ کا شعبہ پاکستان میں عفریت کی شکل اختیار کرچکا ہے جب کہ صحافت کے شعبے میں دیکھیے تو فری لانسنگ کو ایک تجربہ کی سی اہمیت حاصل تھی۔ پندرہ سے بیس ہزار روپے (بسا اوقات اس سے بھی کم) پر کام کرنے والا کسی بڑے صحافی کا ریسرچر ہونے کا حق ایسے ادا کرتا ہے کہ کولہو کے بیل کی طرح کام کرتا ہے، کسی بھی مخصوص عنوان پر اس صحافی کو تفصیلات مہیا کرتا ہے اور بعض اوقات تو الفاظ بھی اسی کے ہوتے ہیں۔ بس نام اخبار میں بڑے لکھاری کا آجاتا ہے۔ مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تھا، ایک کالم تحریر کرنے میں جت گئے، معروف اخبار کو بھیجا بھی، لیکن حیرت کی انتہا نہ رہی کہ کچھ دن بعد من و عن کالم اسی اخبار کے اس وقت کے چیف ایڈیٹر کے نام سے شائع ہوچکا تھا۔

دوسرے یا تیسرے درجے کے لکھاری ایسے واقعات سہنے کے عادی ہوتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ صحافت پاکستان میں ایسا شعبہ ہے جس میں مواقع سے زیادہ جگاڑ چلتا ہے۔ آپ تحریر کسی سے لکھوا رہے ہیں، یا کسی عالمی سطح کے موضوع کو ترجمہ کروا کر اپنے نام سے شائع کروا رہے ہیں، کوئی فرق نہیں پڑتا اگرآپ کی مالی و سماجی حیثیت قابل قبول سے کچھ زیادہ ہے۔ چند سال قبل راقم الحروف کو ایک ہمدرد نے آفر کی کہ تم چاہو تو ایک بڑے لکھاری کے انسٹیٹیوٹ کا حصہ بنوا دیتا ہے۔ کام بس پورا دن ان کے کالم کےلیے ڈیٹا جمع کرنا ہوتا ہے۔ اکثر کالم کے الفاظ بھی بیچارے ریسرچر کے ذمے لگا دیے جاتے ہیں۔

کرائے کے لکھاری پاکستان میں بکثرت موجود ہیں۔ ایسے لکھاری جو مالی طور پر مستحکم نہیں لیکن الفاظ کا ایک ذخیرہ ان کے پاس موجود ہے۔ لوگ رابطہ کرتے ہیں، یہ بیچارے الفاظ کے ذخیرے میں سے کچھ ان کے نام کردیتے ہیں۔ نتیجتاً لکھاری کو کچھ مالی وسائل مہیا ہوجاتے ہیں۔ جب کہ ان الفاظ کو اپنی کامیابی کی سیڑھی کوئی اور بنا چکا ہوتا ہے۔

صحافت کے شعبے میں ان حالات سے لڑتے جنون کے ان قیدی صحافیوں کےلیے ایک اور مشکل یہ ہے کہ ایک بڑا کالم نگار بیک وقت کالم نگار بھی ہے، اینکر پرسن بھی ہے، تجزیہ کار بھی ہے، ٹی وی شو ہوسٹ بھی ہے، تفریحی پروگرام کا میزبان بھی ہے، خصوصی نشریات کی ضرورت بھی ہے۔ اب یہاں نوجوان صحافی کہاں فٹ آئے گا۔ کراس میڈیا اونر شپ کا جن نوجوان صحافیوں کو بے دردی سے نگل رہا ہے جو مستقبل کے سہانے خواب لیے اس شعبے میں آئے تھے۔

اخبارات ہوں یا ٹی وی چینلز، ویب ٹی وی ہوں یا ویب سائٹس، ہر کوئی توقع کرتا ہے کہ نوجوان صحافی اپنے کالم، ویڈیو رپورٹس، بلاگ، تحریریں، تصاویر انہیں مہیا کریں، لیکن جنون کے ان قیدیوں کی محنت کا صلہ معاشی حالت بہتر بنانے کےلیے معاوضے کی ادائیگی کے بجائے بطور فری لانسنگ بس نام جوڑ دینا ہو۔ اور کبھی کبھی تو تحریر سے نام بھی صاحب تحریر کا حذف کرکے صرف نامہ نگار، خصوصی رپورٹر، نمائندہ لکھنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

ایک لکھاری کی تحریر دوسرا بڑا لکھاری دھڑلے سے اپنے نام کے ساتھ جوڑ لے۔ واویلا ہو تو سارا ملبہ ریسرچر یا فری لانسر کے سر تھوپ دیا جائے تو پھر عرض اتنی سی ہے کہ آپ اگر میڈیا کے شعبے میں مقام برقرار رکھنے کے لیے ایک ریسرچر کے ہی مرہون منت ہیں تو اس ریسرچر کےلیے ہی جگہ کیوں خالی نہیں کردیتے؟ کیوں جنون کے ان قیدیوں کےلیے آسانی پیدا کرتے ہوئے کسی مخصوص صحافتی صنف سے منسلک ہوکر باقی جگہ خالی کرکے نوجوانوں کو موقع نہیں دیتے کہ یہ جنون کے قیدی آخر جائیں تو جائیں کہاں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔