امریکا میں نئے صدر کی آمد، پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

ارشاد انصاری  بدھ 11 نومبر 2020
صدر ٹرمپ کی نسبت جو بائیڈن پاکستان کو بھی بخوبی جانتے ہیں اور پاکستان کے کئی دورے کر چکے ہیں۔فوٹو : فائل

صدر ٹرمپ کی نسبت جو بائیڈن پاکستان کو بھی بخوبی جانتے ہیں اور پاکستان کے کئی دورے کر چکے ہیں۔فوٹو : فائل

 اسلام آباد:  ساری دنیا کی طرح پاکستان کی نظریں بھی منگل کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات پر لگی ہوئی تھی کیونکہ ان انتخابات کے نتائج سے پاکستان کی سیاست، معیشت اور خارجہ پالیسی پر بھی براہ راست اثرات مرتب ہونے ہیں۔

نیا امریکی صدر کیا پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہو گا؟ کیا افغانستان میں امن کی بحالی کے عمل میں پاکستان کی حالیہ کامیابیاں برقرار رہیں گی؟ کیا ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں نئی امریکی انتظامیہ معاون ثابت ہو سکتی ہے؟ کیا خطے میں انڈیا کی بالادستی کے لیے امریکی کوششیں جاری رہیں گی؟ ان سارے سوالوں کے جوابات نئی امریکی انتظامیہ کے آنے کے بعد ہی پتہ چلیں گے۔

ایک تاثر پاکستان میں یہ بھی پایا جاتا ہے کہ حالیہ الیکشن میں شکست کھانے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ پاکستان کی موجودہ حکومت کے اچھے تعلقات جاری ہیں اور ابتدا میں پاکستان کے خلاف انتہائی سخت بیانات دینے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ اب کھل کر افغان امن عمل میں پاکستان کی مثبت کردار کی تعریف کر رہی ہے۔کافی عرصے سے پاکستان کے خلاف امریکا سے کوئی سخت بیان نہیں آیا اور ناں ہی ’ڈو مور‘ کی مانوس صدائیں آ رہی ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر کی شخصیات میں مماثلت بھی پائی جاتی ہے۔ دونوں غیر روایتی سیاستدان ہیں اور دونوں ہی فوری نوعیت کے مختصرالمیعاد منصوبوں پر زیادہ زور دیتے ہیں۔

جرمن جریدے ’دیر سپیگل‘ کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے اس مماثلت پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اور صدر ٹرمپ کئی حوالوں سے ’غیر روایتی‘ ہیں۔ جہاں ایک طرف صدر ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی انخلا کے لیے غیر روایتی اور تیز تر اقدامات کیے ہیں وہیں دوسری طرف جوزف بائیڈن کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ خاصے لمبے غور کرنے کے بعد اس طرح کے فیصلے کرتے ہیں۔ تو کیا ان کے آنے سے افغانستان سے فوجی انخلا کا عمل بھی تعطل کا شکار ہو جائے گا؟ جو بائیڈن امریکا کے نئے صدر منتخب ہو گئے ہیں وہ 78سال کی عمر میں صدارتی حلف لینے والے امریکا کے معمر ترین صدر بن گئے۔

وہ امریکی سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں اور کوئی نصف صدی سے واشنگٹن کے ایوانوں میں متحرک رہے ہیں۔انہوں نے 1972میں امریکی سینٹ کا اپنا پہلا الیکشن جیتااور پھر بار بار جیتتے چلے گئے۔ انہوں نے 1988 اور پھر 2008 امریکی صدارت کے لیے کوششیں کیں لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔

صدر ٹرمپ کے برعکس جو بائیڈن عالمی سفارتکاری کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں ۔ وہ تین بار سینٹ کی طاقتور امور خارجہ سے متعلق کمیٹی کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔2008 میں جب وہ صدر باراک اوباما کے نائب صدر کے امیدوار قرار پائے تو اس میں ان کے اس تجربے کا بڑا عمل دخل تھا۔

صدر اوباما کی طرح جو بائیڈن عالمی سطح پر امریکا کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ وہ گمبھیر تنازعات کے حل کے لیے طاقت کے استعمال کی بجائے سفارتکاری کو ترجیح دیتے ہیں۔ صدر منتخب ہونے کی صورت میں ممکن ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اوباما دور کا ایٹمی معاہدہ بحال کرنے کی کوشش کریں ۔

ریپبلکن پارٹی اور صدر ٹرمپ کی نظر میں یہ ایک کمزور لیڈر کی نشانی ہے۔ صدر ٹرمپ کی نسبت جو بائیڈن پاکستان کو بھی بخوبی جانتے ہیں اور پاکستان کے کئی دورے کر چکے ہیں۔ پچھلی تین دہائیوں کے دوران ان کے پاکستان کے سیاستدانوں اور فوجی جرنیلوں کے ساتھ براہ راست رابطے رہے ہیں اور وہ وہاں سول ملٹری عدم توازن کے مسئلے سے بخوبی واقف ہیں، 2008 میں انہوں نے رپبلکن قیادت کے ساتھ مل کر پاکستان کے لیے اربوں ڈالر کی امداد کا پیکج تیار کیا جس کا نام “بائیڈن لوگر بل” تھا ۔

تاہم ان کے نائب صدر منتخب ہونے کے بعد اس بل کا نام وزیر خارجہ جان کیری کے نام سے منسوب ہوا اور 2009 میں صدر اوباما نے “کیری لوگر بل” کی منظوری دی۔جو بائیڈن سمیت امریکی قیادت کی خواہش تھی کہ اس امداد کے ذریعے پاکستان کو جمہوریت کے تسلسل، آزاد عدلیہ اور دہشتگرد تنظیموں کے خلاف ایکشن کی ترغیب دی جائے۔ لیکن پاکستان میں عسکری قیادت کے شدید اعتراضات کے بعد یہ امدادی پیکج متنازعہ بن گیا۔

وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں بطور امریکی نائب صدر ان کے اسلام آباد کے ایک دورے میں ان سے بارہا پوچھا گیا کہ اگر امریکا پاکستان کا اتحادی ہے تو آئے دن قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے کرکے اس کی خودمختاری کیوں پامال کرتا ہے؟اس موقع پر انہوں نے جو جواب دیا اس سے ان کی پاکستان کے بارے میں سمجھ بوجھ واضح ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے تیس سالہ تجربے کی بنیاد پر وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستانی فوج کا ملکی دفاع میں زبردست کردار رہا ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کی خودمختاری کوئی پامال کرتا ہے تو وہ یہاں بیٹھے انتہاپسند ہیں جو آپ کے ملک کا نام خراب کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ “ہمارا مقصد آپ کی قیادت اور آپ کے وزیراعظم کے ساتھ مل کر آپ کی خودمختاری بحال کرنا ہے جسے انتہاپسند پامال کر رہے ہیں۔اب دیکھنا ہو گاکہ جو بائیڈن پاکستان کے حوالے سے کیا مواقف اختیار کرتے ہیں ۔ اور ہمارے پالیسی ساز اس حوالے سے پاک امریکا تعلقات کون سی پالیسی اختیار کریں گے۔

اس وقت پاکستان کی معاشی اور سیاسی صورتحال کچھ خاص نہیں ہے۔ اب پاکستان آنے والی امریکا انتطامیہ کو کیسے قائل کرنا ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے جو بائیڈن کے آنے سے پاک امریکا تعلقات زیادہ مضبوط ہوں گے کیونکہ جو بائیڈن ایشائی خطے کو بہت قریب سے جانتے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے اچھے خیالات ان کی حکومت کا کام ہے کہ پاکستان اپنا کیس امریکی انتظامیہ کے سامنے کیسے پیش کرے گی۔

توقع کی جا رہی ہے پاکستان کو (ایف اے ٹی ایف ) اور پاکستان کا کوالیشن سپورٹ فنڈر امریکا کی جانب سے رکا ہوا تھا اس پر بھی کوئی نظر ثانی ہو گی۔ رپورٹ کے مطابق 2008ء  میں انہوں نے ری پبلکن قیادت کے ساتھ مل کر پاکستان کیلئے اربوں ڈالر کی امداد کا پیکیج تیار کیا جس کا نام ’’بائیڈن لوگر بل‘‘ تھا۔ تاہم ان کے نائب صدر منتخب ہونے کے بعد اس بل کا نام وزیر خارجہ جان کیری کے نام سے منسوب ہوا اور 2009ء  میں صدر اوباما نے ’’کیری لوگر بل‘‘ کی منظوری دی۔

دوسری جانب نئے امریکی صدر کے لیے بڑے چیلنجز بھی ہیں  چین روس ایران کے ساتھ موجودہ امریکی  صدر ڈنلڈ ٹرمپ کے کوئی اچھے تعلقات نہیں رہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ جو بائیڈن کون سی ایسی پالیسی اپنا کر چین روس ایران کے ساتھ تعلقات بحال کر سکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے چین کو تجارتی طور پر نشانہ بنایا، چین پر کئی طرح کی پابندیاں لگائیں اور کورونا وائرس کے لیے بھی انھیں ذمہ دار ٹھہرایا۔

لیکن کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اندر سے چینی قیادت اب مایوسی کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ ٹرمپ کو پسند کرتے تھے، بلکہ اس لیے کہ وائٹ ہاؤس میں ان کے مزید چار سالوں نے امریکا میں مزید خرابی کا امکان ختم کر دیا ہے۔ ملک میں تفرقے بازی، عالمی دنیا میں تنہائی، ٹرمپ بیجنگ کے لیے ایک ایسے شخص تھے جو امریکی اثر و رسوخ اور طاقت میں کمی لانے کا سبب بن سکتا ہے۔

یقیناً چین ماحولیاتی تبدیلی جیسے بڑے معاملات پر امریکا کے ساتھ تعاون کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتا ہے۔ لیکن انھوں نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ دیگر ممالک کے ساتھ امریکا کے اتحاد کو بحال کرنے کے لیے کام کریں گے، جو چین کے سپر پاور عزائم کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

امریکا اور چین میں اس وقت معاشی  لڑائی ہو رہی ہے چین معاشی طور پر آگے نکل رہا ہے اور پوری دنیا میں اس وقت چین کا چرچا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا ان چار سال میں جو بائیڈن کے چین کے ساتھ کیسے تعلقاق ہوں گے ۔

دوسری جانب ایران جو پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ امریکا میں جو بھی صدر آئے اس سے ایران کو کوئی بھی فرق نہیں پڑ سکتا۔ خارجہ پالیسی پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ سابق امریکی صدر اوباما کے دور میں جو معاہدہ ایران کے ساتھ ہوا تھا جسے موجودہ امریکی صدر ٹرمپ نے ختم کر دیا تھا، کہا جا رہا ہے کہ اب جو بائیڈن کے آنے سے ایران کے ساتھ بھی امریکا کے تعلقات میں جو شدت تھی وہ بہتر ہو جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔