زمین ہر 26 سیکنڈ بعد ’دھڑکتی‘ ہے... لیکن کیوں؟

ویب ڈیسک  جمعرات 12 نومبر 2020
زمین میں ہر 26 سیکنڈ بعد بہت ہی معمولی، یعنی ’’خرد زلزلے‘‘ آتے ہیں جنہیں صرف زلزلہ پیما آلات پر ہی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

زمین میں ہر 26 سیکنڈ بعد بہت ہی معمولی، یعنی ’’خرد زلزلے‘‘ آتے ہیں جنہیں صرف زلزلہ پیما آلات پر ہی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

وسکونسن: سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ زمین میں ہر 26 سیکنڈ بعد بہت ہی معمولی، یعنی ’’خرد زلزلے‘‘ آتے ہیں جنہیں صرف زلزلہ پیما آلات پر ہی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ماہرین انہیں ’زمین کی دھڑکن بھی کہتے ہیں۔ لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اب تک ماہرین بھی اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں جان سکے ہیں۔

زمین میں ہر 26 سیکنڈ بعد پیدا ہونے والے یہ خرد زلزلے (microseism) پہلے پہل 1962 میں ایک امریکی ارضیات داں جیک اولیور نے دریافت کیے تھے۔ انہوں نے اندازہ لگایا کہ ان معمولی زلزلوں کا مرکز بحرِ اوقیانوس کے استوائی یا جنوبی حصے میں کہیں واقع ہے۔ جیک اولیور نے یہ بھی نوٹ کیا کہ جن دنوں زمین کے شمالی نصف کرے میں گرمیوں کا موسم ہوتا ہے (یعنی جنوبی نصف کرے میں سردیاں ہوتی ہیں) تو ان خرد زلزلوں کی شدت بھی زیادہ ہوجاتی ہے… وہ معمولی سے طاقتور ہوجاتے ہیں۔

بعد ازاں 1980 میں یو ایس جیالوجیکل سروے کے ایک ماہرِ ارضیات، گیری ہولکومب نے ان ’خرد زلزلوں‘ کا ایک بار پھر زیادہ تفصیل سے جائزہ لیا اور بتایا کہ طوفانوں کے دوران یہ زلزلے معمول سے زیادہ طاقتور ہوجاتے ہیں۔

اولیور اور ہولکومب کی ان تحقیقات کو کسی نے بھی توجہ کے قابل نہ سمجھا اور وہ کاغذات میں بند ہوکر رہ گئیں۔ اس کے بعد 2005 میں یونیورسٹی آف کولوراڈو، بولڈر میں زلزلوں کے ماہر، ڈاکٹر مائک رٹزوولر اور ان کے ایک شاگرد گریگ بینسن زلزلوں کا عالمی ڈیٹا کھنگالا تو انہیں معلوم ہوا کہ ہر 26 سیکنڈ بعد، کہیں دُور سے ’زلزلوں کے مدھم سگنل‘ آرہے ہیں۔

لیکن آخر ان خرد زلزلوں کی وجہ کیا ہے؟ اس بارے میں وہ بھی کچھ نہیں جان پائے۔ البتہ، بہت چھان پھٹک کے بعد، آخرکار انہیں معلوم ہوگیا کہ ان زلزلوں کا مرکز براعظم افریقہ کے مغربی سمندروں میں خلیج گنی (گلف آف گنی) کے مقام پر ہے۔

انہوں نے اولیور اور ہولکومب کی تحقیق کا بھی جائزہ لیا اور پھر 2006 میں اپنی تحقیق کی تفصیل ’’جیو فزیکل ریسرچ لیٹرز‘‘ نامی ریسرچ جرنل میں شائع کروا دی۔ یہ تحقیق پڑھ کر کئی ماہرین اس طرف متوجہ ہوئے لیکن آج تک کوئی بھی ان خرد زلزلوں (مائیکرو سیزم) کی ایسی وضاحت نہیں پیش کرسکا ہے جو تمام ماہرین کےلیے قابلِ قبول ہو۔

ایک وضاحت یہ بھی سامنے آئی کہ سورج کی شعاعیں، قطبین (پولز) کے مقابلے میں خطِ استوا اور اس کے آس پاس والے سمندری علاقوں کو زیادہ گرم کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں زیادہ تیز ہواؤں کے علاوہ سمندری طوفان بھی قطبین کے مقابلے میں زیادہ آتے ہیں۔ لہٰذا، طاقتور سمندری لہریں جب بڑے پیمانے پر ساحل سے ٹکراتی ہیں تو وہ اپنی توانائی کو زمین میں منتقل کر دیتی ہیں، جس سے یہ معمولی سی تھرتھراہٹ پیدا ہوتی ہے جسے ہم ’خرد زلزلوں‘ کے نام سے جانتے ہیں۔

لیکن سوال وہی تھا کہ اگر ایسا کوئی معاملہ ہے تو پھر ہر 26 سیکنڈ بعد خرد زلزلے آنے کا کیا جواز ہے؟ اس سوال کے جواب میں سب خاموش تھے۔

چھ سال مزید گزر گئے۔ 2011 میں سینٹ لوئی، امریکا کی واشنگٹن یونیورسٹی کے ارضیات داں ڈوگ وائنز اور ان کے شاگرد گیرٹ آئلر نے خرد زلزلوں (مائیکروسیزم) پر ایک بار پھر تحقیق شروع کی۔ انہوں نے دریافت کیا کہ ان زلزلوں کا مرکز گلف آف گنی میں ’بونی کی کھاڑی‘ (Bight of Bonny) والے مقام پر ہے۔

انہوں نے سمندری لہروں کے ساحل سے ٹکرانے والے مفروضے کی تائید کرنے کے علاوہ یہ بھی بتایا کہ جب سمندر کا پانی بڑے پیمانے پر حرکت کرتے ہوئے ساحل کی طرف بڑھتا ہے تو سمندر کی گہرائی بھی بتدریج کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس وجہ سے سمندری فرش (سمندر کی تہہ والی زمین) پر پانی کا دباؤ زیادہ ہونے لگتا ہے اور میں تھرتھراہٹ پیدا ہوتی ہے جو بہت دور دور تک پھیل جاتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے ہم ’زمین کی دھڑکن‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ تحقیق انہوں نے 2013 میں ’’سیزمولاجیکل سوسائٹی آف امریکا‘‘ کی کانفرنس میں پیش کی۔

لیکن اس وضاحت سے ہر کوئی متفق نہیں تھا۔ اسی سال ووہان، چین میں ’’انسٹی ٹیوٹ آف جیوڈیسی اینڈ جیو فزکس‘‘ میں ماہرین کی ایک ٹیم نے ینگجیائی ژیا کی سربراہی میں تحقیق کے بعد بتایا کہ زمین میں ہر 26 سیکنڈ بعد اٹھنے والے زلزلوں کی وجہ سمندری لہریں نہیں بلکہ آتش فشاں ہیں۔ انہوں نے اپنے دعوے کے ثبوت میں کہا کہ بائٹ آف بونی کے قریب ہی، ساؤ تومے کے جزیرے پر ایک آتش فشاں موجود ہے جو یہ خرد زلزلے پیدا کررہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے زلزلے پیدا کرنے والا ایسا ہی ایک اور آتش فشاں ’آسو‘ کے نام سے جاپان میں موجود ہے۔

یہ بات بہرحال طے ہے کہ زمین میں ہر 26 سیکنڈ بعد بہت ہی معمولی نوعیت کے زلزلے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن سائنسدان اب تک پریشان ہیں کہ آخر ایسا ہوتا کیوں ہے؟

نوٹ: یہ تحریر ’’ڈسکور میگزین‘‘ کی ویب سائٹ پر شائع شدہ ایک حالیہ پوسٹ کی مدد سے تیار کی گئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔