ایک نیا بحران مبارک

سالار سلیمان  منگل 10 نومبر 2020
اس سال کپاس کی فصل میں 62 فیصد تک کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔ (فوٹو: فائل)

اس سال کپاس کی فصل میں 62 فیصد تک کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔ (فوٹو: فائل)

گزشتہ دنوں میری نظروں سے ایک خبر گزری تھی، میں نے اس کو سرسری سا سمجھ کر جانے دیا۔ اچانک ایک خیال میرے ذہن میں بجلی کی طرح کوندا۔ اس پر تحقیق کی تو سر پیٹ لیا اور تب ہی سوچ لیا تھا کہ اپنی قوم کو ایک نئے بحران کی مبارک باد دوں گا۔
’’میری قوم کو کپاس کا بحران بھی مبارک ہو۔‘‘

اس مبارک حکومت کے دور میں چینی، آٹا، ادویہ کے بعد اب کپاس کا بحران منہ کھولے کھڑا ہے اور کسی کو علم بھی شاید نہیں ہے کہ کتنی بڑی مصیبت ہمیں دستک دے چکی ہے۔ خیر، ابھی گیس کا بحران بھی آنا باقی ہے۔ فی الوقت ہم کپاس کو روتے ہیں۔

ٹیکسٹائل انڈسٹری پاکستان کی برآمدات کا 50 فیصد تک ہے۔ کچھ کے مطابق یہ 62 فیصد بھی ہے۔ ہماری کل ورک فورس کا تقریباً 40 سے 42 فیصد اسی شعبے سے بالواسطہ یا بلاواسطہ وابستہ ہے۔ کپاس اور کپڑا، یہ وہ انڈسٹری ہے کہ جب سے انسان روئے زمین پر آیا تھا، اس نے اپنا تن ڈھانپنے کا سوچا تھا تو یہ انڈسٹری وجود میں آگئی تھی اور پھر جب انسان قبر میں جاتا ہے تو وہ واحد چیز جو وہ قبر میں اپنے ساتھ لے جاسکتا ہے، وہ کپڑا یا کفن ہے۔ یعنی انسان کی پیدائش سے موت تک یہ انڈسٹری اس کے ساتھ رہتی ہے۔ یہ انڈسٹری اُن 5 شعبوں میں سے ہے جس نے قیامت تک چلنا ہے۔ یہی وجوہات تھیں کہ جب بانیان پاکستان پالیسی سازی کر رہے تھے تو تجارتی ترجیحات میں یہ طے ہوا تھا کہ ہم ٹیکسٹائل انڈسٹری کو رواج دیں گے۔ اس کی بنیادی وجہ میں شرح منافع نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار کی فراہمی تھی۔ آج کے ڈیجیٹل اور کمپیوٹرائزڈ دور میں بھی اس شعبے میں سب سے زیادہ مین فورس کھپانا ممکن ہے۔ کپاس کی بوائی، اس کے بعد چننا بلکہ چننے کے عمل میں تو خواتین بھی ساتھ ہوتی ہیں، اس کے بعد اس کے بیج اور ریشے الگ کرنا، بیج سے تیل نکالنا، روئی سے دھاگا بنانا، دھاگے سے کپڑا بنانا، کپڑا کی رنگائی، کپڑا کی کٹائی، یہ سب الگ الگ شعبے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کپڑے میں نے آپ نے پہن رکھے ہیں، یہ ہم تک پہنچنے میں ہزاروں لاکھوں لوگوں کا بھلا کر چکے ہیں۔ ہماری حماقت کی وجہ سے اب اس انڈسٹری سے تقریباً 50 فیصد روزگار کے ختم ہونے کا خدشہ ہے۔ کیوں؟

کیونکہ پاکستان نے سالانہ ڈیڑھ کروڑ یعنی 15 ملین بیلز کا ٹارگٹ رکھا ہوتا ہے۔ ایک بیلز کا وزن 160 سے 165 کلوگرام ہوتا ہے۔ پاکستان خود 12 ملین پیدا کرتا تھا، باقی دو تین ملین ہم ایکپسورٹ کرتے تھے اور مکس کرکے لوکل مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں۔ مارکیٹ میں ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا تناسب ٹھیک تھا اور کپڑا اتنا مہنگا نہیں ہوا تھا جتنی باقی اشیا مہنگی ہوئی تھیں۔ جو شرٹ اس وقت مارکیٹ میں 900 روپے کی ہے، وہی شرٹ آج سے 5 سال قبل 850 روپے کی تھی، یعنی معمولی یا اس کو یوں کہہ لیجیے کہ قابل نظر انداز قسم کا قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا۔ اب خبر یہ ہے کہ ’’پاکستان میں اس سال کپاس کی فصل میں 62 فیصد تک کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔‘‘

جب مارکیٹ میں طلب و رسد کا تناسب ٹھیک تھا تو ایک دم سے ایسا کیا ہوا کہ ہماری اہم ترین فصل بربادی کے دہانے پر پہنچ گئی؟ بقول حکومتی ذرائع اس مرتبہ ٹڈی دل کا حملہ ہوا۔ میں نے کاؤنٹر چیک کروایا تو یہ دعویٰ سو فیصد جھوٹ پر مبنی ہے۔ دوسرا دعویٰ سامنے آیا کہ کاٹن بیلٹ پر شوگر انڈسٹری ورک کر رہی ہے۔ یہ بھی جھوٹ ہے۔ اصل بات کیا ہے؟

درحقیقت ناقص بیج کی فراہمی نے اس فصل کو برباد کیا ہے۔ وہ کیسے؟

رضی صاحب کے مطابق اصل میں جب زرعی طور پر آپ کچھ بھی امپورٹ کرتے ہیں تو اس کے ایس او پیز طے ہو چکے ہیں۔ یہ ایس او پیز دہائیوں سے ایسے ہی ہیں اور مکمل تحقیق کے بعد مرتب ہوئے ہیں۔ پہلے مرحلے میں آپ دستاویزات مکمل کرکے سرکار سے اس بیج کو لانے کی اجازت لیتے ہیں۔ سرکار اگر اجازت دیتی ہے تو وہ آپ کو ایک مخصوص کھیت دیتی ہے کہ یہاں اس کو آزمائشی طور پر اگایا جائے۔ اس کے بعد محکمہ زراعت کی ٹیم اس کی مکمل مانیٹرنگ کرتی ہے۔ اس کی رپورٹ مرتب ہونا شروع ہوتی ہے۔ جب فصل اگتی ہے تو اس کا مکمل تجزیہ کیا جاتا ہے۔ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس فصل نے آس پاس کے کھیتوں میں کوئی بیماری تو نہیں پیدا کی۔ اس کے بعد اس کو دوبارہ کاشت کیا جاتا ہے اور جب تیسری مرتبہ ایک ہی نسل کے بیج سے فصل پیدا ہوتی ہے اور سارے مراحل سے گزر کر کلیئر قرار پاتی ہے تو حکومت اس کو لانے کی، یعنی امپورٹ کرنے کی اجازت دیتی ہے ۔ یعنی 3 ٹیسٹ ہونے کے بعد ہی کوئی بیج پاکستان میں کمرشل ہوسکتا ہے۔

اب کی مرتبہ ایسا نہیں ہوا۔ مبینہ طور پر بغیر کسی چیکنگ کے نہ صرف بیج پاکستان میں آیا بلکہ ملی بھگت سے کسانوں کو بھی دے دیا گیا اور ان سادہ لوح کسانوں نے اس کو زمین میں بویا۔ فصل ہوئی تو اس پر کالے تیلے نے حملہ کردیا۔ یہ حملہ شدید بھی تھا اور مہلک بھی۔ لہٰذا جب کاشتکار دوا کی تلاش میں بھاگا تو جو دوا مارکیٹ میں دستیاب تھی، اس نے خاک اثر کرنا تھا۔ اس فصل کی دوا تو مارکیٹ میں دستیاب ہی نہیں تھی، جو دستیاب تھی، اس نے اثر ہی نہیں کیا۔ نیتجتاً کپاس کی آدھے سے زیادہ فصل برباد ہوگئی۔ کاشتکار سر پیٹ کر رہ گیا۔ وہ آج بھی خالی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ یہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے۔ وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کی شکایت کہاں درج کروائی جائے۔ خیر، یہ تو میں بھی نہیں جانتا ہوں۔ لیکن، اگر جانتا بھی ہوتا تو اس کا کیا فائدہ ہونا تھا؟

اب کیا ہوگا؟ کیا ہم کپاس باہر سے منگوائیں گے؟ اگر منگوائیں گے تو کیا ہمارے پاس اس کےلیے ڈالرز ہیں؟ وہ یادش بخیر ہم نے کچھ ممالک کے بلین آف ڈالرز بھی واپس کرنے ہیں۔ وہ بھی نرم الفاظ میں اس کی واپسی کا تقاضا کرچکے ہیں۔ نہیں؟

اچھا، چلیے یہ سوچیے کہ کیا اس جرم کے مجرموں کا تعین ہوگا؟ اس کا جواب ہے کہ نہیں۔ اور اگر مجرم سامنے آ بھی گئے تو یہ معذور سسٹم ان کو سزا نہیں دے پائے گا، کیونکہ جنہوں نے سزا دینی ہے، وہ بھی شریک جرم ہیں۔ کیا آٹا، چینی، ادویہ کے مجرموں کو سزا ہوئی ہے؟

قوم کو ایک نیا بحران مبارک ہو۔ اس شعبے سے وابستہ 42 فیصد لیبر سے گزارش ہے کہ کوئی نیا کام ڈھونڈ لیں، اس شعبے کا ستیا ناس بھی ہو ہی چکا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔