تیسری آواز

عبدالقادر حسن  پير 23 دسمبر 2013
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

پاکستان ایک پیدائشی جمہوری ملک ہے۔ نظریاتی اعتبار سے ایک مکمل جمہوری ملک اور اس ملک کا ایک دعویٰ یہ بھی ہے کہ یہ پہلا پیدائشی جمہوری ملک ہے کیونکہ اس میں جمہوریت بعد میں نہیں آئی بلکہ پاکستان اور جمہوریت دونوں ایک ساتھ آئی ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس ملک کے بانی بذات خود ایک مکمل جمہوری انسان تھے اور جمہوری اصولوں پر یقین رکھتے تھے اس لیے اگر آج اس ملک میں عوام کا کوئی بڑا مسئلہ حل کرنے کے لیے کسی جماعت کی طرف سے اسمبلیوں سے باہر جلسے جلوس کا اہتمام کیا جاتا ہے تو وہ اس ملک کے مزاج اور اصولوں کے عین مطابق ہے کسی اصول اور نظرئیے کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ وجہ جو بھی ہے ملک میں مہنگائی اس کی توفیق سے بڑھ گئی ہے۔ سوائے ارب پتی سیاستدانوں کے کسی پاکستانی کے لیے دن سے رات اور رات سے دن کرنا آسان نہیں رہا بلکہ نا ممکن ہو گیا ہے۔

میرے گھر میں جو بل آتے ہیں پانی بجلی گیس وغیرہ جیسی بنیادی ضروریات کے وہ اگر میں ادا کر دوں جو بہر حال اداکرنے ہی ہوتے ہیں تو مجھے اپنے روز مرہ کے اخراجات پر نظرثانی کرنی پڑتی ہے اور ان میں سے کسی چیز کی کمی لازم ہو جاتی ہے ایسی زندگی کی مجبوریاں انسان کو خود سکھاتی ہیں مثلاً میں نے ڈبل روٹی کے ٹوسٹ کھانے بند کر دیے ہیں اور ان کی جگہ موٹی روٹی پکواتا ہوں اور اس پر کچھ لگا لیتا ہوں خود کو یہ دھوکہ دیتا ہوں جو شاید غلط نہیں ہے کہ ڈبل روٹی میں آٹے کے علاوہ بھی یقیناً کوئی چیز شامل کی جاتی ہو گی جو اسے دو چار دن تک صحیح و سلامت زندہ رکھ سکے۔ ایسی کوئی بھی چیز بالعموم انسانی صحت کے لیے درست نہیں ہوتی۔ فاسٹ فوڈ ایجاد کرنے والے امریکی خود کہتے ہیں کہ ان کی چیزیںمزیدار تو ہوتی ہیں لیکن انسانی صحت کے لیے مضر ہیں۔

ڈبل روٹی کی طرح میں نے زندگی کی کئی ضروریات ختم کر دی ہیں اس درویش کی طرح جس نے ایک چرواہے کو تالاب میں ہاتھوں کا پیالہ بنا کرپانی پیتے ہوئے دیکھ کر اپنے تھیلے سے پانی والاگلاس نکال کر پرے پھینک دیا تھا کہ اس بوجھ کے بغیر گزر ہو سکتا ہے اسی طرح کئی دوسری ضروریات بھی ہیںجو ضروریات نہیں عادتاً ضروری بنا لی گئی ہیں۔ بات تو میں ایک تیسری آواز کی کرنا چاہتا تھا لیکن مہنگائی کے ذکر نے ذہن اس قدر پریشان کر رکھا ہے کہ سوچ ایک جگہ ٹکتی ہی نہیں ہے۔ یہ تیسری آواز ہے عمران خان کی۔

یہ غیر سیاسی نوجوان کچھ عرصے سے سیاست میں ہے اور اپنی کسی قدر کرشماتی شخصیت کی وجہ سے نوجوانوں میں بہت مقبول ہے اس نے سیاست میں قدم رکھا تو ساتھی ملتے گئے اور اس کی ایک جماعت بن گئی۔ وہ نئے ذہن کا مالک تھا وہ ذہن جو بہت کم کسی ہی پاکستانی کا ہو گا اس کا رعب سب پر بیٹھا ہوا تھا۔ قبول عام کھیل کرکٹ میں ناموری بیرون ملک زندگی برطانیہ کے ایک قریب قریب شاہی خاندان میں شادی اور برطانوی پریس میں شاہی تقریبات کی فوٹو گرافی میں اس کی بیگم کی اکثر موجودگی۔ پھر پاکستان میں ایک اسپتال کی تنصیب اور اس اسپتال کی شہرت اور اعلیٰ معیار۔ اس کا یہ کارنامہ اس کی والدہ مرحومہ کے نام پر تھا لیکن عام پاکستانی بھی اس سے برابر کا فائدہ اٹھاتا تھا اس طرح عمران خان کا یہ صدقہ جاریہ ملک بھر میں پھیلا ہوا۔

پاکستان میں اس کے تعارف کی ایک بڑی وجہ یہ اسپتال بھی تھا۔ ان تمام اسباب نے عمران خان کو ایک اعلیٰ درجہ کی شخصیت عطا کردی اور آج اس کی جماعت کو ہمارے سابقہ حکمرانوں کی عوام کے مفاد سے لاپرواہی اور تعلقی نے ایسے حالات دے دیے کہ اس کی آواز ایک بہت بڑی سیاسی آواز بن گئی ہے اس کی جماعت میں چوہدری اعجاز جیسے پرانے ابتدائی زمانے کے کارکن اور آج کے شاہ محمود قریشی جیسے غرض مند سیاستدان سبھی شامل ہیں کیونکہ جہاں عمران کے پرانے ساتھی اپنی کوششوں کو بار آور ہوتا دیکھ رہے ہیں وہاں کئی مایوس سیاستدان بھی مراد پا رہے ہیں اس لیے کہ اب عمران خان عوامی مقبولیت حاصل کر چکا ہے ایک صوبے میں اس کی حکومت ہے جو ایک مشہور پارٹی کا دل جلا رہی ہے تو دوسرے صوبوں میں اس کی آواز اتنی بلند ہو چکی ہے کہ ہر کان تک پہنچ رہی ہے ان حالات میں عمران خان کو سیاسی تربیت اور سیاسی ساتھیوں کی سخت ضرورت ہے تاکہ وہ سیاست کے کامیاب راستوں پر سفر جاری رکھ سکے تاہم لازم ہے کہ وہ ہمارے جیسے برخود غلط اور مایوس لکھاریوں سے بچ کر رہے۔

لاہور میں عمران کا یہ دوسرا شو تھا جو واقعی ایک بڑی خبر بن گیا۔ حکومت نے حسب معمول حماقت کی اور جلوس کے راستے بند کرنے کی خبریں دیں وہی خبریں جو اکثر کسی کو اونچا اڑانے کا سبب بن جاتی ہیں۔ عمران کے جلوس کا نعرہ مہنگائی کو ختم کرنے کے بارے میں تھا۔ میرا خیال تھا جو اب خیال خام دکھائی دیتا ہے کہ حکمرانوں کو خود گرانی کے خلاف آواز اٹھانی تھی کیونکہ عوام کے ساتھ ان کا تعلق عمران کے مقابلے میں بہت پرانا تھا اور اب تو وہ اسی تعلق کی بنا پر بھاری بھر کم انتخابی مینڈیٹ کے ساتھ حکومت میں ہیں لیکن افسوس کہ عوام کی طرف انھوں نے غور سے نہیں دیکھا اور اس خلا میں مایوس عوام کو عمران خان لے اڑا۔ اب عمران کی آواز یوں تیسری ہے کہ پیپلز پارٹی اور حکمران جماعت کے بعد اس کی آواز ہی سنی جا رہی ہے اگر عمران نے بیٹنگ اور بالنگ ٹھیک سے کی تو وہ یہ ٹیسٹ میچ جیت سکتا ہے لیکن لازم ہے کہ اس کے ساتھ مہنگے لوگ ہی نہ ہوں کچھ مہنگائی کے مارے ہوئے بھی ہوں تاکہ یہ تیسری آواز کہیں بیٹھ نہ جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔