پڑھنا ہو تو چین میں پڑھئے!

کامران امین  بدھ 11 نومبر 2020
چینی یونیورسٹیوں نے پچھلی دہائی سے اپنا معیار بہتر بنانے پر بہت توجہ دی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

چینی یونیورسٹیوں نے پچھلی دہائی سے اپنا معیار بہتر بنانے پر بہت توجہ دی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

چین میں اسکالرشپ کا سیزن شروع ہوگیا ہے۔ ہمارے اچھے طالب علموں کو پڑھنے چین جانا چاہیے یا نہیں؟ یہ سوال تو اب پوچھا ہی نہیں جانا چاہیے۔ اس کے باوجود میں دیکھ رہا ہوں کہ بہت سے لوگ اب بھی اس کنفیوژن میں ہیں۔ کچھ دن پہلے ایک دوست نے لکھا کہ اس کی چین میں ایک بہت اچھی اسکالرشپ ہو گئی تھی لیکن اس کے استاد نے اسے وہاں جانے سے منع کردیا۔ یہ پڑھ کر بہت افسوس ہوا۔ اب وہ بے چارہ پریشان تھا کہ غلطی کر دی۔

اس تحریر کا مقصد کسی بھی ملک کو برا ثابت کرنا ہرگز نہیں، بلکہ میں نے وہ وجوہ ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے جو شاید اس طرح کے ذہن کو چین آنے پر قائل کرسکیں؟ اسکالرشپ دنیا کے جس ملک میں بھی مل جائے، کمال کی چیز ہے۔

چین میں پڑھتے ہوئے مجھے اب تقریباً 4 سال ہونے والے ہیں۔ میں نے ماسٹرز بھی چین سے کیا تھا اور میری ریسرچ پبلی کیشنز ماسٹر میں بھی بہت اچھی تھیں۔ تو پی ایچ ڈی کےلیے سب کا مشورہ تھا کہ کہیں اور چلے جاؤ۔ یار دوست تو پہلے دن سے ہی کہ رہے تھے کہ تم چین کیوں آگئے ہو؟ امریکا یا یورپ چلے جاتے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پھر میں یورپ سے بھی ہو آیا اور اب ہمارا ایک جوائنٹ پروجیکٹ یونیورسٹی آف برسٹل، برطانیہ کے ساتھ چل رہا ہے، وہاں بھی رہ کر آیا ہوں۔

تو جناب! ہر جگہ کے اپنے فائدے اور نقصانات ہیں لیکن یورپ گھومنے کے بعد میرا یقین اور پختہ ہو گیا کہ چین آنے کا فیصلہ بالکل صحیح تھا۔ باقی باتوں کا خیر سے اب میں عادی ہو چکا ہوں۔ بی ایس کرتے وقت جب میں نے انجینئرنگ یونیورسٹی چھوڑ کر پریسٹن میں بی ایس نینو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں داخلہ لیا تو احباب میں سے ہر ایک نے حسب توفیق خوب برا بھلا کہا۔

ہمارے ہاں ٹرینڈ یہ ہے کہ اچھے طالب علم کو یا تو ڈاکٹر بننا چاہیے یا انجینئر، دوسری کسی طرف دھیان ہی نہیں جاتا۔ اسی طرح کا ایک ٹرینڈ یہ بھی ہے کہ پڑھنے جائیں گے تو یورپ یا امریکا۔ چین میں پتا نہیں کس طرح کی تعلیم ہے؟ معیاری ہے بھی یا نہیں؟ باتیں کرنے والے تو باتیں کرتے ہیں لیکن کچھ اچھے طالب علم اسی شش و پنج میں راستے سے ہٹ جاتے ہیں۔ کچھ کو مایوسیاں گھیر لیتی ہیں۔ میرا ایک دوست اچھا بھلا چین آ رہا تھا، ایک اچھے ادارے میں اس کا داخلہ سو فیصد یقین کے ساتھ ہو جاتا، لیکن پتا نہیں کس نے اس کا دماغ خراب کیا۔ وہ چین سے باہر پوزیشن ڈھونڈنے لگا تو چین والی پوزیشن سے بھی گیا۔ کچھ دن پہلے اس نے رابطہ کر کے کہا چین میں کہیں بھی داخلہ کروا دو، کسی بھی طرح سے کسی بھی ادارے میں، لیکن بس کروا دو! مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔

ہمارے ہاں اکثر طالب علموں کو یورپ کے بارے میں پتا ہوتا ہے۔ لیکن ایک تو وہاں داخلہ مشکل سے ملتا ہے اور دوسرا وہ اسکالرشپس بہت کم دیتے ہیں جس کی وجہ سے طلبا کو خود سے اچھا خاصا خرچہ کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں غریب مگر لائق طالب علم خاموشی سے گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسے تمام دوستوں کےلیے میں نے سوچا کہ کچھ لکھا جائے۔

یہ پہلا سوال ہے اور آنے والے دنوں میں کوشش کروں گا کہ اس کے جواب میں کچھ دلائل دے سکوں۔

چین کے بارے میں ہمارے ملک میں بے انتہا غلط فہمیاں ہیں۔ حالانکہ ہم پڑوسی ہیں اور بہت اچھے دوست۔ ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ چین کا مال دو نمبر ہوتا ہے۔ لیکن چین اترتے ہی جو پہلی چیز حیران کرتی ہے، وہ یہ کہ دنیا کی تقریباً ہر بڑی کمپنی کا پروڈکشن یونٹ چین میں ضرور ہوتا ہے یا وہ چینی کمپنیوں سے مال خرید کر اپنا برانڈ لگا کر فروخت کردیتے ہیں۔ خیر، چونکہ چین سے آنے والی چیزیں دو نمبر ہوتی ہیں لہٰذا بہت سارے احباب یہ فرض کرلیتے ہیں کہ وہاں سے آنے والی تعلیم بھی دو نمبر ہی ہوگی یا کوئی خاص معیار کی نہیں ہوگی۔

تو جناب! اگر آ پ نے بھی گریجویشن مکمل کرلیا ہے اور مزید اعلیٰ تعلیم کےلیے بیرون ملک جانے کا سوچ رہے ہیں تو میرے خیال میں چین ایک بہترین انتخاب ہے۔ اگر آپ کا یورپ یا امریکا کی کسی اچھی یونیورسٹی میں اسکالر شپ پر داخلہ ہوجاتا ہے تو بہت خوب، لیکن اگر نہیں ہوتا تو مایوس بالکل نہ ہوں، چین ہے ناں!

چینی یونیورسٹیوں نے پچھلی دہائی سے اپنا معیار بہتر بنانے پر بہت توجہ دی ہے۔ کسی ملک کی تعلیم کا معیار مختلف پیمانوں سے جانچا جاسکتا ہے۔ لیکن ان میں ایک بہت اہم پیمانہ بین الاقوامی سطح پر اس ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی رینکنگ ہے۔ پچھلی دہائی میں چین نے باقاعدہ منصوبہ بندی سے اس رخ پر کام کیا اور نتائج خود ملاحظہ کر لیجیے: بین الاقوامی سطح پر یونیورسٹیوں کی رینکنگ میں سب سے معتبر نام کیو ایس رینکنگ سسٹم (QS Ranking System) ہے۔ 2016 میں کیو ایس رینکنگ کے مطابق چین کی 4 یونیورسٹیاں دنیا کی 100 بہترین یونیورسٹیوں میں شامل تھیں۔ حال ہی میں 2021 کی کیو ایس رینکنگ جاری ہوئی اس کے مطابق 7 چینی یونیورسٹیاں دنیا کی 100 بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ہیں۔ ہانگ کانگ، کہ جو چین کے زیر انتطام علاقہ ہے، اسے بھی شامل کرلیں تو یہ تعداد 12ہوجاتی ہے۔ (2017 میں جب پہلی مرتبہ میں نے یہ بلاگ لکھا تھا تو یہ تعداد صرف سات تھی۔ اس سے آپ اندازہ لگا لیجیے کہ کتنی تیزی سے چینی اپنی یونیورسٹیوں کا معیار بہتر بنا رہے ہیںڈ) نہ صرف تعداد میں اضافہ ہوا ہے بلکہ یونیورسٹیوں کی رینکنگ میں بھی بہتری ہوئی ہے۔

مثلاّ شنگخواہ اور پیکنگ یونیورسٹی کی 2016 میں رینکنگ بالترتیب 25 اور 41 تھی جبکہ 2017 میں یہ 24 اور 39 ہوئی؛ اور جناب 2020 میں یہی رینکنگ بالترتیب 15 اور 23 ہوگئی ہے۔ رینکنگ کا یہ معیار کتنا مشکل ہے؟ اس بات کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پوری مسلمان دنیا سے صرف ایک یونیورسٹی ٹاپ 100 میں شامل ہے جبکہ پاکستان کی بہترین یونیورسٹی بھی دنیا کی 500 ٹاپ یونیورسٹیز کی لسٹ میں 355 ویں نمبر پر ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک لمبے عرصے تک اس لسٹ میں امریکا، برطانیہ اور یورپ کی اجارہ داری تھی۔ لیکن پچھلی دہائی سے چینی یونیورسٹیوں نے اپنا معیار بہت بہتر بنایا ہے اور بین الاقوامی سطح پر ان کی ساکھ بہت بہتر ہوئی ہے۔

اب تک ہم نے رینکنگ پر ہی بات کی ہے۔ بعض دوست اس پر یہ کہ سکتے ہیں کہ یونیورسٹی کی مجموعی رینکنگ تو بہت بہتر بنائی جا سکتی ہے لیکن چین میں ریسرچ کا وہ معیار نہیں ہے جو یورپ یا امریکا کا ہے۔ اس بات کی وضاحت ’’نیچر پبلشنگ انڈیکس‘‘ سے سمجھی جا سکتی ہے۔ نیچر پبلشنگ انڈیکس دنیا بھر میں سائنسی تحقیق شائع کرنے والے انتہائی اہم 68 ایسے جرائد کا احاطہ کرتا ہے جن میں دنیا کے نامور سائنسدان اپنی تحقیق شائع کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان تحقیقی جرائد (ریسرچ جرنلز) سے ڈیٹا اکٹھا کرکے ترتیب دیا جاتا ہے جس سے کسی بھی یونیورسٹی یا ملک میں ہونے والی تحقیق کے معیار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

2014 سے میری یونیورسٹی (چائنیز اکیڈمی آف سائنسز) اس فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اس سال اس فہرست میں ہارورڈ یونیورسٹی کا دوسرا، آکسفورڈ کا ساتواں اور کیمبرج کا آٹھواں نمبر ہے۔ اس کے علاوہ اگر بحیثیت ملک جائزہ لیا جائے تو امریکا اس فہرست میں پہلے نمبر پر ہے اور چین دوسرے نمبر پر ہے۔ اسی طرح جرمنی تیسرے، برطانیہ چوتھے اور جاپان پانچویں نمبر پر ہے۔

اس سے یہ بات عیاں ہے کہ امریکا کے بعد تحقیق کے معیار کے لحاظ سے بھی چین اس وقت باقی ساری دنیا، بشمول یورپ وغیرہ سے بہت آگے ہے۔

یہاں میں آپ کو ایک مزے کی بات بتاتا چلوں۔ چائنیز اکیڈمی آف سائنسز میں نیشنل سینٹر فار نینو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ایک چھوٹا سا اور بالکل نیا انسٹی ٹیوٹ ہے۔ ہم تقریباً 354 طالب علم ہیں۔ نیچر پبلشنگ انڈیکس میں ایک سال کے اندر ہمارا اسکور 344 ہے۔ اس کے مقابلے میں پورے پاکستان کا اسکور 180 ہے یعنی یہاں ایک انسٹی ٹیوٹ کی ریسرچ پبلی کیشنز کا معیار اور تعداد پورے پاکستان سے دگنی ہے!

ایک اور اہم فیکٹر سہولیات کی دستیابی کا ہے۔ سائنسی تحقیق میں استعمال ہونے والے جدید آلات بہت مہنگے ہیں اسی لیے پاکستان جیسے ملکوں میں نایاب تسلیم ہوتے ہیں؛ جبکہ الیکٹرون مائیکرو اسکوپ (جو جدید سائنسی تحقیق کا ایک اہم اوزار ہے) پاکستان میں خال خال ہی کسی لیبارٹری میں دستیاب ہے اور وہ بھی طلبا کی پہنچ سے بہت دور۔ لیکن یہاں چین میں یہ لوگ تعلیم پر پیسہ پانی کی طرح بہا رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی لیبارٹریز ہر طرح کے جدید آلات سے بھری ہوئی ہیں۔

نیشنل سینٹر فار نینو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں، جہاں میں تعلیم حاصل کر رہا ہوں، ایک ہی چھت کے نیچے اسکیننگ الیکٹرون مائیکرو اسکوپ، ہائی ریزولیوشن ٹرانسمیشن الیکٹرون مائیکرو اسکوپ، رامن اسپیکٹروسکوپی، اٹامک فورس مائیکرو اسکوپی، ایکس پی ایس، این ایم آر، کنفوکل لیزر مائیکرو اسکوپی اور ہر طرح کے جدید آلات دستیاب ہیں۔ اس طرح کے ادارے یورپ اور امریکا میں بھی بہت ہی کم ہیں جہاں ساری سہولیات ایک ہی چھت کے نیچے دستیاب ہوں۔ پھر یورپ یا امریکا میں مہنگے اور جدید آلات طلبا کو خود سے استعمال نہیں کرنے دیئے جاتے بلکہ مشین آپریٹرز طلبا سے سیمپلز لے کر ان کا تجزیہ کرتے ہیں۔

لیکن یہاں چین میں ہر طرح کے مہنگے آلات بھی طلبا خود استعمال کرتے ہیں، بغیر کسی جھجک کے، اپنی مرضی سے، اور جتنے وقت کےلیے مرضی ہے استعمال کریں، کوئی پابندی نہیں۔ عموماً یہاں نینو سینٹر میں ہم لوگ الیکٹرون مائیکرو اسکوپ پوری پوری رات بیٹھ کر استعمال کرتے ہیں۔ جب میں امریکا یا یورپ میں موجود اپنے دوستوں سے یہ ساری سہولیات بیان کرتا ہوں تو وہ ہم پر رشک کرتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بعض انتہائی مشہور یورپی اداروں نے یہاں کی یونیورسٹیز سے اس طرح کا معاہدہ کیا ہوا ہے کہ ان اداروں کو یہاں کی سہولیات سے استفادہ کرنے دیا جائے گا۔

چین میں پڑھنے کی ایک اور وجہ یہاں وافر تعداد میں دستیاب اسکالر شپس بھی ہیں۔ یوں تو دنیا بھر میں ہی اچھے پڑھنے والے، ذہین طلبہ کو متوجہ کرنے کےلیے اسکالر شپس جاری کی جاتی ہیں لیکن چین میں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ چین میں ہر سال 300 کے قریب مختلف یونیورسٹیوں میں تقریباً سوا دو لاکھ (225,000) غیر ملکی طلبا کو داخلہ دیا جاتا ہے اور ہر سال اس میں 5 فیصد اضافہ بھی کیا جاتا ہے۔ اس طرح چین دنیا میں غیرملکی طالب علموں کو اسکالر شپس فراہم کرنے والے بڑے ملکوں میں سے ایک ہے۔ اسکالر شپ میں ٹیوشن فیس کی معافی سے لے کر رہائش اور اضافی جیب خرچ تک شامل ہوسکتا ہے۔ جیب خرچ کی مالیت 50 ہزار پاکستانی روپے سے لے کر ڈیڑھ لاکھ پاکستانی روپے تک ہوسکتی ہے۔ اس وقت تقریباً تیس ہزار پاکستانی طلبہ چین کی مختلف یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان میں تقریباً 7000 طالب علم اسکالرشپس پر ہیں، یعنی مفت پڑھ رہے ہیں۔

چائنیز گورنمنٹ اسکالرشپس، چائنیز یونیورسٹیز اسکالرشپس اور کیس ٹواس (CAS-TWAS) پریزیڈنٹ اسکالر شپس وہ چند مشہور ایوارڈز ہیں جو غیر ملکیوں کو دیئے جاتے ہیں۔ ان کے بارے میں مزید تفصیلات ان شاء اللہ جلد ہی کسی تحریر میں بیان کروں گا۔

اس سب سے بڑھ کر مزے کی بات یہ ہے کہ چین دنیا بھر میں پرانی ترین تہذیبوں میں سے ہے اور ان کے کچھ آثار ہم آج کے دور میں دیکھ سکتے۔ اسی طرح حال ہی میں چین نے قابل رشک ترقی کی ہے اور یہ سفر اب بھی جاری ہے۔ آپ اپنی آنکھوں کے سامنے دنیا بدلنے کا منظر دیکھ سکتے ہیں۔ چین دنیا بھر کے سیاحوں کےلیے بھی پسندیدہ ترین مقامات سے ہے۔ یہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ سیر و سیاحت کا شوق بھی بہ آسانی اس لیے پورا کیا جا سکتا کہ پیسے بھی چائنیز ہی دے رہے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ چین دنیا بھر میں جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کرنے والے ممالک بھی سر فہرست ہے۔ مثلاً تقریباً تین سال ہوگئے ہیں، میں نے کاغذ والی کرنسی شاذ و نادر ہی کہیں دیکھی ہوگی۔ ہم لوگ موبائل سے پیمنٹ کرتے ہیں۔

یہاں تک کہ ان کے بھکاری بھی، اب اگر کہیں ہوں تو، موبائل سے پیسے ٹرانسفر کرواتے ہیں۔ یہ نظام پاکستان میں بھی لانچ کیا جائے گا لیکن پتا نہیں کب اور اس میں کتنا وقت لگے گا۔ تو آپ چین میں رہ کر مستقبل کی ایک جھلک بھی دیکھ سکتے ہیں۔

بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اپنے ملک سے باہر جا کر کسی دوسرے ملک میں مختلف، کلچر، رنگ، نسل اور مذاہب کے لوگوں کے ساتھ اکٹھے تعلیم حاصل کرنے سے جو انسانی شخصیت اور نفسیات پر مثبت اثرات پڑتے ہیں، وہ اپنے ملک میں رہ کر نہیں حاصل کئے جاسکتے۔ مثلاً پاکستان میں ایک کلاس میں سارے ہی طلبہ مسلمان ہوتے ہیں، لیکن یہاں پتا نہیں کتنے مذاہب کے طالب علم ایک ساتھ بیٹھتے ہیں؛ اور جب ان کے ساتھ گفتگو ہوتی ہے، ان کے مختلف خیالات سننے کا موقع ملتا ہے تو نہ صرف اپنی نفسیات کے الٹ خیالات برداشت کرنے کی تربیت ہوتی بلکہ نئی نئی چیزیں سیکھنے کو بھی ملتی ہیں۔

اور شاید سب سے اہم بات تو میں چھوڑ ہی گیا۔ چین پاکستان کا دوست ملک ہے اور جیسے ہمیں کتابوں میں پڑھایا جاتا ویسے ہی ان کی کتابوں میں بھی پاکستان اور پاکستانیوں کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا جاتا ہے۔ چینی پاکستانیوں کےلیے ایک لفظ استعمال کرتے ہیں جس کا مطلب ہے ’’لوہے سے مضبوط بھائی۔‘‘ اپنے ملک کے باہر جتنی عزت پاکستانیوں کی چینی کرتے ہیں شاید ہی کسی اور ملک میں ہو۔ لڑائی جھگڑے بھی یہاں ذرا کم ہوتے ہیں۔ امن و امان کا بھی مسئلہ نہیں ہوتا۔ رات کے دو دو بجے تک ہم باہر اکیلے آوارہ گردی کرتے رہتے اور دل میں کتے کے کاٹنے کا ڈر بھی نہیں ہوتا، اس لیے کہ کتے انہوں نے باندھ کر رکھے ہیں۔ مارکیٹ میں یا کہیں باہر چلے جائیں تو پاکستانی سمجھ کر ان رویہ ایک دم دوستانہ ہو جاتا ہے۔ بھائی صاحب اتنی عزت مل رہی ہو تو اور کیا چاہیے؟

ان ساری باتوں کا مطلب یہ تھا کہ جناب! اگر آپ کے دل میں بھی چین کے بارے میں کوئی غلط فہمی ہے تو اسے دور کر لیجیے۔ علامہ اقبال نے لکھا تھا کہ

گراں خواب چینی سنبھلنے لگے ہیں
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے ہیں

یقین کیجیے کہ یہ ہمالہ کے چشمے اب واقعی اُبل رہے ہیں۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

کامران امین

کامران امین

بلاگر کا تعلق باغ آزاد کشمیر سے ہے اور چین سے میٹیریلز سائنسز میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بیجنگ میں نیشنل سینٹر فار نینو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، چائنیز اکیڈمی آ ف سائنسز سے بطور اسپیشل ریسرچ ایسوسی ایٹ وابستہ ہیں۔ چین میں تعلیمی زندگی اور تعلیم سے متعلقہ موضوعات پر لکھنے سے دلچسپی ہے۔ ان سے فیس بک آئی ڈی kamin.93اور ٹوئٹر ہینڈل @kamraniat پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔