سیاست کی تختی

احمد خان  پير 23 دسمبر 2013

سیاست کی کتاب اور حکومتی قاعدے کا مسلمہ اصول ہے خواہ آپ سیاست کے کھلاڑی ہوں یا حکومت کی بیساکھی، آپ کا بنیادی فرض ملک اور اس ملک کے عوام کو لاحق ’’امراض‘‘ کا علاج ہوتا ہے۔ مادیت پرستی کو اگر عقل کل قرار دیا جائے اور اسی مادی ترقی کو پیمانہ بنا کر مہذب ممالک کی فہرست مرتب کی جائے پھر ایسے ممالک کو عوامی خدمت کے اعتبار سے کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے جن ممالک میں سیاست کا طوطی اور عوامی حکومتوں کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے، ان ممالک کی طرز سیاست اور طرز حکومت کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ ان میں ’’تختی سیاست‘‘ اور ’’تختی‘‘ ٹائپ کے منصوبے نہ تو بنائے جاتے ہیں اور نہ ہی ایسے مشہوری ٹائپ پالیسیوں کا نفاذ کیا جاتا ہے۔ یہ تمغہ امتیاز صرف ہماری حکومتوں اور سیاستدانوں کو حاصل ہے کہ سیاست بھی ’’تختی‘‘ پر نام کنندہ کرنے کے لیے کی جاتی ہے اور جب مقدر یاوری کرے تو حکومت میں براجمان ہو کر بھی ’’تختی‘‘ پر نام درج کرنے کو ’’محور‘‘ بنا کر پالیسیاں بنائی اور ان کا نفاذ کیا جاتا ہے۔

جمہوری حکومتوں کی کارکردگی پر نظر کرم فرمائیں، ہر سڑک، ہر اسپتال، ہر گلی، غرض ایئرپورٹ اور شہروں کے نام تک اپنے نام سے منسوب کیے گئے۔ پیسہ عوام کا، خزانہ سرکار اور مشہوری اپنے نام کی۔ سندھ میں کتنے اسپتالوں، شہروں، اسکولوں، یونیورسٹیوں اور سڑکوں کے نام پی پی کے ’’نام وروں‘‘ سے منسوب ہیں۔ بات سندھ پر ہی موقوف نہیں پنجاب، بلوچستان اور کے پی کے پر نظر دوڑائیں، ایسی صورت حال ہر صوبے میںآپ کو ملے گی۔ حال کی حکومت کے منصوبوں کا تجزیہ کیجیے، یوتھ لون بزنس، فلاں ہاؤسنگ اسکیم جیسے تماشے، المختصر سڑکوں اور چوکوں کے نام تک اپنے ناموں سے منسوب کیے جارہے ہیں۔ قابل غور امر ملاحظہ فرمائیے! کئی شہروں میں تو چوکوں اور چوراہوں کے نام ایک جانور کے نام پر رکھے گئے ہیں اور باقاعدہ حکومتی ایما پر رکھے گئے۔

کئی شہر ایسے بھی ہیں جہاں تمام کے تمام چوکوں اور چوراہوں کے نام انتخابی نشان والے جانور سے موسوم کردیے گئے۔ اب عام شہری پریشان ہیں کہ شہر کے مخصوص علاقے کی شناخت کے لیے وہ اجنبی کو کیسے سمجھائیں کہ شہر کا ہر چوک اور ہر چوراہا ایک ہی نام سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ بھلا کیا اس سادے سے نکتے کو سمجھنے کے لیے بھی ’’میر‘‘ سے رجوع کرنا پڑے گا؟ بھلا حکومتیں ’’تختیوں‘‘ کے نصب کرنے کے فن سے عوام کے دلوں میں زندہ رہ سکتی ہیں؟

ترقی یافتہ ممالک کا سب سے اہم سیاسی وصف یہ ہے کہ ان ممالک میں حکومتیں بدلتی رہتی ہیں لیکن ملکی اور عوامی مفاد پر مبنی پالیسیوں کو کوئی بھی حکومت نہیں چھیڑتی۔ عوامی فلاح کے منصوبے اسی تندہی سے جاری رہتے ہیں، مگر ہمارے ہاں ایک حکومت عوامی فلاح کے منصوبے شروع کرلیتی ہے اور اس کی حریف حکومت اقتدار میں آکر اس عوامی فلاح کے حامل منصوبے کو پہلی فر صت میں ’’ٹھنڈا ٹھار‘‘ کردیتی ہے۔ دوسروں کی ’’تختی‘‘ اکھاڑنے اور اپنے نام کی ’’تختی‘‘ نصب کرنے کا جو کھیل 90 کی دہائی میں شروع ہوا تمام تر مد و جزر کے باوجود ابھی تک یہ کھیل رواں ہے۔ زمرد خان کس جذبے اور لگن سے یتیم بچوں کے لیے خدمات سر انجام دے رہے تھے کسی سے کچھ ڈھکا چھپا نہیں، لیکن صرف اسے پارٹی وابستگی کی سزا دے کر بیت المال سے الگ کردیا گیا، دوسری جانب عام مزدور کی بھلائی کے لیے سرکار کے پا س رقم نہیں، نچلے طبقے کے تنخواہ دار کے لیے حکومت کے پاس پھوٹی کوڑی نہیں، سی این جی سستی کرنے کے لیے حکومت وقت کا خزانہ خالی ہے، عوام کو سستی بجلی مہیا کرنے کے لیے حکومت کے پاس پیسہ نہیں۔

مگردیگر منصوبوں کے لیے حکومت کے پاس اربوں روپے ہیں۔ بے ہنگم سی ہاؤسنگ اسکیموں اور ان کی مشہوری کے لیے حکومت کا خزانہ قارون کے خزانے جیسی وسعت رکھتا ہے۔ یعنی حکومت اپنے مخصوص اور مشہوری ٹائپ منصوبوں کے لیے زیادہ سے زیادہ روپیہ دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے لیکن ایسے اقدامات جن سے عوام کی اکثریت سکھ کا سانس لے سکے، حکومت ایسے کارناموں کو سرانجام دینے سے گریزاں ہے۔ کیا اسی کا نام عوامی خدمت ہے؟ کیا ایسے ’’ہٹو بچو‘‘ قسم کے حکومتی اقدامات سے حکومتوں کی ہر دلعزیزی اور عوامی پذیرائی میں اضافہ ممکن ہے؟ لیکن بادشاہوں کی طرح ہمارے حکومتی زعما بھی چاہتے ہیں کہ آنے والے انھیں یاد کریں۔

بھلا مزدور کی اجرت اور تنخواہ دار طبقے کی تنخواہوں میں اضافے سے، اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی سے، ملک میں دائمی امن قائم کرنے پر انھیں کون یاد رکھے گا؟ ہمارے حکمران آباؤ اجداد کی پیروی کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ آج تاج محل نہ ہوتا تو اس کے بنانے والے کو بھلا کون جانتا؟ شاہی قلعہ نہ بنایا جاتا تو اس کے خالق کے نام سے ’’فتو ٹائپ‘‘ عوام کیسے آشنا ہوتے؟ ماضی کے انھی ’’میناروں‘‘ کو دیکھ کر ہی تو ہمارے ہر دور کے حکمران شہروں، اسپتالوں، قصبوں، اسکولوں اور سڑکوں کے نام اپنے ناموں سے منسوب کرنے کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔ آخر کون چاہتا ہے کہ اس کا نام رعایا بھول جائے؟ سو اطمینان رکھیے، جب تک عوامی خدمت سے سرشار حکمران اس ملک کو میسر نہیں آتے، اس وقت تک تختی کی سیاست کو برداشت کرلیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔