کچھ لوگ ایسے بھی!

ڈاکٹر میشال نذیر  اتوار 8 نومبر 2020
جس کےلیے گھر سے بھاگ کر آئی تھی اس کا نمبر مسلسل بند تھا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جس کےلیے گھر سے بھاگ کر آئی تھی اس کا نمبر مسلسل بند تھا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پچھلے دنوں نائلہ کی دوسری برسی تھی، جو کہ تیس سال سے پہلے ہی اس دنیا سے چلی گئی۔ وہ ہمارے پچھلے گھر میں پڑوسی تھے، جن سے اچھے مراسم تھے۔ وہ آٹھ بہن بھائی تھے۔ نائلہ سے بڑی چار بہنیں شادی شدہ تھیں، اس کا نمبر پانچواں تھا اور پھر تین بھائی۔ وہ پڑھائی میں کچھ خاص تھی نہیں، اس لیے میٹرک بڑی مشکل سے کیا۔ کوئی سات سال پہلے اچانک نائلہ کی گھر سے بھاگنے کی خبر آئی، جسے سن کر دھچکا سا لگا۔ کوئی ایک مہینے کے بعد اس کی کہانی سامنے آئی۔

ہوا یہ کہ نائلہ کی فون پر کسی لڑکے سے علیک سلیک ہوئی۔ محبت ہوئی، اور پھر گھر سے اس لڑکے کی خاطر بھاگنے کا ارادہ کرلیا۔ مقررہ جگہ پر نائلہ پہنچ گئی، مگر وہ لڑکا نہیں آیا۔ وہ لڑکا بھی کیونکہ چھوٹی عمر کا تھا، وہ ڈر گیا، اور اس نے اپنا نمبر ہی بند کردیا۔ نائلہ کو لگا کہ وہ کہیں پھنس گیا ہوگا، وہ انتظار کرتی رہی اور رات ہوگئی، مگر وہ لڑکا نہیں آیا۔ اتنے میں وہاں سے پولیس کی گاڑی گزری۔ انہوں نے جب اسے ایسے اکیلے سنسان جگہ پر پایا اور اس کی مدد کےلیے اس کے پاس آئے تو وہ رونے لگی۔ پولیس والے اسے تھانے لے کر آئے جہاں لیڈی کانسٹیبل کی مدد سے نائلہ کی روداد سمجھ آئی۔ نائلہ نے اپنے گھر جانے سے انکار کردیا۔ اسے یقین تھا کہ اس کی اس حرکت پر اس کے گھر والے اسے جان سے مار دیں گے۔ جس کےلیے گھر سے بھاگ کر آئی تھی اس کا نمبر بھی مسلسل بند تھا۔ اسے تھانے میں نہیں رکھ سکتے تھے اور وہ کسی رشتے دار کے گھر بھی نہیں جانا چاہتی تھی۔ پولیس والے مشکل میں تھے کہ اب اس کا کیا کریں۔ نائلہ کو یا تو گھر جانا تھا، نہیں تو کسی ادارے میں۔ مگر وہ کہیں بھی جانے کو تیار نہیں تھی۔

وہاں علی نام کا پچیس سال کا نوجوان انسپکٹر بھی تھا۔ اس سب صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس نے نائلہ کو شادی کی پیشکش کردی۔ اس نے نائلہ سے کہا کہ یا تو وہ گھر جائے، ہم بات کریں گے گھر والوں سے، اگر نہیں تو میں شادی کرنے کو تیار ہوں۔ نائلہ نے بہت سوچ کر شادی کا فیصلہ کیا۔ علی نے اپنے والدین کو گاؤں فون کیا اور شادی کےلیے بات کی۔ اور اگلے دن گاؤں جاکر سادگی سے نکاح کرلیا۔

نائلہ شادی سے بہت خوش تھی۔ کیونکہ علی بہت اچھا انسان تھا۔ نائلہ کو اپنی غلطی کا شدت سے احساس تھا۔ اس نے علی سے اپنے والدین سے بات کرنے کی خواہش کی۔ علی نے اس کی امی سے بات کروائی۔ جب ان کو حقیقت کا پتہ چلا تو وہ بھی حیران رہ گئے۔ نائلہ کے والد کو بھی علی سے بات کرکے سکون ہوا کہ ان کی بیٹی اچھے لوگوں میں ہے اور علی سے کہا کہ ابھی اس بات کو تین دن ہی ہوئے ہیں، ان کے خاندان والے ابھی نائلہ کے بھاگنے کے بارے میں لاعلم ہیں، تو تم لوگ نائلہ کو گھر لے کر آؤ، تاکہ میں سادگی سے اس کی رخصتی کردوں تاکہ ہماری بدنامی نہ ہو۔ علی نے اس بات کو مان لیا۔ نائلہ کو اس کے والدین کے گھر لے کر گیا، اور یوں اس کے والد نے اپنے وعدے کے مطابق رخصتی کردی۔

نائلہ کے والدین علی کو داماد کے روپ میں پاکر بہت خوش تھے، جس نے وقت پر ان کی بیٹی کی عزت کی حفاظت کی۔ نائلہ کو پہلے ایک بیٹا اور پھر ایک بیٹی ہوئی۔ اس کی بیٹی ایک سال کی تھی کہ ایک دن اچانک اسے سر میں درد ہوا۔ اسے اسپتال لایا گیا۔ پتہ چلا کو اس کے دماغ کی شریان پھٹ گئی ہے۔ اسے آئی سی یو میں منتقل کیا گیا، جہاں دو دن موت سے لڑتے لڑتے وہ زندگی کی بازی ہار گئی۔

یہ محض ایک کہانی نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کی عکاس ہے۔ نائلہ ان پانچ فیصد خوش قسمت لڑکیوں میں سے تھی جس کے ساتھ گھر سے بھاگنے کے بعد کوئی انہونی نہیں ہوئی۔ ورنہ ایسے کیس میں یا تو لڑکا فراڈ ہوتا ہے جو کہ لڑکی سے یا تو جسم فروشی کرواتا ہے یا پھر بیچ دیتا ہے۔ ایسے لوگ گینگ میں کام کرتے ہیں، جن کا کام ہی لڑکیوں کو ٹریپ کرنا ہوتا ہے، اور ایسے کئی گینگ پولیس پکڑ چکی ہے۔ اگر لڑکا ٹھیک نکل آئے تو پھر غیرت کے نام کی تلوار اس جوڑے پر ہر وقت لٹکی رہتی ہے، جو کسی بھی وقت ان کی زندگی کو ختم کرسکتی ہے۔ حال ہی میں ایسے ہی ایک بھاگے ہوئے جوڑے کو ان کے نومولود سمیت عدالت کے احاطے میں گولیوں سے بھون دیا گیا۔ اس لڑکے پر لڑکی کو اغوا کرنے کا مقدمہ لڑکی کے گھر والوں نے درج کروایا، اور جب فیصلہ لڑکے کے حق میں ہوتا ہوا نظر آیا تو لڑکی کے گھر والوں نے غیرت کے نام پر تینوں کو قتل کردیا۔

نائلہ کے والد کی بہت سراہنا ہے جنہوں نے اپنی بیٹی کی نادانی کو معاف کیا، کھلے دل سے اسے قبول کیا، نہ کہ غیرت کے نام پر اس کی زندگی کو جہنم بنایا۔ کسے پتہ تھا کہ نائلہ کی زندگی صرف پانچ سال ہے۔ سوچیے اگر اس کے والدین اسے معاف نہ کرتے تو اس کے یہ آخری سال کتنے بھاری ہوتے۔ خود اس کے والدین بھی اس کی موت کے بعد کتنے رنجیدہ ہوتے کہ انہوں نے بڑے ہونے کا حق ادا نہیں کیا، اور اس کی آخری خوشیوں میں شریک نہیں تھے۔ معاف کرنے کو اسی لیے ہمارے اسلام نے بہت پسند کیا ہے۔ یہ آپ کو غصے اور ندامت کی کیفیات سے بچا لیتا ہے۔ جب ہم سے بھی کوئی غلطی یا گناہ ہوتا ہے تو ہم اپنے رب سے معافی کی ہی امید رکھتے ہیں، تو پھر ہم انسانوں میں ایسا کیا غرور ہے، جو ہم اپنوں کی ہی غلطیوں کو معاف نہیں کرسکتے۔

اس پوری کہانی کا ہیرو علی ہے، جس نے نائلہ کا ہاتھ اس وقت تھاما جب کوئی اس کے ساتھ نہیں تھا۔ علی نے اس کی نادانی کو نظر انداز کیا۔ اس کے بھاگ جانے کو اس کے کردار سے نہیں جوڑا بلکہ اپنی عزت بنایا۔ ورنہ ہمارے معاشرے میں جو لڑکی ایسا قدم اٹھائے، ہم اس کا جینا ہی حرام کردیتے ہیں۔ پولیس کے حوالے سے آئے روز کوئی نہ کوئی بری خبر سننے کو ملتی ہے، رشوت کا معاملہ ہو، جعلی مقابلے ہوں جس میں عام شہری بدلے کی وجہ سے مارا جاتا ہے، بھتہ خوری ہو، عورتوں کے ساتھ بدتمیزی ہو یا ان کے ساتھ زیادتی ہو۔ ان واقعات میں افسوس پولیس والے شامل ہوتے ہیں۔ یہ وہ کالی بھیڑیں ہیں، جن کی سرزنش بہت ہی ضروری ہے، جو اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ پولیس کا ڈپارٹمنٹ ہمارے ہاں جس طرح کا ہوچکا ہے، ایسے میں علی جیسے لوگ امید کی کرن ہیں کہ میرے ملک کی ماں، بہن، بیٹی کی عزت محفوظ ہے۔ پولیس میں علی اور معاشرے میں نائلہ کے والد جیسے لوگوں کی بہت ضرورت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر میشال نذیر

ڈاکٹر میشال نذیر

بلاگر حیاتی کیمیا (بایو کیمسٹری) میں پی ایچ ڈی ہیں۔ اسلام اور سائنس کے موضوع سے خصوصی شغف رکھتی ہیں۔ جو کچھ ہمارے ارد گرد ہورہا ہے، اس سے سیکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کی سوچ اور فکر، معاشرے کی وہ تصویر ہے جس میں دھنک کے سارے رنگ ہیں؛ اور جسے دیکھنے کےلیے خوبصورت آنکھ چاہیے، جو ہر رنگ میں چھپی خاموشی، شور، سکون، خوشی، غم، خیال، تصور، غرض کہ ہر معاشرتی احساس کو دیکھ، سن، سمجھ اور برداشت کرسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔