بلوچستان کے اہم رہنماؤں کے استعفوں سے سیاست میں ہلچل

رضا الرحمٰن  بدھ 11 نومبر 2020
چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور نواب ثناء اﷲ زہری کے مابین ملاقات مستقبل میں اہمیت کی حامل ہے۔ فوٹو : فائل

چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور نواب ثناء اﷲ زہری کے مابین ملاقات مستقبل میں اہمیت کی حامل ہے۔ فوٹو : فائل

 کوئٹہ: ن لیگ بلوچستان کے صدر اور سا بق وفاقی وزیر جنرل(ریٹائرڈ) عبدالقادر بلوچ اور سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اﷲ زہری نے فوج پر تنقید کے حوالے سے سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیانیہ کے خلاف پارٹی کے عہدے اوررکنیت سے مستعفی ہوگئے۔

دونوں رہنماؤں نے یہ اعلان گزشتہ دنوں صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ن لیگ کے ڈویژنل وضلعی عہدیداران کے ایک مشاورتی اجلاس میں کیا جس میں پارٹی عہدیداران وکارکنوں کے علاوہ سیاسی وقبائلی عمائدین کی بھی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔

سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اﷲ خان زہری نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے علاوہ بی این پی کے سربراہ سردار اخترجان مینگل کو بھی ہدف تنقید بنایا، ان کا کہنا تھا کہ اب وہ کھل کرنواز شریف کی مخالفت کرینگے آج سے ان کا نواز شریف سے کوئی واسطہ نہیں بلکہ نواز شریف کا اصل روپ اب وہ گلی گلی گھرگھر دکھائیں گے ڈسنا نواز شریف کی فطرت میں شامل ہے۔

انہوں نے اپنے محسنوں کو کبھی نہیں چھوڑا، ضیاء الحق کا بیٹا بھی نواز شریف کی بے وفائی کے قصے سناتا ہے۔ جنرل(ریٹائرڈ) عبدالقادر بلوچ کا ن لیگ سے علیحدگی کے حوالے سے کہنا تھا کہ یہ کہا جا رہا ہے کہ نواب ثناء اﷲ زہری کو پی ڈی ایم کے کوئٹہ جلسے میں شرکت سے روکنے کے معاملے پر ہم نے ن لیگ کو چھوڑا ہے جوکہ غلط تاثر  ہے اصل میں ہم نے فوج کیخلاف نواز شریف کے بیانیہ پر پارٹی کو خیربادکہا ہے۔

آرمی چیف فوج کی کمانڈ کرتے ہیں اگر کسی نے کچھ کہنا ہے تو ان سے کہیں نہ کہ ان کے ماتحت کو کہیں کہ ان کی بات نہ مانیں، بلوچستان میں ن لیگ اکثریت حاصل کرتی ہے لیکن شہباز شریف اور چوہدری نثار جہاز میں آتے ہیں اور ایک کمرے میں ملاقات کرکے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ نواب ثناء اﷲ زہری پارلیمانی لیڈر نہیں ہونگے نواب زہری اپنے بچوں کی قربانی دیتے ہیں اور ان سے ان کا حق چھینا جاتا ہے اور کوئی وجہ بھی نہیں بتائی جاتی تو یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے اور میری درخواست پر نواب ثناء اﷲ زہری پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کیلئے دبئی سے آتے ہیں اور بحیثیت پارٹی کے صوبائی صدر مجھے اعتماد میں لئے بغیر نواب ثناء اﷲ زہری کو جلسے میں شرکت سے روک دیاجاتا ہے۔

اور وجہ پوچھنے پر بتایا جاتا ہے کہ پارٹی کا فیصلہ ہے اختر مینگل ناراض ہو جائیں گے جبکہ مریم نواز شریف کی خواہش پر کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے جلسہ سے ایک روز قبل خواتین کا ورکرز کنونشن بلایاجاتا ہے لیکن ان کی اخلاقی تربیت یہ ہے کہ وہ کنونشن سے خطاب کے فوری بعد چلی گئیں اور خواتین ورکرز سے ہاتھ تک ملانا گوارا نہیں کیا، یہ وہ وجوہات ہیں۔

جن کی بناء پر ہم نے (ن) لیگ سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا۔ میڈیا ٹاک کے دوران جب جنرل(ریٹائرڈ) قادر بلوچ اور نواب ثناء اﷲ زہری سے پوچھاگیا کہ وہ مستقبل میں کس جماعت میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں توان کا کہنا تھا کہ پی پی پی کی قیادت نے ان سے رابطہ کیا ہے لیکن انہوںنے ابھی تک کسی بھی جماعت میں شمولیت کا فیصلہ نہیں کیا فی الحال وہ مشاورت کرینگے جس کے بعد اپنے سیاسی مستقبل کا اعلان کرینگے، دونوں رہنماؤں کا ایک اور سوال کے جواب میں یہ کہنا تھا کہ پی ڈی ایم میں جلد پھوٹ پڑنے والی ہے ۔

ہم فوج کی  سیاست میں مداخلت کے خلاف ہیں کبھی نہیں چاہیں گے کہ فوج سیاست یا الیکشن میں مداخلت کرے۔ ن لیگ کی مرکزی قیادت شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کا جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقادر بلوچ اور نواب ثناء اﷲ زہری کی ن لیگ سے علیحدگی پر اپنے رد عمل میں کہنا تھا کہ ن لیگ سے الگ ہونے کی وجہ بیانیہ نہیں کچھ اور ہے، جلسے میںنواب زہری کو مدعو نہ کرنے کو نواز شریف کے بیانیہ سے ملانا درست نہیں اسٹیج پر کرسی نہ ملنے پر کوئی راہیں جدا کرتا ہے تو اسکی مرضی ہے، جنرل(ریٹائرڈ) قادر بلوچ کے بیان پر افسوس ہے ان سے یہ توقع نہیں تھی انہوںنے اپنی سیاست کو تباہ کیا جو عزت ووقار تھا وہ مجروح کیا جس پارٹی نے انہیں عزت دی وہ اسکی لاج نہیں رکھ سکے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ن لیگ کی موجودہ تحریک کسی ایک نواب سردار کی اسٹیج پر کرسی سے بڑی تحریک ہے یہ پاکستان میں آئین کی سربلندی پی ڈی ایم کے اتحاد کی تحریک ہے سب کو ساتھ لیکر چلنا ہمارا مشن ہے۔ سیاسی حلقوںکے مطابق بلوچستان اسمبلی میں ن لیگ کے پاس نواب ثناء اﷲ زہری کی صورت میں صرف ایک نشست تھی اب ان کی علیحدگی کے بعد یہ نشست ن لیگ کے کھاتے میں نہیں رہی۔

دیکھنا یہ ہے کہ آیا ن لیگ کی قیادت نواب ثناء اﷲ زہری جوکہ ن لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے کو فلورکراسنگ کے زمرے میں آنے پر ایکشن لیتی ہے یا پھر خاموشی اختیار کرتی ہے کیونکہ میڈیا سے گفتگو کے دوران جب نواب ثناء اﷲ زہری کی توجہ اس معاملے کی طرف مبذول کرائی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات کی پرواہ نہیں ہے نشست لینی ہے تو لے لیں؟

سیاسی حلقوں میں اس وقت نوب ثناء اﷲ زہری ان کی صوبائی اسمبلی کی نشست اور جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقادر بلوچ کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے کافی بحث ومباحثہ جاری ہے جس نے صوبے کی سیاست کو گرم کر رکھا ہے۔ پی پی پی کے ذرائع یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ عبدالقادر بلوچ نواب زہری سمیت 26 سیاسی شخصیات جن میں موجودہ اور سابقہ ارکان اسمبلی شامل ہیں وہ پی پی پی میں شمولیت اختیار کرنے والے ہیں۔

بعض سیاسی حلقے اس دعوے سے اتفاق نہیں کرتے ان کا کہنا ہے کہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور نواب ثناء اﷲ زہری کے مابین ملاقات مستقبل میں اہمیت کی حامل ہے گوکہ چیئرمین سینٹ ان کی اہلیہ کی تعزیت کیلئے گئے تھے لیکن اس دوران سیاسی گپ شپ کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

ان سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی گروپ میں بھی کچھ ہلچل سی دکھائی دے رہی ہے بعض غیرمنتخب پارٹی رہنماؤں کو وزیراعلیٰ جام کمال خان عالیانی کی جانب سے اہمیت دینے اور منتخب نمائندوں کو نظرانداز کر کے انہیں ترقیاتی فنڈز کی فراہمی پر بی اے پی کے بعض ارکان اسمبلی سخت نالاں ہیں اور وہ اس حوالے سے پارٹی کے پارلیمانی گروپ میں احتجاج ریکارڈ کرانے کیلئے ایک دوسرے سے رابطے کر رہے ہیں۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی صوبائی صدارت سے جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقادر بلوچ کے مستعفی ہونے کے بعد ن لیگ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی اہم سیاسی شخصیات اس عہدے کے حصول کیلئے سرگرم ہوگئی ہیں اور اس حوالے سے پارٹی کی مرکزی قیادت نے بھی مشاورت کا آغاز کر دیا ہے۔

بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کے کوئٹہ جلسے سے ایک روز قبل ن لیگ میں شمولیت اختیار کرنے والے شیخ جعفر مندوخیل اور سابق وفاقی وزیر سردار یعقوب ناصر کے حوالے سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اس عہدے کیلئے ان کے ناموں پر غور کیا جا رہا ہے اور آئندہ چند روز میں مشاورت مکمل کر لی جائیگی جس میں پارٹی کے سربراہ وسابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو بھی آن بورڈ لے کر رائے لی جائے گی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔