کفر کے فتوے اور قتل کی وارداتیں

محمد عمران چوہدری  ہفتہ 7 نومبر 2020
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس طرح کے واقعات اب عام ہوتے جارہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس طرح کے واقعات اب عام ہوتے جارہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

’’ہمارے جنازے یہ ثابت کریں گے کہ ہم عاشق رسولؐ تھے یا گستاخ رسول تھے‘‘۔ یہ الفاظ درد میں ڈوبی ہوئی آواز کے ساتھ (مرحوم) حاجی عبدالوہاب صاحب کی زبان سے اس وقت نکلے جب رائیونڈ میں کارگزاری کے عمل کے دوران ایک جماعت نے یہ بتایا کہ ایک علاقے میں ان کو نہ صرف مارا گیا بلکہ گستاخ رسول کہہ کر انہیں مسجد سے بھی نکال دیا گیا۔

یہ واقعہ گزشتہ روز ضلع سرگودھا میں بینک منیجر کو گارڈ کی جانب سے توہین رسالت کے الزام میں مارے جانے پر یاد آگیا۔ میں نے جب تفصیلات معلوم کیں تو علم ہوا کہ مظلوم نے چند روز قبل ظالم کو نوکری سے فارغ کروا دیا تھا۔ گارڈ جمہوریت کے فیوض و برکات سے بحال تو ہوگیا، مگر پھر اس نے اپنے ہی سربراہ پر توہین رسالت کا الزام لگا کر خود ہی عدالت لگائی، اور پھر خود ہی جج بن کر فیصلہ سنادیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس طرح کے واقعات اب عام ہوتے جارہے ہیں۔

گزشتہ سال چنیوٹ کے ایک نواحی گاؤں میں امام مسجد نے ایک جنازہ یہ کہہ کر پڑھانے سے انکار کردیا تھا کہ مرحوم کا تعلق کافر گروپ سے ہے۔ بعد ازاں دوسرے امام کے پڑھانے پر وہ ایک فتوی بھی لے آئے کہ جو جنازہ پڑھے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ جس سے آدھے گاؤں کے افراد اپنی بیویوں سے محروم ہوگئے تھے۔ برطانوی نشریاتی ادارے نے جب متعلقہ ڈی پی او کے علم یہ بات لائی تو انہوں نے یہ کہہ کر کیس نمٹا دیا کہ اگر چند افراد دوبارہ نکاح پڑھا لیں گے تو اس میں کیا حرج ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سے پہلے پانی سر سے گزر جائے، ہر کوئی اپنی عدالت لگالے، ہر کوئی مفتی بن جائے، یا پھر کوئی سرپھرا، کوئی لالچی شخص اپنے دنیاوی مفادات کےلیے کسی پر توہین رسالت کا الزام لگادے، ریاست کو جاگ کر اپنی ذمے داری کا احساس کرنا ہوگا۔ اس سلسلے ہم متحدہ عرب امارات کی پیروی کرسکتے ہیں۔ آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ امارات میں کیا ہوتا ہے۔

متحدہ عرب امارات میں ایک سرکاری فتوی سینڑ موجود ہے، جہاں پر مفتی صاحبان عربی، انگلش اور اردو زبان میں آپ کی مدد کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ آپ امارات میں کہیں پر موجود ہیں، آپ کو کوئی بھی مسئلہ معلوم کرنا ہے تو آپ سینٹر کے ٹیلیفون نمبر پر مفت کال کرکے اس بابت آگاہی حاصل کرسکتے ہیں۔ رابطے کا نمبر ہر مسجد میں اوقاف کی جانب سے آویزاں کیے گئے اذکار کے چارٹ پر بھی موجود ہوتا ہے۔ سرکاری فتویٰ سینٹر کے علاوہ کسی سے بھی دین کی بات معلوم کرنا آپ کےلیے مناسب نہیں ہوگا۔

اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی سرکاری سطح پر ایک فتویٰ سینٹر قائم کردیا جائے۔ ہمارے ہاں چونکہ کئی ایک مسالک موجود ہیں تو ہر مسلک سے ایک جید اور مستند عالم کا انتخاب کرکے عوام کو پابند کردیا جائے کہ جس کو دین کی کوئی بھی بات معلوم کرنی ہو تو وہ صرف اور صرف سرکاری فتویٰ سینٹر سے معلوم کرے۔ مذہبی تقریبات کو مسجد کی چار دیواری تک محدود کردیا جائے۔

اور آخر میں عوام سے بھی گزارش ہے کہ مذہب آپ کا ذاتی معاملہ ہے، اس لیے آپ اس کو اپنی ذات تک محدود رکھیے۔ اگر آپ سے کوئی دین کی کوئی بات معلوم کرنے کی کوشش کرے تو اس کو سرکاری فتویٰ سینٹر اور جب تک سرکاری طور یہ کام نہ ہو اس وقت تک کسی مستند عالم دین کی راہ دکھائی جائے۔ ہم سب عہد کرلیں کہ ہم کسی مذہبی معاملے پر اپنے خیالات کا اظہار نہیں کریں گے۔ اور ایک آخری بات، یاد رکھیے اگر آپ نے کسی کو درست دینی معلومات دیں تو یہ صدقہ جاریہ بن جائے گی، اور اگر وہ غلط ہوئی تو نہ صرف گناہ جاریہ بن جائے گی، بلکہ ہوسکتا ہے کہ آپ پر توہین رسالت کا الزام بھی لگ جائے اور اور…

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد عمران چوہدری

محمد عمران چوہدری

بلاگر پنجاب کالج سے کامرس گریجویٹ ہونے کے علاوہ کمپیوٹر سائنس اور ای ایچ ایس سرٹیفکیٹ ہولڈر جبکہ سیفٹی آفیسر میں ڈپلوما ہولڈر ہیں اور ایک ملٹی اسکلڈ پروفیشنل ہیں؛ آپ کوچہ صحافت کے پرانے مکین بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔