سندھ ٹیکنیکل بورڈ میں کرپشن، اقربا پروری اور افسران کو نوازنے کے نئے انکشافات

صفدر رضوی  پير 9 نومبر 2020
پینشن میں بڑا فائدہ لینے کے لیے ناظم امتحانات نے گزشتہ ادارے کی اپنی سروسز ٹیکنیکل بورڈ میں شامل کرالیں

پینشن میں بڑا فائدہ لینے کے لیے ناظم امتحانات نے گزشتہ ادارے کی اپنی سروسز ٹیکنیکل بورڈ میں شامل کرالیں

 کراچی: صوبے میں انٹرمیڈیٹ تک ٹیکنالوجی کے امتحانات لینے والے واحد ادارے سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن میں خلاف ضابطہ طور پر افسران کو نوازنے ، انھیں مالی فائدے پہنچانے اور بھرتیوں کے حوالے سے اہم انکشافات سامنے آئے ہیں۔

سندھ ٹیکنیکل بورڈ کے ناظم امتحانات کے عہدے پر فائز افسر ارباب تھیم نے اثر و رسوخ کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنی سینیارٹی اور مالی فوائد کے لیے ماضی میں کسی دوسرے ادارے میں کی گئی گزشتہ ملازمت کے تجربے کو موجودہ ملازمت میں شامل کرالیا ہے اور گزشتہ ادارے کی جانب سے انکار کے بعد موجودہ ادارے ٹیکنیکل بورڈ سے ریٹائرمنٹ کے وقت زیادہ پینشن کے حصول کے لیے پینشن فنڈ کے نام پر خود ہی رقم جمع کرادی ہے جس سے بورڈ کو ایک غیر قانونی اور بڑا مالی نقصان ہوگا۔

دوسری جانب سیکریٹری اور چیئرمین بورڈ کے مابین اختلافات کی شدت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ سیکریٹری نے چیئرمین بورڈ پر خلاف ضابطہ بھرتیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے کنٹرولنگ اتھارٹی سے ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کردی ہے اور جواب میں چیئرمین بورڈ کی جانب سے سیکریٹری بورڈ کی تعلیمی اسناد کو چیلنج کیا گیا ہے اور انھیں عہدے سے ہٹانے کی سفارش سامنے آگئی ہے ۔ مذکورہ دونوں معاملات موجودہ چیئرمین بورڈ ڈاکٹر مسرور شیخ کے دور سربراہی میں ہی سامنے آئے ہیں جبکہ چیئرمین بورڈ اپنے عہدے کی مدت پوری کرچکے ہیں اور حکومت سندھ کی جانب سے کسی بھی وقت نئے چیئرمین کی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن متوقع ہے۔

“ایکسپریس” کو معلوم ہوا ہے کہ موجودہ چیئرمین بورڈ کے دور میں ہی سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن میں قائم مقام ناظم امتحانات کے طور پر کام کرنے والے گریڈ 17 کے افسر ارباب علی تھیم Arbab ali thahim نے ماضی 1984 میں بحیثیت چوکیدار انٹر بورڈ کراچی جوائن کیا تھا اور اپنی ملازمت کی ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے 2007 میں گریڈ 11 میں اسسٹنٹ کے عہدے تک جاپہنچے اور 2009 میں 17 گریڈ میں اسسٹنٹ کنٹرولر کے طور پر سندھ ٹیکنیکل بورڈ میں ملازمت حاصل کرلی اس اثنا میں pension benefit کے لیے انھوں نے متعدد دو بار انٹر بورڈ کراچی کی اپنی گزشتہ سروس اور اس کے تجربے کو سندھ ٹیکنیکل بورڈ میں شامل کرانے کی کوشش کی جسے بورڈ آف گورنرز سے اس لیے مسترد کردیا گیا کہ کسی خود مختار ادارے کی سروسز کسی دوسرے خود مختار ادارے میں count نہیں کی جاسکتی۔

بورڈ نے رعایت دیتے ہوئے ان سے کیا کہ اگر وہ اپنی پینشن کے مساوی رقم انٹر بورڈ کراچی میں جمع کرادیں اور انٹر بورڈ کراچی اس رقم کو سندھ ٹیکنیکل بورڈ میں جمع کرا دے تاکہ انھیں مذکورہ رقم کے عوض گزشتہ سروس کا تجربہ شامل کرتے ہوئے ریٹائرمنٹ کے وقت پینشن دی جائے تاہم انٹر بورڈ کراچی میں پینشن بینیفٹ نہ ہونے کے سبب اس معاملے پر رقم لے کر ٹیکنیکل بورڈ میں جمع کرانے سے انٹر بورڈ کراچی نے ایک خط کے ذریعے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ بورڈ قوانین کے مطابق ارباب تھیم کی درخواست مسترد کردی گئی ہے جس کے بعد مذکورہ افسر نے رواں سال ہی انٹر بورڈ کراچی کے سروس اور تجربے کو موجودہ ملازمت میں شامل کرتے ہوئے بطور پینشن انٹر بورڈ کراچی خلاف ضابطہ کچھ رقم اپنے پاس سے ٹیکنیکل بورڈ میں جمع کرادی جس کا مالی فائدہ انھیں اور مالی نقصان بورڈ کو ان کی ریٹائرمنٹ کے وقت ہوگا یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے جب محض ایک افسر کو نوازنے کی خاطر ایک خود مختار ادارے کی سروسز کو دوسرے خود مختار ادارے نے اپنی سروس میں شامل کرلیا۔

علاوہ ازیں سیکریٹری کے عہدے پر قائم مقام کے طور پر تعینات افسر قاضی عارف علی نے اپنے چیئرمین بورڈ پر اسامیاں مشتہر کیے بغیر مختلف گریڈز میں خلاف ضابطہ بھرتیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کو اس کی تفصیلات بھیجی ہیں اور اس معاملے پر چیئرمین بورڈ کے خلاف کارروائی کی سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بھرتیاں گریڈ 9 سے 16 تک میں “اسسٹنٹ، اکاونٹ اسسٹنٹ، ڈیٹا انٹری آپریٹر، سینیئر و جونیئر کلرک اور الیکٹریکل اینڈ مکینیکل سپروائزر” کے عہدوں پر کی گئیں۔

سیکریٹری کی جانب سے اپنے ہی چیئرمین کے خلاف کی گئی شکایت کے ضمن میں کہا گیا کہ بورڈ قوانین کی رو سے چیئرمین بورڈ کسی ایمرجنسی کی صورت میں 6 ماہ سے زیادہ مدت کے لیے بھرتیاں نہیں کرسکتا اور 6 ماہ بعد اسے بورڈ آف گورنرز سے منظور کرانا ضروری ہے تاہم اس معاملے کو “بی او جی” میں پیش نہیں کیا گیا اور تقریبا 3 سال بعد بھی 29 افراد بی او جی کی منظوری کے بغیر کام کررہے ہیں۔

مزید براں اس معاملے پر جب محکمہ بورڈز اینڈ یونیورسٹیز نے چیئرمین ٹیکنیکل بورڈ مسرور شیخ سے جواب طلب کیا تو اپنے تحریری جواب میں انھوں نے سیکریٹری بورڈ کی اکیڈمک پروفائل اور ماضی میں دی گئی خلاف ضابطہ ترقیوں پر سے پردہ ہٹاتے ہوئے مذکورہ محکمے کو بتایا کہ قائم مقام سیکریٹری بورڈ ایک منفی سوچ کے حامل شخص ہیں جنھوں نے معاملے کو چیئرمین بورڈ کی جانب سے حکومت سندھ کو ایک عدالتی کیس کے سلسلے میں بھجوائے گئے ایک خط کے رد عمل کے طور پر حقائق کے برعکس پیش کیا ہے کیونکہ سیکریٹری بورڈ کا اکیڈمک اور سروس ریکارڈ مشکوک اور پر اسرار ہے گریڈ 19 اور 20 میں ان کی ترقی unmatured ہے۔

وہ ماضی میں بورڈ میں سیکریٹری اور کنٹرولر آف ایکزامینیشن کے عہدے پر جب بھی تعینات ہوئے ان کی پراسرار سرگرمیوں اور کنٹرولنگ اتھارٹی کے خلاف بیانات پر انھیں دونوں عہدوں سے برطرف کیا جاتا رہا۔ چیئرمین بورڈ نے اپنے خط میں حکومت سندھ سے سفارش کی ہے کہ قاضی عارف قوائد کے مطابق وہ ایم ایس سی انجینئرنگ نہیں ہیں لہذا انھیں دیے گئے سیکریٹری کے اضافی چارج سے ہٹاکر ان کے گریڈ اور مبہم اکیڈمک دستاویزات کے معاملے پر انکوائری کی جائے۔

ادھر “ایکسپریس” نے جب ان دونوں معاملات پر چیئرمین ٹیکنیکل بورڈ مسرور شیخ سے رابطہ کیا تو انھوں نے ناظم امتحانات کے عہدے پر کام کرنے والے افسر ارباب علی تھیم کی انٹر بورڈ کراچی کی گزشتہ ملازمت کو سینیارٹی کے طور پر موجودہ سروس میں شامل کرنے اور رقم بورڈ میں جمع کرانے کے معاملے کی تصدیق کردی اور بتایا اس سلسلے میں حکومت سندھ کے لاء ڈپارٹمنٹ سے ایڈوانس لی گئی تھی تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ ٹیکنیکل بورڈ کی “بی او جی” تو اس معاملے کو مسترد کرچکی تھی جس پر چیئرمین بورڈ کا کہنا تھا کہ اسی بی او جی نے انٹر بورڈ کے انکار کے بعد براہ راست رقم جمع کرانے کے لیے لاء ڈپارٹمنٹ سے ایڈوانس لینے کی سفارش بھی کی تھی دوسری جانب بھرتیوں کے معاملے پر ان کا کہنا تھا کہ محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز نے کہا ہے کہ یہ معاملہ بی او جی میں لے جائیں ہم اسے آئندہ ماہ ہونے والے بی او جی کے اجلاس میں پیش کردیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔